تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     06-08-2023

He is an idiot

لندن میں آپ کو دلچسپ کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ تھرڈ وورلڈ سے لوگ ہر قیمت پر لندن یا یورپ جانا چاہتے ہیں۔ پاکستانی بھی جگاڑ لگانے میں مصروف ہیں۔ کچھ قانونی طریقوں سے لندن جاتے ہیں تو کئی ڈنکی یا دوسرے غیرقانونی طریقوں سے جانا چاہتے ہیں اور راستے میں ہی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ابھی حالیہ ٹریجڈی نے لوگوں کے دل بہت دکھائے ہیں جب بڑی تعداد میں پاکستانی سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوئے ۔ یورپ میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والوں میں زیادہ تر پاکستانی ہیں کیونکہ یہ ایران اورترکی کے راستے اجنبی دیسوں کو چل نکلتے ہیں۔ ہندوستانی اگر چاہیں تو بھی ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں پاکستان کے اندر سے غیرقانونی طور پر سفر کرنے میں بہت مشکلات ہیں‘ لہٰذا بھارتی شہری زیادہ تر قانونی طور پر برطانیہ جاتے ہیں اور انہیں ویزے لینے میں زیادہ مشکل بھی پیش نہیں آتی کیونکہ برطانیہ کے نزدیک بھارت کا ٹریک ریکارڈ بہت بہتر ہے۔ اب تو ویسے بھی برطانوی وزیراعظم بھارت نژاد ہے لہٰذا ان کیلئے وہ مسائل نہیں جو ہمارے پاکستانی بھائیوں کیلئے ہیں۔ ماضی میں ہونے والی دہشت گردی کی وجہ سے بھی پاکستانیوں اور مسلمانوں کو وہاں مسائل درپیش ہیں۔ ایک کہانی جو سننے کو ملی وہ ایک پاکستانی طالب علم کے بارے میں تھی جو دس بارہ برس پہلے لندن پڑھنے آیا تھا۔ اس کا تعلق پاکستان کے اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔ یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو ادھر اُدھر آنا جانا شروع ہوا۔ جو پاکستانی لندن یا یورپ جائیں تو انہیں کلچرل شاکس ضرور لگتے ہیں جن کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے۔جب برٹش کونسل پاکستانیوں کو سکالرشپ پر برطانیہ پڑھنے بھیجتی تھی تو کامیاب امیدواروں کو برٹش کونسل بلا کر ان کلچرل شاکس پر بریف کیا جاتا تھا کہ آپ نے لندن یا کسی بھی برطانوی شہر پہنچ کر کیا رویہ رکھنا ہے‘وہاں کے قوانین‘ کلچر‘ رہن سہن‘ بات چیت یا ڈریس وغیرہ پاکستان سے کتنے مختلف ہیں اور آپ نے خود کو وہاں کیسے ایڈجسٹ کرنا ہے۔ اکثر پاکستانیوں کو ہمیشہ گھر سے یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ آپ نے دورانِ سفر کسی سے کوئی چیز لینی ہے نہ کھانی ہے اور ائیرپورٹ پر کوئی آپ سے اچانک دوستی کر کے سامان پکڑائے تو نہیں لینا‘ لیکن اس کے باوجود بہت واقعات ایسے ہوتے ہیں جن سے یہ بریفنگز یا کونسلنگ بیکار جاتی ہے۔ انسانی لالچ کا بھی اپنا لیول ہے۔ اکثر لوگ پھنس جاتے ہیں۔ ایزی پیسہ کمانے کا جہاں بھی کوئی آپ کو آئیڈیا دے گا تو سمجھ لیں اس کے پیچھے کوئی جرم چھپا ہوا ہے۔ جو بندہ آپ کو چند گھنٹوں کے لیے بڑی رقم آفر کررہا ہے تو واضح ہے کہ اس میں گڑ بڑ ہے ورنہ وہ کام بندہ خود کر کے اپنا پیسہ بچا سکتا ہے۔ وہ کیوں آپ کو لاکھوں روپے کسی ایسے کام کے دے رہا ہے جو وہ خود کرسکتا ہے۔ ایک فراڈیے سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ لوگ کیسے دوسروں کو بیوقوف بنا لیتے ہیں۔اس نے جواب دیا کہ جب تک دنیا میں لالچی لوگ موجود ہیں ہم بھوکے نہیں مریں گے۔یہی کچھ اس پاکستانی طالب علم کے ساتھ لندن میں ہوا جو وہاں پڑھنے گیا تھا۔ ایک دن اس لڑکے کو وہاں کسی نے اپروچ کیا کہ وہ اگر ان کا دو تین گھنٹے کا ایک کام کر دے تو وہ اسے ایک ہزار پونڈ دیں گے۔ کام بھی معمولی سا تھا۔ کپڑوں کی ایک نئی کھیپ آرہی تھی اسے ایک جگہ سے پک کر کے دوسری جگہ ڈراپ کرنا تھا۔ اب انیس بیس سالہ نوجوان کو لگا یہ تو راتوں رات اس کا جیک پاٹ لگ گیا ہے۔ ایک دو گھنٹے کا کام ہے جس میں ایک ہزار پاؤنڈز اسے مل رہے ہیں۔ اُس دور میں لندن میں فی گھنٹہ ویجز پانچ چھ پاؤنڈ کے قریب تھی‘ لہٰذا وہ کام کرتا تو ایک ہزار پاؤنڈز کمانے کے لیے اسے درجنوں گھنٹے کام کرنا تھا اور یہاں صرف ایک جگہ سے کپڑے اٹھا کر دوسری جگہ ٹرانسپورٹ کرنے تھے۔ اسے بتایا گیا کہ اسے زرا دھیان کرنا ہوگا کیونکہ یہ قیمتی کپڑے ہیں۔ لڑکے نے سوچا یہ بھی کوئی کام ہے۔یوں وہ لڑکا تیار ہو گیا اور اس نے وہ کپڑے اٹھالیے تاکہ اس جگہ پہنچائے جہاں کا اسے ایڈریس دیا گیا تھا۔تاہم پولیس کو اس کیس کی مخبری ہوچکی تھی اور یوں جب وہ کپڑے اُٹھا کر نکلا تو گرفتار کر لیا گیا۔ پتہ چلا کہ ان کپڑوں میں ہیروئن چھپائی گئی تھی ۔ یوں ایک ہزار پاؤنڈز کے لالچ میں وہ پھنس گیا۔ جب یہ خبر پاکستان میں اُس لڑکے کے خاندان تک پہنچی تو ان کے لیے قیامت کی گھڑی آگئی۔ پتہ چلا کہ اس مقدمے کی سزا چودہ برس ہوگی۔ اب والدین نے لندن میں وکیل کرنے تھے‘ جن کی فیسیں بہت زیادہ تھیں۔ اچانک اتنی بڑی مصیبت پڑی تو پاکستانی والدین کے پاس پیسے بھی نہیں تھے کیونکہ بتایا گیا تھا کہ اس کا مقدمہ لڑنے پر چالیس ہزار پاؤنڈز تک کا خرچہ ہوگا جس میں وکیلوں کی فیسیں بھی شامل ہوں گی۔ لڑکے کے باپ کو فورا ًکچھ نہ سوجھا اور وہ اتنے پیسے فورا ًارینج نہ کرسکا تو اس نے اپنا گھر بیچنے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی طرح اپنے بچے کو بچائے۔ یوں گھر بیچ کر اس نے لندن میں وکیلوں کو فیسیں ادا کیں لیکن وکیل اب بھی یہ یقین نہیں دلا رہے تھے کہ وہ اسے چھڑا لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا‘ جس میں کوئی شک کی گنجائش بھی نہیں تھی لہٰذاوہ کس بنیادپر عدالت کو قائل کرسکتے تھے کہ وہ بے گناہ ہے اور اسے استعمال کیاگیاہے۔ ڈرگز کے حوالے سے ججز ویسے بھی بہت سخت ہوتے ہیں اور رعایت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یوں گھر بیچ کر مقدمے کے لیے رقم کا بندوبست کیا گیامگر ننانوے فیصد خطرہ تھا کہ چودہ برس سزا ہوجائے گی۔اب وکیل کی تلاش شروع ہوئی تو آخر لندن میں بھارتی پنجاب کا ایک وکیل ملا جس نے وہ مقدمہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کہا :This boy is an idiot۔اس پر اسے کہا گیا جی وہ تو ہے۔ ہمیں بھی علم ہے کہ وہ Idiot ہے‘ پر اب کیا کریں۔ وکیل پھر بولا :نہیں وہ ایڈیٹ ہے۔اب آتے جاتے اس وکیل نے ایک ہی بات کہنی شروع کر دی :This boy is an idiot۔ اب سب کہیں ہمیں پتہ ہے وہ بیوقوف ہے ‘اب کیا کریں۔ یہ کون سی نئی بات آپ ہمیں سمجھا رہے ہیں۔ وہ وکیل پھر کچھ سوچتا اور کچھ دیر بعد کہتا :He is an idiot۔سب پریشان کہ یہ وکیل عدالت میں کیا مقدمہ لڑے گا جو پراسیکیویشن میں کمزوریاں تلاش کر کے لڑکے کو رہا کرانے اور سزا سے بچانے کے بجائے الٹا اپنے کلائنٹ بارے دن رات کہتا رہتا ہے: He is an idiot۔خیر عدالت میں مقدمہ شروع ہوا۔ اس دوران وہ لڑکا چھ ماہ جیل گزار چکا تھا۔ جج نے وکیل صاحب سے پوچھا تو آگے سے پنجابی وکیل نے ایک ہی جواب دیا: مائی لارڈ The boy is an idiot۔جج نے پوچھا: اس کا مقدمے سے کیا تعلق ہے۔ پولیس نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ وکیل بولا: یہی تو میرا پوائنٹ ہے کہ وہ بیوقوف ہے۔ اب آپ بتائیں انیس بیس برس کا کوئی سمجھدار نوجوان محض ایک ہزار پاؤنڈز کے لیے چودہ برس جیل جانا پسند کرے گا؟ کیا کوئی عقلمند انسان یہ کام کرسکتا ہے؟ کیا ایک ہزار پاؤنڈز کی خاطر آپ زندگی کے چودہ برس جیل میں گزار سکتے ہیں؟ جس نوجوان کو اس چھوٹی سی بات کا علم نہیں اسے آپ سمجھدار کہیں گے یا ایڈیٹ؟ وکیل نے اتنی بار اس لڑکے بارے لفظ ایڈیٹ اپنے دلائل میں استعمال کیا کہ پوری عدالت قائل ہوگئی کہ وہ لڑکا تو واقعی ایڈیٹ ہے جس نے ایک ہزار پاؤنڈز کی خاطر اتنا بڑا رسک لے کر اپنی زندگی تباہ کر لی۔عدالت نے اس نکتے پر اسے بری کر دیا کہ وہ ایڈیٹ ہے۔ جب وہ نوجوان جیل سے رہا ہو کر باہر نکلا تو کسی نے کچھ پوچھا تو بولا:I am an idiot

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved