تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     05-08-2023

پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر

یکم اگست کو وزیراعظم شہباز شریف کے اسلام آباد میں معدنیات پر بین الاقوامی سربراہی کانفرنس سے خطاب میں بھارت کے ساتھ بات چیت پر آمادگی کے اظہار کے 48گھنٹے کے اندر امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے فوری اور مثبت ردِ عمل ایک معنی خیز اور اہم واقعہ ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملک (بھارت) کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے کیونکہ مسائل بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوتے ہیں اور اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں‘ جنگ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور بھارت نے گزشتہ 75برسوں میں تین بڑی جنگیں لڑی ہیں‘ مگر ان جنگوں سے (دونوں ملکوں) میں غربت میں اضافے اور وسائل کے ضیاع کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس لیے باہمی تنازعات کو حل کرنے کے لیے بات چیت اور پُرامن ذرائع کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ پاکستان اس راستے کو اپنانے پر تیار ہے بشرطیکہ ہمارا ہمسایہ ملک بھی سنجیدگی کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہو۔
وزیراعظم شہباز شریف کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی ڈپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ کا تو ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو باہمی بات چیت کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دونوں ملکوں پر زور دیا کہ وہ متنازعہ مسائل کے حل کے لیے براہِ راست بات چیت کا آغاز کریں۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان اور بھارت پر باہمی کشیدگی میں ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے براہِ راست دو طرفہ مذاکرات کے حق میں اکثر بیانات آتے رہتے ہیں‘ لیکن تازہ ترین بیان کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے کہ یہ ایک ایسے موقع پر جاری کیا گیا جب اسلام آباد میں پاکستان کے معدنی ذخائر کو استعمال میں لانے کے لیے اہم بین الاقوامی کمپنیوں کو سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے کے لیے ایک سربراہی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی اور پاک امریکہ تعلقات میں نمایاں بہتری اور اہم شعبوں خصوصاً علاقائی سلامتی میں تعاون کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں‘ اس کی خاص اہمیت واضح ہوتی ہے کیونکہ پاکستان میں غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری میں کچھ عرصہ سے تشویشناک کمی کی وجہ جہاں پاکستان کے غیریقینی حالات اور سیاسی عدم استحکام‘ لا اینڈ آرڈر اور سکیورٹی مسائل رہے ہیں وہیں پاک بھارت کشیدگی‘ خصوصاً اگست 2019ء کے بعد کے حالات کا بھی بڑا اہم کردار رہا ہے۔ اس لیے نہ صرف پاکستان کے مقامی بلکہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو بھی امن اور استحکام پر مبنی سازگار ماحول کی ضرورت ہے اور ان سازگار حالات کو مہیا کرنے کی گارنٹی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں اس معدنیات پر سربراہی کانفرنس اور اس سے قبل سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (SIFC) کے مقاصد کے حصول کے لیے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ہمسائیگی میں بھی غیر یقینی اور کشیدگی سے پاک ماحول لازم ہے۔ پاکستان کو اس ضمن میں چین سے سبق سیکھنا چاہیے۔ آج سے چند دہائیاں قبل جب چینی رہنما ڈینگ ژیاؤ پنگ کے نظریے کے تحت چین نے اندرون ملک معاشی ترقی اور بیرون ملک منڈیوں کی تلاش پر فوکس کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے سب سے پہلے ڈیڑھ درجن کے قریب اپنے چھوٹے بڑے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو پُرامن اور نارمل سطح پر لانے کی کوششوں کا آغاز کیا اور ان کوششوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے چین نے ان ملکوں‘ جن میں بعض کے ساتھ اس کے علاقائی تنازعات بھی تھے‘ سے فراخ دلانہ رویہ اختیار کیا کیونکہ چین کی قیادت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ پُرامن سرحدوں کے بغیر قومی ترقی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے سے قبل چین کے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ سوائے بھارت کے اختلافات ختم ہو چکے ہیں۔ ان ممالک میں مشرق بعید کے ممالک یعنی جاپان‘ جنوبی کوریا‘ لاؤس ‘ ویتنام‘ روس اور وسطی ایشیا کے ممالک شامل ہیں۔ آج ان ممالک کے ساتھ تجارت اور معاشی شعبے میں شراکت چین کی ترقی کا اہم پہلو ہے۔ چین کی ترقی میں علاقائی امن کے کردار کو دیکھ کر مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے 2013ء کے انتخابات سے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ کامیابی کی صورت میں پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی کے خاتمے اور قیامِ امن کو ترجیح دیں گے۔ اس وقت نواز شریف کی اس سوچ کو پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی تھی لیکن آج حالات بدل چکے ہیں۔ پاکستان اپنی سرحدوں پر کشیدگی کی موجودگی میں اپنے داخلی بحران پر قابو نہیں پا سکا۔ اس لیے پاکستان کے تمام دوست ممالک جن میں چین اور خلیجی عرب ممالک بھی شامل ہیں‘ پاکستان کو بھارت کے ساتھ نارمل اقتصادی اور تجارتی تعلقات کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ خود ان ممالک نے بھارت کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں گہرے تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔
فروری 2022ء میں یوکرین پر روس کے حملے نے نہ صرف یورپ بلکہ ایشیا اور افریقہ پر بھی گہرے جیو پولیٹکل اثرات مرتب کیے۔ اس جنگ کی وجہ سے روس اور وسطی ایشیا کے ممالک کی توجہ جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان پر مرکوز ہے اور وہ سمندر پار منڈیوں کے ساتھ رابطے کے لیے بلوچستان کے ساحل پر واقع بندرگاہ گوادر کو استعمال کرنا چاہتے ہیں‘ ان بیرونی منڈیوں میں روس سمیت وسطی اور مغربی ایشیا کے ممالک کے لیے بھارت خاصا اہم ہے اور یہ تمام ممالک چاہیں گے کہ افغانستان اور پاکستان کے راستے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط قائم کیے جائیں۔ پاکستان نے اب تک اپنی سرزمین سے بھارت اور وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان تجارت کی سکیورٹی وجوہات اور کشمیر پر بھارت کے ساتھ تنازع کے پیش نظر اجازت نہیں دی۔ پانچ اگست 2019ء کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف ہر قسم کی تجارت بند ہے بلکہ ثقافتی اور سفری تعلقات پر بھی پابندی ہے۔ اس صورتحال کوطول دینے کی کوشش کی گئی تو دونوں ملکوں کا مفاد متاثر ہو گا بلکہ سی پیک‘ بی آر آئی اور ایس سی او کی چھتری تلے علاقائی روابط کے جو انیشی ایٹو ہیں‘ ان کے پیشِ نظر نہ صرف پاکستان اور بھارت کو اپنی دو طرفہ تجارت بحال کرنا پڑے گی بلکہ کچھ عرصہ بعد پاکستان کے راستے جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان تجارت اور توانائی کی ترسیل کی سہولتیں بھی قائم کرنا پڑیں گی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر میں بھارت کے ساتھ بات چیت پر آمادگی کا اظہار اور امریکہ کی طرف سے اس کی فوری حمایت کی اہمیت کو اس تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ عالمی سطح پر محاذ آرائی کے باوجود پاک بھارت تنازعات کے حل کے لیے براہِ راست بات چیت کی ضرورت کو امریکہ اور چین دونوں کی حمایت حاصل ہے کیونکہ جنوبی ایشیا کے امن سے دونوں ملکوں کے معاشی اور سکیورٹی کے مفادات وابستہ ہیں۔ پانچ اگست 2019ء کے ناجائز اور عالمی قوانین کے منافی بھارتی اقدام کے باوجود پاکستان کے وزیراعظم نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت پاکستان کی ہاکی ٹیم اس وقت ایشیائی چیمپئن شپ کے لیے بھارت میں موجود ہے۔ اگر پاکستان ورلڈ کپ میچز کے لیے اپنی کرکٹ ٹیم بھی بھارت بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری کے خاتمے کا آغاز ہو جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved