تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-08-2023

… ہو جاؤ گے تم پتھر کے

بڑھتے رہنا ہے، بڑھتے ہی چلے جانا ہے۔ زندگی کا ہر خزانہ اُن کے لیے ہے جو پیش قدمی پر یقین رکھتے ہیں، پسپائی پر نہیں۔ پیچھے ہٹنا کسی بھی اعتبار سے قابلِ قدر آپشن نہیں۔ اعتماد بڑھانے والے لٹریچر میں بیان کیا جانے والا بنیادی اور کلیدی نکتہ یہ ہے کہ ہر کامیابی صرف اُس وقت یقینی بنائی جاسکتی ہے جب انسان آگے دیکھنے کی ذہنیت کا حامل ہو۔ بات بات پر جھجک اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے والے اور کسی ٹھوس جواز کے بغیر گزرے ہوئے زمانوں کی سیر کرکے وہاں اپنے لیے گوشۂ عافیت تلاش کرنے والے آگے تو کیا بڑھیں گے، جہاں ہیں وہاں ڈھنگ سے ٹھہر بھی نہیں پاتے۔
کس میں کتنا دم ہے یہ تو صورتِ حال بتاتی ہے۔ کسی بھی صورتِ حال کے نتیجے میں سامنے آنے والا رِسپانس یا ردِعمل ہی طے کرتا ہے کہ انسان کیا کرنا چاہتا ہے، کہاں تک جانا چاہتا ہے۔ وقت ہمارے لیے قدم قدم پر کسی نہ کسی چیلنج کا اہتمام کرتا ہے۔ ہر چیلنج اِتنا بڑا نہیں ہوتا کہ ہمارے پورے وجود کو ہلا ڈالے یا ہمیں سر سے پاؤں تک مضطرب کردے؛ تاہم یہ بھی طے ہے کہ چھوٹے چیلنجز سے چشم پوشی معاملات کو خراب کرتی چلی جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب بات ''ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ کی منزل تک پہنچ جاتی ہے اور سر دھڑ کی بازی لگانا ہی پڑتی ہے۔
اپنے گزرے شب و روز کا جائزہ لینا ہر انسان کے لیے لازم ہے۔ ہم اپنے گزرے ہوئے زمانوں کے مؤثر اور بے لاگ تجزیے ہی کی مدد سے اپنے لیے کوئی ایسا لائحۂ عمل طے کر پاتے ہیں جو زمینی حقیقتوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو اور ہماری مشکلات کا تدارک یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو۔ یہ سب کچھ اُس وقت ممکن ہے جب ہم اپنے آپ سے مخلص ہوں۔ اپنے آپ سے مخلص ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان زمینی حقیقتوں کو کسی بھی حالت میں نظر انداز نہ کرے۔ ہر زمینی حقیقت صرف اِس لیے ہوتی ہے کہ اُسے تسلیم کرتے ہوئے لائحۂ عمل ترتیب دیا جائے۔ ایسا لائحۂ عمل ہی ہر اعتبار سے قابلِ اعتبار ہوتا ہے۔ اگر ہم کسی بھی مشکل کو سامنے دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں تو کسی اور کا نہیں بلکہ صرف اپنا نقصان کرتے ہیں۔
کامیابی کی راہ پر بڑھتے رہنا صرف اُن کا نصیب ہے جو راہ میں درپیش ہر مشکل کا تدارک یقینی بناتے ہیں۔ مسائل اور چیلنجز کے معاملے میں قدرت کی طرف سے کسی کو رعایت نہیں ملتی۔ بہت سوں کے ذہن میں یہ گمان گردش کرتا‘ پنپتا رہتا ہے کہ اُن کے حصے میں زیادہ مشکلات آئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے! قدرت ہر معاملے میں کامل عدل یقینی بناتی ہے۔ اُس کے نظام میں عدل سے گریز شامل ہی نہیں۔ اگر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ اُس کے حصے میں زیادہ الجھنیں آئی ہیں تو پوری دیانت اور توجہ سے دوسروں کے معاملات کا جائزہ لے۔ یہ اندازہ قائم کرتے دیر نہیں لگے گی کہ رعایت کسی کے لیے بھی نہیں۔ سبھی کو کسی نہ کسی حد تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور کامیابی کو زیادہ بارآور بنانے میں مشکلات کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ آسانی سے مل جانے والی کامیابی زیادہ پُرکشش نہیں ہوتی۔ انسان اُس پر فخر بھی نہیں کرسکتا۔ اگر کسی نے اپنی محنت سے کچھ بنایا ہو تو اُس کے بیان میں حقیقی تفاخر نمایاں ہوتا ہے۔ ترکے میں ملی ہوئی دولت یا املاک کا کریڈٹ کوئی بھی نہیں لے سکتا۔
کچھ لوگوں کو بات بات پر مُڑ کر دیکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ اعتماد کی کمی کا مظہر ہے۔ جن میں اعتماد زیادہ اور اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے وہ مڑ کر دیکھنے پر زیادہ یقین نہیں رکھتے۔ وہ زندگی کو ایسے سفر کے طور پر لیتے ہیں جس میں صرف آگے دیکھنا ہوتا ہے۔ گزری ہوئی باتوں کو زیادہ یاد کرنا اور یاد رکھنا ہمارے لیے کسی بھی اعتبار سے زیادہ سود مند نہیں ہوتا۔ شخصی ارتقا کے ماہرین اِس نکتے پر بھی بہت زور دیتے ہیں کہ انسان کو گزری ہوئی باتیں بھول کر یا ایک طرف رکھ کر‘ صرف آگے دیکھنا چاہیے، آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
مڑ کر دیکھتے رہنے کی عادت انسان کو پیش رفت کے معاملے میں کمزور کرتی ہے۔ پیش رفت کے لیے پیش قدمی لازم ہے یعنی انسان کو نتائج کے بارے میں بہت زیادہ سوچے بغیر بھی آگے بڑھنا چاہیے۔ ہر وقت سہمے ہوئے رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تھوڑی سی ہمت کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے تاکہ نتائج سے خوف کھاتے رہنے کی ذہنیت کمزور پڑے اور انسان مشکل صورتِ حال سے نمٹنے کا ہنر سیکھے۔ عملی زندگی میں طرزِ فکر و عمل کی بہت اہمیت ہے کیونکہ کامیابی کا مدار اِسی پر ہوتا ہے۔ اگر کسی کو خوفزدہ رہنے کی عادت ہو تو کوئی بھی نیا کام کرتے وقت وہ باربار گزرے ہوئے زمانے کے بارے میں سوچے گا اور ڈرتا ہی رہے گا۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
یہ طلسماتِ محبت ہے، ذرا دھیان رہے
مڑکے دیکھو گے تو ہو جاؤ گے تم پتھر کے
عملی زندگی میں انسان کو وہی حکمتِ عملی اپنانی چاہیے جو میدانِ جنگ میں اپنائی جاتی ہے یعنی مڑ کر دیکھنے اور خواہ مخواہ خوفزدہ ہونے کے بجائے آگے دیکھنے کی عادت پروان چڑھانی چاہیے تاکہ زندگی آسان ہو۔ آسان زندگی کسی کو تحفے میں نہیں ملتی۔ اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنا پڑتی ہیں۔ اگر ہم آسانیوں کی تلاش میں رہیں تو پھر اُنہیں تلاش ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ آسانیوں کو یقینی بنانے کے لیے کی جانے والی تگ و دَو ہی زندگی میں حسن پیدا کرتی ہے، اُس کا نکھار بڑھاتی ہے۔ عملی زندگی بہت حد تک طلسمات کی طرح ہے۔ اِس میں وہی لوگ زیادہ کامیاب رہتے ہیں جو اِدھر اُدھر یا پیچھے دیکھنے کے بجائے صرف آگے دیکھتے ہیں، راستے کی دشواریوں کو ذہن نشین رکھتے ہیں اور بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ عملی زندگی میں طرزِ فکر و عمل کی اہمیت اِتنی زیادہ ہے کہ اِس معاملے کو نظر انداز کرکے ہم ڈھنگ کی حکمتِ عملی تیار کر ہی نہیں سکتے۔ زندگی ہمیں قدم قدم پر آزماتی ہے۔ یہ اُس کے حصے کا کام ہے جو وہ کرتی ہی رہتی ہے۔ ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے یعنی ہر آزمائش میں پورا اُترنے کے لیے خود کو تیار کرتے رہنا ہے۔ لازم نہیں کہ ہم ہر بار کامیاب ہوں۔ متواتر کامیاب ہوتے رہنا کامیاب زندگی کی دلیل نہیں۔ زندگی کا حقیقی لطف اِس میں ہے کہ ہم مشکلات سے بھی دوچار ہوں، کبھی کبھی ناکامی یا شکست کا منہ بھی دیکھیں اور اُس سے سبق سیکھ کر اپنے آپ کو نئی کامیابیوں کے لیے بہتر طور پر تیار کریں۔
کوئی ایک دور بھی ایسا نہیں جسے ہم ہر اعتبار سے آسان قرار دے سکیں۔ جب دنیا کی آبادی زیادہ نہیں تھی اور ٹیکنالوجیز زیادہ نہیں آئی تھیں تب بھی مشکلات برقرار تھیں۔ تب پیچیدگیاں کسی اور طرح کی تھیں۔ آج معاملہ قدرے مختلف ہے۔ آج کی دنیا میں الجھنیں جسمانی کم اور ذہنی زیادہ ہیں۔ آج ایسا بہت کچھ ہے جو ہمیں جسمانی مشقت سے بچا رہا ہے؛ تاہم ذہنی کوفت کا گراف نیچے لانے والے معاملات کم ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہن پر دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ وقت کی روش ایسی ہے کہ ہمیں قدم قدم پر سنبھلنا پڑتا ہے۔ پاؤں ذرا سا غلط پڑ جائے تو انسان کہیں کا کہیں جا نکلتا ہے۔ یہ ہے آج کی زندگی کا سب سے بڑا مخمصہ۔ ایسے میں اِس بات کی اہمیت غیر معمولی ہے کہ انسان اپنے آپ کو کسی بھی غیر متوقع صورتِ حال کے لیے تیار رکھے۔ یوں پیش قدمی اور پیش رفت کی ذہنیت زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اگر ہم ہر معاملے میں ڈرتے ہی رہیں، مڑ مڑ کر دیکھتے ہی رہیں تو بڑھ چکے آگے۔ بزدلی پر مبنی یہ روش ہمیں بالآخر غیر معمولی ناکامی سے دوچار کرے گی۔
عملی زندگی کے طلسمات ہم میں سے ہر ایک کو بہت کچھ دیتے ہیں۔ اِس میں سب کے لیے کچھ نہ کچھ ہے۔ دل کو بہلانے والے معاملات بھی اور دل کو دہلانے والے واقعات بھی۔ انتخاب ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم جیسی طرزِ فکر و عمل اپنائیں گے اِس سے ویسا ہی پھل پائیں گے۔ طے کیجیے کہ اب سے صرف آگے دیکھنا ہے۔ اِدھر اُدھر کی رنگینیوں اور ویرانیوں سے واسطہ رکھے بغیر صرف آگے بڑھنا ہے۔ اس طلسمات میں مڑ کر دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ اگر پتھر ہونے سے بچنا ہے تو بڑھتے رہیے یعنی آگے دیکھتے رہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved