گزشتہ سال اپریل کے مہینے میں اقتدار سنبھالنے والی اتحادی حکومت اب چند روز کی مہمان ہے۔وزیراعظم شہباز شریف 9اگست کو صدرِ پاکستان کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ بھجوا دیں گے جس کے بعد جناب ڈاکٹر عارف علوی پر منحصر ہو گا کہ وہ اُسی برق رفتاری سے اس مشورے پر عمل کریں جس کا مظاہرہ انہوں نے(سابق) وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے کیا تھایاانتظار کرتے رہیں اور 48گھنٹے کے اندر اندر اسمبلی خود ہی تحلیل ہو جائے۔سپریم کورٹ کے جسٹس(ر) فقیر محمد کھوکھر کے بقول اگر صدرِ اسمبلی تحلیل کریں گے تو انہیں انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی حق حاصل ہو جائے گالیکن اگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے 48گھنٹے انتظار فرمائیں گے کہ وہ ازخود تحلیل ہو جائے تو پھر تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہو گا‘ اس تشریح کی روشنی میں جناب صدر بُرا بھلا خود سوچ سکتے ہیں۔یاد رہے جب وزیراعظم عمران خان کے خلاف دائر ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ایوان میں پیش کرنے اور اُس پر ووٹنگ کرانے کے بجائے ''امریکی سائفر‘‘ کو بنیاد بنا کر اُسے مسترد کر دیا تھا تو وزیراعظم نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ صدرِ مملکت کو فوراً ارسال کیا اور جناب صدر نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کر کے نئے انتخابات کی نوید سنا دی‘ وہ تو بھلا (یا بُرا) ہو سپریم کورٹ کا کہ اُس نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو خلافِ آئین قرار دے دیا۔ واضح کیا گیا کہ جب قرارداد عدم اعتماد جمع کرائی جا چکی ہو تو پھر اُس پر رائے شماری کو کسی بھی طور روکا نہیں جا سکتا۔ سو‘ قرارداد پیش کرنا پڑی‘اُس پر رائے شماری ہوئی اور عمران خان پاکستان کے پہلے ایسے وزیراعظم بن گئے جنہیں آئین میں درج طریق کار کے مطابق ایوانِ اقتدار سے باہر نکالا گیا۔ اس سے پہلے کسی وزیراعظم کے خلاف اس طرح کی تحریک منظور نہیں ہوئی تھی۔ سربراہِ مملکت نے اسے محلاتی سازش کے ذریعے نکالا یا اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کر کے رخصت کیا یا پھر فوجی مداخلت سے یہ کارنامہ سرانجام دیا گیا۔
1958ء کے مارشل لاء سے پہلے سربراہِ مملکت کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ وزیراعظم کو بُلا کر جب یہ بتائے کہ اُس کی نظر میں اسے ایوان کا اعتماد حاصل نہیں رہا تو وہ اپنا استعفیٰ پیش کر دے اور سربراہِ مملکت کسی اور شخص کو وزارت بنانے کی دعوت دے ڈالے۔قیامِ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں تو مسلم لیگ بلا شرکت غیرے حکمران تھی‘ دستور ساز اسمبلی میں اسے بھرپور اکثریت حاصل تھی‘ صرف کانگریس کے چند ارکان حزبِ اختلاف کے بینچوں کو رونق بخشے ہوئے تھے‘ اس کے باوجود گورنر جنرل (غلام محمد) نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو بُلا کر اُن سے استعفیٰ طلب فرما لیا۔ وہ انکاری ہوئے تو اُن کی برطرفی کا اعلان کر دیا گیا۔وہ وزیراعظم جو چند روز پہلے اسمبلی سے بجٹ منظور کرا چکا تھا‘جس کی جماعت کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت کی حمایت حاصل تھی‘ اُسے گورنر جنرل کے اشارۂ ابرو نے ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیا‘ریاستی مشینری وزیراعظم کا ساتھ دینے کے بجائے گورنر جنرل کو کورنش بجا لائی اور یوں پاکستان میں وزیراعظم نامی مخلوق کی بے چارگی کا آغاز ہو گیا۔وہ دن جائے اور آج کا آئے وزیراعظم بے چارہ کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کیا جاتا رہا ہے۔قومی اسمبلی میں باقاعدہ عدم اعتماد کی قرارداد منظور کر کے اسے نکالا نہیں گیا‘ عمران خان اکلوتے وزیراعظم ہیں کہ جن کو یہ شرف حاصل ہوا۔اس پر انہیں اتنا غصہ آیا‘ اتنا غصہ آیا‘ اتنا غصہ آیا کہ اُس کے بعد غصہ ہی باقی رہ گیا‘ خان صاحب غائب ہوتے چلے گئے۔گزشتہ15ماہ کے دوران اس غصے نے جو کر دکھایا ہے‘اُس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ریاستی ادارے تک اس کی زد میں آئے ہیں اور نتیجتاً خان صاحب کے ساتھ وہ کچھ ہو رہا ہے‘جو خان صاحب اپنے مخالفوں کے ساتھ کرنا چاہتے تھے یا کر رہے تھے۔
خان صاحب کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تو شہباز شریف صاحب نے اُن کی جگہ سنبھالی‘12 جماعتوں کے اتحاد نے اپنا جھنڈا لہرا دیا۔اتحادی حکومت کے پاس چوائس تھی کہ وہ فوری انتخابات کرا دے یا پہلے معیشت کو درست کرنے کا بیڑا اٹھا لے‘اُس نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور اپنی کشتی کو منجدھار میں ڈال دیا۔ اگر فوری انتخابات ہو جاتے تو تحریک انصاف کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا‘اُس وقت کے جائزوں کے مطابق اُس کی شکست یقینی تھی۔یہ لمحہ ہاتھ سے نکل گیا‘ اتحادی حکومت سیاست کے بجائے ریاست بچائو کا نعرہ لگا کر سرگرم ہوئی اور خان صاحب نے اپوزیشن لیڈر کے طور پر جھنڈے گاڑ دیے۔اُن کی حکومتی پرفارمنس نظر سے اوجھل ہوتی گئی اور اُن کے ہر دم بدلتے بیانیے اُن میں نئی توانائی بھرتے گئے‘ یہاں تک کہ9 مئی کا سانحہ پیش آ گیا‘ ایسی افتاد آن پڑی جو اَب خان صاحب کی سیاست اور جماعت کا تعاقب کر رہی ہے‘ معاملات اُلجھتے چلے جا رہے ہیں۔کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔شہباز شریف حکومت اپنی مدت پوری کر چکی‘اب عبوری حکومت کو قائم ہو کر نئے انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔ یہ انتخابات90 روز کے اندر ہو جائیں گے یا کسی نہ کسی بہانے تاخیر ہو گی‘ یہ سوال زیر بحث ہے‘آئندہ چند روز میں اس کا جواب بھی مل جائے گا۔ اسے رکھیے ایک طرف‘ فی الحال وزیراعظم شہباز کو داد دیجیے کہ انہوں نے کثیر الجماعتی مخلوط حکومت کو چلا کر دکھا دیا ‘جنرل سید عاصم منیر کے ساتھ مل کر معیشت کو سنبھالا‘ ڈیفالٹ کے خطرے سے نکالا‘ سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کیے‘راستے کی رکاوٹوں کو دور کیا‘ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے‘ دوست ممالک کی شکایتیں دور کیں‘ زراعت اور معدنیات کے شعبوں میں نئی روح پھونکی۔مہنگائی کا جن اگرچہ قابو میں نہیں آ سکا‘ لوگوں کی مشکلات میں اضافہ بھی ہوا‘ بجلی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں لیکن وزیراعظم شہباز شریف کو یقین ہے کہ انہوں نے فوجی قیادت کے ساتھ مل کر جو راستہ کشادہ کیا ہے‘ اُس پر سفر جاری رہے گا تو مشکلات آسان ہوتی جائیں گی۔ پالیسیوں کا تسلسل روشن مستقبل کی ضمانت ہو گا۔ تجزیہ کار اور مبصر دُور یا نزدیک کی جو بھی کوڑیاں لائیں‘انتخابات کا انعقاد تو ہونا ہی ہے‘ووٹ کی طاقت ہی نے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔دعا کی جانی چاہیے کہ ہمیں شفاف انتخابات نصیب ہوں۔ پاکستان کے سیاسی اور غیر سیاسی رہنما ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہنے کا ہنر سیکھ لیں۔نام تو وہ جمہوریت کا لیتے ہیں‘حوالہ بھی (بار بار) دستورِ پاکستان کا دیتے ہیں لیکن صبر کرنے کو تیار نہیں‘نہ تحمل کو شعار بنانا چاہتے ہیں۔حریفوں کو تہہ تیغ کرنے کی خواہش میں مبتلا ہونے والے اور جو کچھ بھی کہلائیں‘ جمہوری نہیں کہلا سکتے‘ نہ جمہوری سمجھے جا سکتے ہیں۔ نہ ان سے وہ سلوک کیا جا سکتا ہے جو جمہوریت پر یقین رکھنے والوں سے کیا جانا چاہیے۔میدانِ سیاست کو جنگ کا میدان بنایا جائے گا تو ہارنے والوں کے لاشے بے گوروکفن تڑپتے نظر آئیں گے۔ پاکستان کی تاریخ کے ورق ورق پر تصویریں سجی ہوئی ہیں لیکن ہم ماضی کو دہرانے اور اپنے مستقبل کو دائو پر لگانے سے باز نہیں آ رہے۔اللہ انجام بخیر کرے!!!
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی‘ انجام بھی رسوائی
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved