ہمارا معاشرہ پہلے ہی کتابیں پڑھنے میں بہت کم دلچسپی رکھتا تھا لیکن جدید دور میں ہمارے ہاں کتاب کی حیثیت اور بھی کم ہوگئی ہے۔ اب الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے باتیں سن سنا کرہی لوگ عالم فاضل ہوجاتے ہیں اور یہ تک گوارا نہیں کرتے کہ جس نقطہ نظر کو قبول کرنا چاہتے ہیں کم ازکم اس کے بارے میں ماہرین جو کچھ تصنیف کرچکے ہیں اس کو ایک نظر دیکھ لیں۔ ماضی میں جب کتاب میں لوگوں کی عمومی دلچسپی نسبتاً زیادہ تھی تو کچھ لوگوں کا رجحان یہ ہوتا تھا کہ وہ محفلوں میں پڑھے لکھے لوگوں کی باتیں سن کر علم حاصل کرتے تھے۔ ایسا علم محفلی یا مجلسی علم کہلاتا ہے اور اس کی بنیاد بہت کمزور ہوتی ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح الیکٹرانک میڈیا پر باتیں سن کر اگر کوئی موقف اپنا لیا جائے تو اس کا دفاع کرنا بعض اوقات محال ہوجاتا ہے۔ میری رائے میں تو ایسی معلومات کو علم کہنا ہی نہیں چاہیے۔ علم تو روشنی ہے جبکہ سنی سنائی باتیں جن کے سیاق وسباق کا بھی پتا نہ ہو وہ تو محض جہالت کا اندھیرا ہی پھیلا سکتی ہیں۔ مثال کے طورپر چند برس پہلے ایک صاحب نے دوستوں کی ایک محفل میں ایک مذہبی بحث کے دوران فرمایا کہ اسلام میں زچگی کے دوران میں اگر کسی عورت کی موت واقع ہوجائے تو وہ سیدھی جنت میں جاتی ہے۔ اگر کوئی عورت ناجائز اولاد کو جنم دیتے ہوئے مرجائے تو کیا وہ سیدھی جنت میں چلی جائے گی اور حساب کتاب سے مستثنیٰ ہوگی؟ فوراً دوستوں کی محفل پر سناٹا چھا گیا جو ان صاحب کے مذہبی فہم پر ماتم کے مترادف تھا۔ موصوف سے جب پوچھا گیا کہ ان کو اتنی ’’اہم‘‘ مذہبی معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں تو بولے کہ انہوں نے ایک محفل میں اپنے چچا کو ایسا کہتے ہوئے سنا تھا۔ یہاں میں یہ وضاحت کردوں کہ جن صاحب کا یہ موقف تھا وہ باقاعدہ بی اے پاس تھے بلکہ شاید ایم اے کیا ہوا تھا اور پڑھنے لکھنے سے متعلق ایک ادارے میں اچھی پوسٹ پر ملازم تھے۔ موصوف اچھے خاصے ذہین شخص تھے‘ لیکن چونکہ کتاب سے دور رہے اور اس دوری کے باوجود پڑھائی بھی مکمل ہوگئی اور نوکری بھی مل گئی اس لیے وتیرہ یہی بنا لیا کہ سن سنا کر اگر کام چلتا ہے تو پھر کیا ضرورت ہے کتابوں میں مغز ماری کی جائے۔ دنیا میں جدید ایجادات نے کتاب کی اہمیت کم نہیں کی۔ جن ملکوں میں جدید ایجادات ہوئی ہیں وہاں تو پڑھنا لکھنا بہت بڑھا ہے لیکن ہمارے جیسے معاشروں میں جدید دور نے کتابوں سے اور بھی دوری پیدا کردی ہے۔ میری نظر میں اس کی بڑی وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے جس میں یہ ممکن بنادیا گیا ہے کہ طالب علم معمولی محنت کرکے بھی پاس ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں امتحانات لیتے ہوئے طالب علموں کی قابلیت جانچنے کے طریقے اس امر کی ضمانت فراہم نہیں کرتے کہ جس طالب علم کو پاس قرار دیا جائے گا اس نے واقعتاً علم حاصل کیا ہوگا۔ تحریری امتحانوں میں محدود تعداد میں سوالوں کے جواب تیار کرکے بچے پاس ہوجاتے ہیں۔ اگر امتحان کے طورپر پراجیکٹ دیئے جائیں تو ہمارے تعلیمی نظام میں اتنی دیانت موجود نہیں کہ طالب علم خود ہی اپنا پراجیکٹ مکمل کریں گے۔ جس طرح تحریری امتحانوں میں نقل کی لعنت موجود ہے اسی طرح جہاں پراجیکٹ دیے جاتے ہیں وہاں دوسروں سے پراجیکٹ مکمل کروا کے امتحان کے مراحل سے گزرنے کی علت پائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں جب طالب علم کسی کالج یا یونیورسٹی میں یا سکول میںداخلہ لیتا ہے تو ہمارے ہاں ماحول ایسا بنادیا گیا ہے کہ پہلے روز سے ہی اس طالب علم کی اپنے امتحانی نظام سے جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ وہ طالب علم اس جنگ کے لیے اسلحے کے طورپر محض اہم سوالوں کے نوٹس جمع کرنا شروع کردیتا ہے اور امتحانوں کے قریب رٹا وغیرہ لگاکر پاس ہوجاتاہے۔ یہی رویہ اکثر طالب علموں کا امتحانی پراجیکٹس کے بارے میں ہوتا ہے۔ بہت کم طالب علم ایسے پائے جاتے ہیں جو صحیح معنوں میں حصول علم کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اساتذہ کو ایسے طالب علموں کا پتا ہوتا ہے اور اساتذہ کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے طالب علموں کی بھاری اکثریت علم سے کس قدر دور ہے۔ اساتذہ اکثر صورتوں میں خود بھی علم سے کتنے دور ہوتے ہیں یہ الگ موضوع ہے۔ میں خود بھی ایک نجی تعلیمی ادارے میں پڑھاتا ہوں اور یہ بات میرے علم میں ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں چیدہ چیدہ لوگوں کو اس مسئلے کا علم ہے اور وہ اپنے تئیں کوشش بھی کرتے ہیں کہ طالب علموں میں بغیر علم حاصل کیے ڈگری حاصل کرنے کے رجحان کو ختم کریں اور علم کی طرف تھوڑا بہت قدم بڑھا کر ہی ان کے لیے ڈگری حاصل کرنا ممکن ہو مگر اصل ذمہ داری تو ارباب حل و عقد کی بنتی ہے۔ آج کل ان کی توجہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو سکولوں میں داخل کروانے پر ہے تاکہ Millennium Goalحاصل کرسکیں لیکن میری رائے میں یہ مسئلہ زیادہ سنجیدہ ہے کہ جو طالب علم فارغ التحصیل ہورہے ہیں وہ علم کے مسئلے پر ایک سوالیہ نشان بنے رہتے ہیں۔ وہ خود کوشش کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کے بجائے بنے بنائے نقطہ نظر کو اپنانے کا رجحان رکھتے ہیں۔ اس رجحان کی وجہ ہمارے تعلیمی نظام میں موجود ہے جس میں آپ نوٹس کو رٹا لگا کر نقل کرکے، پراجیکٹ کسی اور سے مکمل کرواکے ڈگری لے سکتے ہیں۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام میں اہم تبدیلیاں نہیں کریں گے‘ اس وقت تک ہمارے معاشرے میں کتاب سے دوری ختم نہیں ہوگی اور ہمارے ہاں قارئین کی تعداد کم ہوتی جائے گی اور ناظرین اور سامعین بڑھتے جائیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved