وقت کی ابتدا سمجھ میں آتی ہے نہ انتہا۔ یہ ایک دھارا ہے۔ اِدھر سے آرہا ہے، اُدھر جارہا ہے۔ وقت کو ماضی، حال اور مستقبل کے خانوں میں ہم نے بانٹا ہے صرف اپنی سہولت کے لیے۔ ہم تمام معاملات کو وقت کے تین خانوں میں رکھ کر جانچتے، پرکھتے اور سمجھتے ہیں۔ وقت کی تقسیم و تطبیق کے ذریعے ہم اپنے معاملات کو درست رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خدا نے وقت کو اِکائی کی شکل میں خلق کیا ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہم کس زمانے میں جیتے ہیں۔ حال میں؟ لگتا تو ایسا ہی ہے۔ یہ دنیا عجیب ہے۔ یہاں جو کچھ دکھائی دے رہا ہوتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ کبھی کبھی دکھائی ہی نہیں دیتا۔ ظاہر کی بنیاد پر باطن کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا کسی بھی درجے میں دانش مندی نہیں۔ وقت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ حال ہے۔ جو زمانہ گزر چکا ہے وہ ماضی ہے اور جو ابھی آیا ہی نہیں وہ مستقبل ہے۔ کیا کوئی بھی انسان حال سے نکل کر بھی جی سکتا ہے؟ یہ اہم سوال ہے کیونکہ اِس کے درست جواب کی بنیاد پر ہم اپنے لیے بہت کچھ طے کرتے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ ہم حال میں کم ہی جیتے ہیں۔ ہمارا بیشتر وقت ماضی میں گزرتا ہے یا پھر مستقبل میں۔ گزرے ہوئے زمانوں کو یاد کرکے خوش ہونا یا ناخوش رہنا یا پھر آنے والے زمانے کے سپنوں میں کھوئے رہنا ہمارے مزاج کا حصہ ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ آنے والے زمانے سے کہیں زیادہ ہم گزرے ہوئے زمانوں میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانے ہمارے حافظے کی دیواروں پر نقش ہوکر رہ گئے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ماضی کے بارے میں سوچتے رہنا، اُن زمانوں میں گم رہنا بہت حد تک ذہنی مرض ہے۔ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ جو زمانے اب تبدیل نہیں ہوسکتے ہم اُن کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ گزرے ہوئے ہر دور کے بارے میں سوچتے وقت ہمارے ذہن میں یہ تصور بھی ابھرتا ہے کہ کاش ایسا ہو جاتا یا ویسا ہو جاتا۔ یہ ''کاش‘‘ اگر ایک بار ذہن میں جگہ بنالے تو پھر اِسے ٹالنے کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں۔
ماضی کس لیے ہوتا ہے؟ محض یاد کرنے کے لیے؟ کُڑھنے کے لیے؟ دل جلانے کے لیے؟ دوسروں کی زیادتیاں یاد کرکے دل مسوس کر رہ جانے کے لیے؟ یا اپنی خطائیں یاد کرکے خود کو پچھتاوے کی نذر کرنے کے لیے؟ جناب! ماضی صرف اس لیے ہوتا ہے کہ اِس سے سبق سیکھا جائے۔ 1994 میں ریلیز ہونے والی فلم ''The Lion King‘‘ کا ایک خوبصورت جملہ ہے ''جی ہاں، گزرے ہوئے زمانے دل کو رنج سے دوچار بھی کرسکتے ہیں۔ آپ یا تو ماضی سے بھاگ سکتے ہیں یا پھر سبق سیکھ سکتے ہیں‘‘۔ ہم میں سے بیشتر کا حال یہ ہے کہ ماضی کے بارے میں سوچ سوچ کر محض کُڑھتے رہتے ہیں۔ یہ سوچنے کی توفیق کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے کہ گزرے ہوئے کسی بھی زمانے کو زیادہ یاد کرنے سے دل کو محض تکلیف پہنچتی ہے۔ اگر اُس زمانے کی یادیں حسین ہوں تب بھی دل کو تکلیف ہی پہنچتی ہے کیونکہ انسان اُن حسین یادوں کا موازنہ اپنی موجودہ زندگی سے کرتا ہے اور یہی سوچتا رہتا ہے کہ کاش یہ زمانہ بھی ویسا ہوتا یعنی دل کو خوش رکھنے کا سبب بنتا۔
کسی بھی انسان کے لیے ایک انتہائی بنیادی مسئلہ یہ طے کرنا ہے کہ زندگی کس زمانے میں گزاری جانی چاہیے۔ اگر کسی کو ماضی کی پرستش کی بیماری لگ جائے تو وہ سانس لیتا ہے زمانۂ حال میں اور زندگی بسر کرتا ہے گزرے ہوئے زمانوں میں۔ یہ کیفیت ذہن پر دباؤ میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔ وقت کو تین خانوں میں بانٹنا ہمارے مسائل کا حال نہیں بلکہ ہماری آزمائش تو اِس بات میں ہے کہ ہم کس زمانے میں جئیں گے۔ جو زمانہ ابھی آیا ہی نہیں اُس کے بارے میں سوچنا ایک خاص حد تک ہی مفید ہوسکتا ہے۔ مستقبل کے لیے تیار رہنا ہر انسان کے لیے عقل کا سودا ہے مگر یہ تیاری بھی ایک خاص حد تک ہونی چاہیے۔ اگر کوئی ماضی اور حال دونوں کو بھول کر صرف مستقبل کے بارے میں سوچتا رہے تو ذہن و دل غیر متوازن ہو رہتے ہیں۔ ہمارے حصے کا وقت اِس لیے نہیں ہے کہ اِسے تین خانوں میں بانٹ کر سکون کا سانس لیا جائے۔ جینا تو ہمیں زمانۂ حال ہی میں ہے۔ ہاں‘ ماضی اور مستقبل کی طرف ذہن کو لے جانا اور واپس لانا چاہیے۔ مستقبل چونکہ ابھی آیا نہیں اِس لیے ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ اُس کے دامن میں ہمارے لیے کیا ہے۔ ماضی سے ہم چونکہ گزر کر آئے ہیں‘ ہمیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہم اُن زمانوں سے گزرتے وقت کس ذہنی کیفیت کے حامل تھے۔ آج اگر ہم اُن زمانوں کے بارے میں سوچیں تو اُن سے صرف ایک ہی چیز کشید کی جاسکتی ہے ... سبق۔ گزرا ہوا ہر زمانہ انسان کو کچھ نہ کچھ سکھانے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم چاہے جتنا بھی انکار کریں، حقیقت یہ ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں سے ملنے والے اسباق ہی ہمارے لیے کسی کام کے ہوسکتے ہیں۔ خالص علمی انداز سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہم کہنے کو تو زمانۂ حال میں جیتے ہیں مگر یہ زمانہ پایا ہی نہیں جاتا! جو پل آتا ہے وہ پل بھر میں ماضی بن جاتا ہے۔ گھڑی کی طرف دیکھیے۔ گھڑی میں سیکنڈ کے کانٹے کی ٹِک ٹِک بتارہی ہے کہ جو پل آتا ہے وہ پلک جھپکتے میں ماضی کا حصہ بن جاتا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے والے پل جو ابھی مستقبل کا حصہ ہوتے ہیں‘ پل بھر میں ماضی کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔ زمانۂ حال تو ایک لمحے کا بھی نہیں۔ یہ دراصل ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ خالص زمانۂ حال ہوتا ہی نہیں۔ یہ صرف ہمارے ذہن کی پیداوار ہے۔ حقیقت اگر ہے تو صرف ماضی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی طاقتور ہوتا جاتا ہے۔ ایک یہی برتن ہے جو بھرتا رہتا ہے، خالی ہونے کا نام نہیں لیتا۔
ماضی ہمارے لیے بہت بڑے دردِ سر کی طرح ہے۔ اِس کی بُھول بھلّیاں ہمیں اپنے وجود تک بھی پہنچنے نہیں دیتیں۔ جو ماضی میں گم رہنے کا عادی ہوا وہ پھر کبھی اپنے آپ کو میسر نہ ہوسکا۔ ماضی پرستی (ناسٹلجیا) ایسا ذہنی مرض ہے جو باقی دونوں زمانوں کو کھا جاتا ہے۔ اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مبنی ماضی اور دوسروں کے گزارے ہوئے زمانوں میں گم رہنا کبھی کبھی تو بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے‘ ہر وقت نہیں۔ گزرے ہوئے اچھے زمانے بھی اگر زیادہ ذوق و شوق سے یاد رکھے جائیں تو ہمارے وقت کا بڑا حصہ کھا جاتے ہیں اور ہمیں کسی کام کا نہیں رہنے دیتے۔ ماضی میں گم رہنے سے انسان رفتہ رفتہ زمانۂ حال میں زندگی بسر کرنے کے لطف سے محروم ہوتا جاتا ہے۔ خالص علمی بنیاد پر تجزبہ کیجیے تو زمانۂ حال کچھ نہیں مگر توجہ سے غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ زمانہ کسی نہ کسی شکل میں ہمارے ساتھ رہتا ہے یا یوں کہیے کہ ہم اِس کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ کہنے کو یہ زمانہ مستقبل سے ماضی کی طرف وقت کے لڑھکتے رہنے سے عبارت ہے مگر ہم ساری منصوبہ سازی اِسی زمانے میں کرتے ہیں، گزرے ہوئے زمانوں کے بارے میں سوچتے بھی ہم اِسی زمانے میں ہیں اور مستقبل کے بارے میں سارے اندازے بھی اِسی زمانے میں لگاتے ہیں۔ ایسے میں یہ کسی بھی اعتبار سے عقل کا سَودا نہیں کہ زمانۂ حال کو نظر انداز کرکے کسی اور زمانے سے متعلق خیالات و تصورات میں گم رہا جائے۔ دانش کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ زمانۂ حال میں رکھے۔ اِس زمانے کا حق یہ ہے کہ اِس میں زیادہ سانس لیا جائے۔
ماضی اِس لیے ہے کہ ہم اِس سے سبق سیکھیں۔ یادیں خوش گوار ہوں تو دِل بہلاتی ہیں مگر اِن یادوں کو حرزِ جاں بنانے سے بھی دُکھ ہی ملتے ہیں۔ انسان ماضی اور حال کا موازنہ کرنے پر خود کو خسارے میں محسوس کرتا رہتا ہے۔ ماضی کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں اور یکسر بھول جانا بے عقلی کی علامت ہے۔ ماضی ہمارے لیے زندگی کی سمت درست کرنے والے اسباق کا خزانہ ہے۔ ہم اُس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور اُسے اِسی زاویۂ نگاہ سے دیکھنا باشعور ہونے کی ایک روشن دلیل ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved