علامہ آلوسیؒ نے اپنی تفسیر ''روح المعانی‘‘ میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کو پیغامِ حق سنایا اور راہِ مستقیم دکھایا تو وہ آپے سے باہر ہوگیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلائل و براہین سے لاجواب ہوکر اس کو جو ندامت اور ذلت ہوئی‘ اس سے وہ سخت غضب ناک ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دہکتی آگ میں جلانے کا فیصلہ کیا‘ لہٰذا اس کام کے لیے ایک وسیع و عریض جگہ مخصوص کی گئی اور اس میں مسلسل کئی روز تک آگ دہکائی گئی‘ جس کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے اور اس کے اثر سے قرب و جوار کی اشیا تک جھلسنے لگیں۔ آگ کی شعلہ سامانی کا یہ عالم تھا کہ چڑیوں نے ادھر سے گزرنا چھوڑ دیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق میں رکھ کر اس میں ڈالا گیا۔ کہتے ہیں: اس وقت ایک بلبل دور دراز ایک چشمہ سے اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لے کر آتی اور اوپر اڑتی ہوئی آگ پر وہ قطرہ گراتی تاکہ آگ بجھ جائے۔ کسی (پرندے) نے پوچھا: اے بلبل! بھلا تمہاری اس کوشش سے کبھی آگ بجھ سکتی ہے؟ بلبل نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ ''میری اس حقیر کوشش سے آگ بجھے یا نہ بجھے‘ میں تو فقط دوستی کا حق ادا کر رہی ہوں‘‘۔ اس وقت حق تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام پر اپنی سوزش کا اثر نہ کرے اور ناری عناصر کا مجموعہ ہوتے ہوئے بھی میرے نبی کے حق میں سلامتی کے ساتھ سرد پڑ جائے۔ آگ اسی وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حق میں ''برداً و سلاماً‘‘ بن گئی اور دشمن ان کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچا سکا۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ حق تعالیٰ اپنے چاہنے والوں کی کس طرح مدد کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم دہکتی آگ میں سالم و محفوظ رہے اور دشمن کے نرغے سے بچ نکلے۔دنیا کے ہر دور میں نمرود کی آگ بھڑکتی رہی ہے۔ آج بھی چاروں طرف مفادات کی آگ بھڑک رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم چاروں طرف پھیلی ہوئی آگ کو بجھانے کی کوئی کوشش کررہے ہیں یا صرف تماش بین بنے بیٹھے ہیں؟
حکومت کے آخری ایام میں دھڑا دھڑ بلز منظور کرائے جا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی سے چار روز میں تقریباً54بلوں کی منظوری ہماری پارلیمانی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔ 24جولائی سے اب تک سینیٹ سے بھی 13بل منظور کرائے جا چکے ہیں جن میں سے کچھ بل ایوانِ بالا میں براہِ راست پیش کرکے فوری طور پر ایجنڈے میں شامل کیے گئے اور اسی وقت منظور کر لیے گئے۔ قومی اسمبلی میں بھی کئی ایسے بل پاس کیے گئے جو ایجنڈے پر موجود ہی نہیں تھے۔ اس کی مثال نگران حکومت کی مدت کے حوالے سے بل ہے جس کا ایجنڈا نہ تو وقت پر جاری کیا گیا اور نہ ہی اس کا مسودہ ارکان کو فراہم کیا گیا تھا۔لیکن کسی طبقے کی نظریں اس جانب نہیں اٹھ رہیں کہ ان بلوں کی بھرمار آخر کیوں جاری ہے؟ اس کے پیچھے کیا ایجنڈا کارفرما ہے۔ ہر حکومت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مجوزہ بلوں کی منظوری میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے‘ اس کے لیے وہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنے کے بجائے‘ اپوزیشن کو نظر انداز کرنے میں ہی سہولت محسوس کرتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ قانون سازی کے ضروری لوازمات کو اہمیت نہ دی جائے۔ قانون سازی کے بنیادی تقاضے بھی پوری نہ کیے جائیں۔ آئین کے آرٹیکل 70 تا 77 بل پیش کرنے سے اس کے قانون بننے تک تمام مراحل سے متعلق رہنمائی کرتے ہیں‘ کیا دونوں ایوانوں سے دھڑا دھڑ بلوں کی منظوری میں اس طریقہ کار پر عمل کیا جا رہا ہے؟ کئی بل تو اسمبلی کا کورم پورا کیے بغیر ہی منظور کر لیے گئے۔ ایسی قانون سازی سے مستقبل میں کیا مسائل ہو سکتے ہیں‘ یہ ان ارکانِ پارلیمنٹ کو سمجھانے کی ضرورت نہیں جو سالہا سال سے سیاست میں ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہاں اس بارے میں جاننا بھی اہم ہے کہ آخر کسی بھی بل کو پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟کوئی بھی بل سینیٹ یا قومی اسمبلی دونوں کی جانب سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس بل کے پاس ہونے کے لیے دونوں ایوانوں کی حمایت لازمی ہوتی ہے اور پھر صدر کی منظوری کے لیے اس بل کو بھیجا جاتا ہے اور ان تمام مراحل سے منظور ہونے کے بعد بل پاس ہوجاتا ہے۔گوکہ آئے روز نت نئے بلوں کا پاس ہونا حیران کن نہیں کیونکہ اگر کسی بل کو سب کی حمایت حاصل ہو تو اسے منظور ہونے کے لیے صرف چند گھنٹے ہی درکار ہوتے ہیں لیکن اس کے آئینی تقاضے ضرور پورے کیے جانے چاہئیں۔ اگر صدر کسی بل میں کوئی اصلاحات کرکے جوائنٹ ہاؤس میں بھیج دیتے ہیں اور وہ بل دوبارہ بنا کسی ترمیم کے صدر کے پاس جاتا ہے تو اسے پاس کرنے کے لیے ان کے پاس 15 دن ہوتے ہیں۔ اگر صدر کی جانب سے 15 دنوں تک کوئی بھی جواب نہیں آتا تو وہ بل منظور تصور کرلیا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بھی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے ایک ہی دن میں 33 بلوں کی منظوری دی گئی تھی جن میں سے 31 بل حکومت اور دو اپوزیشن نے پیش کیے تھے۔ اس وقت کی برسر اقتدار جماعت نے اسے اپنی پارلیمانی فتح قرار دیا تھا جبکہ اپوزیشن نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا۔لیکن آج کہیں سے کوئی احتجاجی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ کیا واقعی اس حکومتی رویے کے خلاف اس وقت کوئی آواز اٹھانے والا نہیں یا مخالف آوازوں کو بزور دبایا جا رہا ہے؟ سانحہ نو مئی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے بعد تحریک انصاف اُنہی معاملات میں اُلجھی نظر آتی ہے ‘ اس لیے نو مئی سے پہلے حکومت کو پی ٹی آئی کی طرف سے جس مخالفت کا سامنا تھا‘ اس میں بھی بتدریج کمی آنے سے اتحادی حکومت اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔
دوسری جانب تمام تر مشکلات کے باوجود چیئرمین تحریک انصاف کو اب بھی عوام کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے حامی تمام تر مشکلات کے باوجود ان کے ساتھ ثابت قدم کھڑے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ عوام کی حمایت نہ ہوتی تو ان کا سیاسی سفر کب سے اختتام پذیر ہو چکا ہوتا۔ بالخصوص ان کی قانونی ٹیم تمام تر مشکلات اور پریشانیوں میں جس طرح ان کے ساتھ کھڑی رہی‘ وہ لائقِ تحسین ہے۔ میں بہت سے وکلا کو جانتا ہوں‘ ان میں سے چند سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا ہے‘ ان کی کہانیاں سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس قدر مشکل حالات کے باوجود وہ چیئرمین تحریک انصاف کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑے ہیں۔ وکلا برادری کے دو ستارے‘ اعتزاز احسن اور سردار لطیف خاں کھوسہ بھی اپنی تمام کشتیاں جلا کر چیئر مین تحریک انصاف کے ساتھ ثابت قدم کھڑے ہیں۔ مجھے اعتزاز احسن اور سردار لطیف خان کھوسہ کے چیئرمین تحریک انصاف کے ساتھ کھڑا ہونے پر نجانے یہ شعر کیوں یاد آرہا ہے؛
بجھے چراغ پہ ہم دوستی پرکھتے ہیں
یہ رسم اپنے قبیلے میں ابتدا سے ہے
ایک طرف اعتزاز احسن ہیں کہ اہلیت اور مواقع دستیاب ہونے کے باوجود کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھا رہے‘ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو مختلف ادوار میں نہ صرف ملکی مفادات کو زک پہنچاتے رہے ہیں بلکہ مقتدر حلقوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن آج حکومتی عہدوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ آج جب تحریک انصاف کی قیادت اور حامیوں کے لیے حالات موافق نہیں ہیں‘ ایسے میں ان دو معروف اور سکہ بند قانونی ماہرین اور سیا ست میں اہم ترین مقام رکھنے والوں کی جرأت قابلِ ستائش ہے۔ آج بھی آگ ہے ‘ اولادِ ابراہیم ہے‘ نمرود ہے ۔ لیکن یہ فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے کہ ہم بلبل کے خانے میں ہیں یا دوسرے خانے میں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved