چند قومی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کے خلاف ’’امریکی کمانڈوز‘‘ کی طرف سے ایبٹ آباد طرز کے آپریشن کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی نقل و حرکت محدود کرتے ہوئے ان کی سکیورٹی میں اچانک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ 2006ء میں بھی جب وہ عالمی میڈیا کے نشانے پر تھے‘ انہیں نظر بند کر دیا گیا تھالیکن اس وقت پاکستانی میڈیا کے کچھ افراد یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہر مسلمان ایٹمی سائنسدان کے قتل اور اغوا کے پیچھے موساد، سی آئی اے اور برطانیہ کی ایم آئی6- کا ہاتھ ہوتا ہے‘ جنرل مشرف کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ یہ لوگ اس حقیقت سے بے خبر نہیں تھے کہ اسرائیل، برطانیہ اور امریکہ کے ہاتھوں اب تک لبنان، مصر اور ایران کے کئی ایٹمی سائنسدان قتل ہو چکے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ صرف عراق کے350 نیو کلیئر سائنسدان اور300 کے قریب عراقی پروفیسروں کو اس بنا پر قتل کر دیا گیا کہ وہ اپنی یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو ایٹمی ریسرچ کی تعلیم دے رہے تھے؟ مسلمان سائنسدانوں کے قتل کی طویل تاریخ ہے جو اسرائیلی‘ امریکی اور برطانوی بربریت کی گواہی دے رہی ہے۔ جب معاملہ پاکستان کا آتا ہے تو بھارت قاتل ایجنسیوں کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا صاف نظر آتا ہے۔ عرب دنیا میں ایڈیسن کہلانے والے لبنان کے حسن کمال صباح اور مسلمانوں کے آئن سٹائن مصطفی علی‘ جن کی علمی قابلیت کا مغرب بھی معترف تھا‘ اسرائیلی بربریت کا نشانہ بنے۔ عراق کے محمد الفوز کا قصور یہ تھا کہ اس نے یورینیم تیار کرنے کا ایک انوکھا اور نیا طریقہ ایجاد کر لیا تھا اور اپنی اس تخلیق کے بارے میں اس نے مغربی ممالک کے چند رسائل میں اپنا تحقیقی مقالہ لکھ دیا تھا۔ اس مقالے کا چھپنا تھا کہ چند دن بعد اسے بغداد میں نا معلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔فریدون عباسی داوانی‘ جو ایٹمی میدان میں سکہ بند سائنسدان بن چکے تھے‘ نا معلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ اس کے علا وہ جمال ہمدانی، سعید سید اور سلوی حبیب ایٹمی ریسرچ کے ایسے ہیرے تھے جن کی چمک دن بد ن بڑھتی جا رہی تھی لیکن ان کی یہ صلاحیت دشمن ممالک کو کھٹکی اور بالآخر ان کی موت پر منتج ہوئی۔ 1952ء میں مصر کی مشہور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر سمیرہ موسیٰ کو امریکہ میں نامعلوم گاڑی نے کچل کر ہلاک کر دیا تھا۔ آج تک اس گاڑی اور اس کے سواروں کا کوئی پتا نہیں چل سکا۔ 1967ء میں مصر کے ہی ایک ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر سمیر نجیب نامعلوم سمت سے آنے والی گولی سے جاں بحق ہوئے۔ آج تک قاتل سامنے نہیں لائے جا سکے۔ 1980ء میںعراق کے ایٹمی پروگرام کے چیف ڈاکٹر یحییٰ امین المعدی پیرس میں نا معلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہو گئے اور قاتلوں کا آج تک سراغ نہیں ملا۔ عراق کے ایٹمی پلانٹ کی تباہی کے بعد 1980ء کی دہائی کے وسط سے پاکستان کی جوہری لیبارٹری (کہوٹہ) اسرائیل اور بھارت کے نشانے پر تھی۔ بھارتی انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز میں اس خبر نے تہلکہ مچا دیا کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دفتر سے انتہائی خفیہ فائل ’’کہوٹہ پر حملہ‘‘ غائب کر دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فائل پر اندرا گاندھی نے کہوٹہ پر حملے کی با قاعدہ منظوری دے دی تھی۔ یہ خبر جاری ہونے کے چند گھنٹے بعد اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے بیان جاری کیا کہ ’’ان کی اطلاع کے مطا بق بھارت پاکستان کے ایٹمی مراکز پر اس طرز کا حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے جس طرح اسرائیل نے عراق پر کیا تھا‘ جس کے نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے‘‘۔ یہ بیان جاری ہوتے ہی بھارت نے اپنا ارادہ کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دیا اور پھر22 ستمبر1984ء کو نیو یارک ٹائمز نے خبر دی کہ بھارتی وزیر اعظم کو ان کے دفاعی اداروں نے پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس پر10 اکتوبر1984ء کو پاکستان میں امریکی سفیر ڈین ہنٹن نے لاہور ائر پورٹ پر میڈیا سے گفتگو میں خبردار کیا کہ اگر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو کسی بھی طرف سے نقصان پہنچایا گیا تو یہ امریکہ پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ وقت وہ تھا جب پاکستان افغانستان میں روس کے خلاف بر سر پیکار تھا۔ 31 اکتوبر1984ء کو وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے ہی سرکاری سکھ محافظوں کے ہاتھوںقتل کر دی گئیں۔ 21 نومبر 1984ء کو امریکہ میں جوناتھن پولارڈ نامی ایک اسرئیلی جاسوس گرفتار ہوا جس کی گرفتاری نے عالمی میڈیا اور سفارتی میدان میں تہلکہ مچا دیا۔ جوناتھن پولارڈ امریکی نیوی میں ملازم تھا۔ جب اس کی اصلیت بے نقاب ہوئی تو اس نے بھاگ کر اسرائیلی سفارت خانے میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن اندر داخل ہونے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اقرار کیا کہ امریکی سی آئی اے کی کہوٹہ کے بارے میں تیار کی گئی رپورٹ کی ایک نقل اس نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو فراہم کی تھی۔ اسرائیل کو ایک بار پھر خبر ہو گئی کہ مصری حکومت یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت کے لیے کام کر رہی ہے۔ 1989ء میں مصر کے ایک اہم ترین ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر سعید البدیر کو اسکندریہ میں ان کے اپارٹمنٹ میں پر اسرار طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ دور وہ تھا جب مسلم ممالک ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ یہی وقت تھا جب اسرائیل کی سرحدوں سے قریب ترین ممالک اس کے لیے خطرہ بن کر سامنے آ چکے تھے۔ ان مسلم ممالک کے چوٹی کے ایٹمی سائنسدانوں کو پُراسرار طریقے سے قتل کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فضائیہ نے سب کے سامنے عراق کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کردیا۔ اس طرح مصر اور عراق جو ایٹمی صلاحیت حاصل کی پوزیشن میں آ چکے تھے‘ ناکام ہو گئے۔ اب اسرائیل کے سامنے دو مسلم ممالک ایسے تھے جو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے قریب تھے۔ اُسے سب سے زیا دہ خطرہ پاکستان سے تھا کیونکہ شاہ ایران کے دور میں ایٹمی صلاحیت کاتو وہ نام بھی نہیں لیتے تھے۔ 21 جنوری2007ء کو ایران کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ارد شیر حسن پور‘ جو اصفہان میں ایرانی ایٹمی ریسرچ سنٹر کے سربراہ تھے‘ کو پراسرار طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ جنوری2010ء میں ایرانی پروفیسر سعود علی محمدی کو تہران میں ایک بم دھماکے میں ہلاک کیا گیا اور پھر 29نومبر 2010ء کو ایران کے ہی ایک ا ور ایٹمی سائنسدان پروفیسر ماجد شہریار تہران میں ایک بم دھماکے میں ہلاک کر دیے گئے۔ اسی طرح لبنان کے رمل حسن رمل جیسے قیمتی اور ان تھک ایٹمی سائنسدان خاموشی سے پراسرار قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ شاید ہمارے مسلمان ممالک میں اپنی ریا ست کے باہر جھانکنے کی ہمت اور طاقت نہیں جبکہ ان کے مقابلے میں اسرائیل کی بے خوفی اور طاقت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ وہ جب چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے اپنے ہدف کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ 19 جنوری2010ء کا وہ واقعہ سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جب حماس کا ایک سینئر ملٹری کمانڈر امارات ایئر لائن کی پروازEK912 کے ذریعے جونہی دوبئی کے ہوٹل بوستان کے کمرہ نمبر230 میں پہنچا‘ قاتلوں کی بربریت کا نشانہ گیا۔ سب جان چکے ہیں کہ وہ اسرائیل سے آئے تھے لیکن آج تک کسی میں ہمت نہیں کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ انٹرپول شاید صرف غریب ممالک کے مجرموں کو پکڑنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved