ہمارا کیا ہے! ہم تو سوتیلی بیٹیاں ہیں!
اپنے اپنے نصیب ہیں۔ ایک ہی ماں مگر بیٹیاں کچھ سوتیلی‘ کچھ سگی! سگی بیٹیوں کے حقوق کی نگہداشت کی جاتی ہے! سوتیلی بیٹیوں کے حقوق ہوتے ہی نہیں! سگی بیٹیوں کو جیل جانا پڑ جائے تو دھرتی ہِل جاتی ہے۔منرل واٹر کیسے پہنچایا جائے؟ کافی اور سینڈوچ کا کیا بند و بست ہو گا؟ سگی بیٹیوں کے لیے ٹریفک رُک جاتی ہے۔ بیس بیس‘ تیس تیس گاڑیوں کے قافلے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔عدالتیں وکیلوں سے اَٹ جاتی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر احتجاج کیے اور کرائے جاتے ہیں! سگی بیٹیوں کے لیے وزارتوں سفارتوں اور امارتوں کے دروازے وا رہتے ہیں۔ الیکشن نہ لڑیں تب بھی پارلیمنٹ میں پہنچ جاتی ہیں۔حکومت میں نہ ہوں تب بھی سرکاری وفود میں شامل ہوتی ہیں۔ خصوصی پروازوں میں سفر کرتی ہیں۔ ان سگی بیٹیوں کی گاڑیوں کے نیچے غریبوں کے چار چار بچے بھی کچلے جائیں تو ان کا بال بیکا نہیں ہوتا! ان کی سرجری کے لیے برطانیہ بھی ناکافی ہوتا ہے۔ وہاں سے سوئٹزر لینڈ جانا پڑتا ہے۔ ان سگی بیٹیوں کے لیے دبئی‘ لندن‘ نیویارک‘ جدہ سنگا پور‘ ملک نہیں‘ قصبوں کے چھوٹے چھوٹے‘ نزدیک نزدیک‘ محلّے ہیں جہاں یہ صح شام آزادی کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں۔ ان کے بینک اکاؤنٹ‘ ان کے عہدے‘ ان کی نشستیں‘ ان کی پیدائش سے پہلے تیار اور ریزرو ہوتی ہیں۔ ان پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔یہ دشمن ملک میں بھی جائیں تو ان کے ہینڈ بیگ‘ ان کی گھڑی اور ان کے دھوپ کے چشمے کی دھوم مچ جاتی ہے۔ یہ سرخ قالین پر چلیں تو وقت کا سپیکر بھی‘ ساتھ ساتھ چلتے ہوئے‘ سرخ قالین پر پاؤں دھرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ ان کے لیے جہازوں کی روانگی کے اوقات بدل دیے جاتے ہیں۔ ان کے لیے ٹریفک روک دی جاتی ہے۔ ان کے محلات میں ملازموں‘ آیاؤں‘ کنیزوں‘ چوبداروں اور ماماؤں کی تعداد شمار سے باہر ہوتی ہے! پوری دنیا میں‘ معیارِ زندگی میں‘ عیش و عشرت میں‘ تزک و احتشام میں‘ جاہ و جلال میں‘ تام جھام میں‘ طمطراق میں پاکستان کی سگی بیٹیوں کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ عرب شہزادیوں کے پاس دولت ہے مگر جو نخوت‘ جو تکبر اور جو آزادی اس وطن کی سگی بیٹیوں کے پاس ہے‘ عرب شہزادیوں اور ملکاؤں کے نصیب میں بھی نہیں! یہ سگی بیٹیاں عدالتوں میں پیش ہوں تو چاروں طرف چادریں تان دی جاتی ہیں کہ کسی عامی کی آنکھ ان پر نہ پڑے۔ حکومتیں بدلیں تو جہاں بڑے بڑے لوگ جیلوں کا رُخ کرتے ہیں وہاں یہ سگی بیٹیاں چارٹرڈ جہازوں میں بیٹھ کر نقل مکانی کر جاتی ہیں! کس میں جرأت ہے کہ انہیں واپس لائے!
رہیں ہم سوتیلی بیٹیاں‘ تو ہمارا کیا ہے ! ہم تو مکھیوں‘ مچھروں اور کیڑیوں جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتیں! ہم گھروں میں کام کریں تو ہمارے دانت توڑے جاتے ہیں۔ہماری پسلیاں فریکچر کی جاتی ہیں۔ ہماری ٹانگوں کو گودے میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ ہمیں گرم استری سے داغا جاتا ہے۔ ہمارا سر دیواروں سے ٹکرایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا کیونکہ مالکن اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہے جس نے انصاف دینا ہے۔ ہماری تو پولیس بھی نہیں سنتی۔ وہ بھی کیس تب رجسٹر کرتی ہے جب میڈیا میں خبر سنبھالی نہ جائے!
ہم سوتیلی بیٹیاں ہیں! ہمارا کیا ہے! ہم تو بھیڑ بکریاں ہیں۔ جرم ہمارا بھائی یا باپ ہی کیوں نہ کرے‘سزا ہمیں ملتی ہے اور ہمیں کسی بھی پیر فرتوت کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ ہمیں مار کر ریگستانوں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ اندھے کنوؤ ں میں ڈال دیا جاتا ہے۔زہر سے مار دیا جاتا ہے۔ کوئی قانون‘ کوئی عدالت‘ کوئی حکومت‘ کوئی مذہبی تنظیم‘ کوئی سماجی گروہ ہماری مدد کو نہیں آتا! ہماری ساری ساری عمریں برتن مانجھتے اور پوچہ دیتے گزر جاتی ہیں! جن کے بیٹے دنیا کے ہر ممکن گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں وہ ہمیں صرف کسی سے بات کرنے یا مسکرانے کی پاداش میں ہلاک کر دیتے ہیں!
ہم ایک رضوانہ نہیں‘ ہم لاکھوں رضوانہ ہیں ! ہر آسودہ حال گھر میں ایک رضوانہ قید ہے جسے مالکن مارتی ہے۔ اس کے بچے پیٹتے ہیں۔ چمچ سے اس کے دانت توڑنے کا تجربہ کرتے ہیں۔ پھر تماشا دیکھتے ہیں! پھر ملزموں کی ضمانت ہو جاتی ہے۔ پھر دفعہ وہ لگائی جاتی ہے جو ضعیف اور بے اثر ہو۔پھر ہم سے '' صلح‘‘ کر لی جاتی ہے! کیا مجال جو ہم صلح سے انکار کریں!
ہم سوتیلی بیٹیاں! ہم بیٹی جَنیں تو مجرم ! کچھ نہ جَنیں تو مجرم! ہم نرس کے طور پر بیٹی کی پیدائش کی خبر دیں تو مجرم اور مار پیٹ کی سزاوار! محاورے دیکھ لیجیے ''یہ چاقو تو اتنا کُند ہے کہ رُوٹھی ہوئی بیوی کی ناک بھی نہ کاٹ سکے‘‘ گویا یہ طے ہے کہ بیوی کی ناک کاٹنا ایک نارمل معاشرتی عمل ہے! کبھی ہماری چٹیا کاٹی جاتی ہے! کبھی ہم پر تیزاب پھینکا جاتا ہے! اس ملک میں تیزاب پھینک کر عورتوں کے چہرے مسخ کرنے والے نناوے فیصد مجرم سزا نہیں پاتے! یہاں تو بڑی بڑی ''نیکو کار‘‘ ہستیوں کی وڈیو ریکارڈ پر ہیں کہ عورت کی آبرو ریزی ہو تو خاموش رہے! کتنی ہی مظلوم عورتیں زندانوں میں قید ہیں اور ظلم کرنے والے آزاد !
ہم سوتیلی بیٹیاں اس مملکت خداداد میں سرداروں اور جاگیرداروں کی گویا زرخرید ہیں! ہم میں سے لاکھوں رکھیل ہیں اور ہزاروں جنسی غلام! ہمارے مرد وں کی شہ رگوں پر مالکوں کے پاؤں ہیں! احتجاج کریں تو گوشت‘ ابال کر‘ اونٹوں کو کھلا دیا جاتا ہے! ہم نسل در نسل غلام ہیں! جنوبی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں ہزاروں حویلیوں میں عقوبت خانے ہیں جن میں ہم سوتیلی بیٹیاں جنم لیتی ہیں اور وہیں مر جاتی ہیں! ہم نفع آور جنس ہیں ! ہمیں فروخت کیا جاتا ہے۔ ہم فروختنی ہیں! ! ہمیں جلا دیا جاتا ہے! ہم سوختنی ہیں! ہم کاٹھ کباڑ ہیں! جانوروں کی عزت ہم سے زیادہ ہے! اس اسلامی ملک کی جیلوں میں ہم سوتیلی بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے‘ سگی بیٹیاں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں!
جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں اور جنہیں اس نظام کے حوالے سے خوش فہمی ہے وہ جان لیں کہ رضوانہ جیے یا مرے یا زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو جائے‘ بیگم صاحبہ کو سزا ملنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا! ابھی تو ایک سپیشل جے آئی ٹی بنی ہے‘ ابھی تو سرخ فیتے کے ایک لمبے عمل کا آغاز ہے! ابھی تو نہ جانے کیا کیا کرتب دکھائے جائیں گے۔ ابھی تو نہ جانے کیا کیا گتکے کھیلے جائیں گے! ابھی تو ایسے ایسے پینترے بدلے جائیں گے‘ اور قانون کی ٹوپیوں سے ایسے ایسے خرگوش نکالے جائیں گے کہ رضوانہ اور اس کے گھر والوں کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا اور کیا عجب وہ ہاتھ جوڑ کر زاری کریں کہ ہمیں بخش دو! بیگم صاحبہ بے قصور ہیں ! معصوم ہیں! ساری غلطی ہماری ہے! سوتیلی بیٹی کے بھائی شہ زیب خان کے قاتل کو کیا سزا ملی ؟ ابھی تو ظاہر شاہ کا کچھ نہیں ہوا اور مقتولہ نور مقدم تو خود سگی بیٹیوں میں سے تھی تو پھر رضوانہ کس کھیت کی مولی ہے! یہاں تو ہر بڑی مچھلی سگی بیٹی ہے اور ہر چھوٹی مچھلی سوتیلی بیٹی ہے! کبھی مگر مچھ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ بڑی مچھلی ہی کو کھا جاتا ہے۔ آج جو بیگم صاحبہ بڑی مچھلی ہیں‘ کیا خبر‘ کل چھوٹی مچھلی ثابت ہوں! یہ عظیم ایٹمی ملک ایک سمندر ہے اور سمندر میں کوئی قانون‘ کوئی عدالت کوئی ضابطہ نہیں ہوتا! سمندر میں مگر مچھ ہوتے ہیں اور بڑی اور چھوٹی مچھلیاں ! ایک حکمران نے بحر اوقیانوس کے پار کھڑے ہو کر بڑی ترنگ میں کہا تھا کہ یہ عورتیں کروڑ پتی بننے کے لیے اور کینیڈا کی شہریت لینے کے لیے آبرو ریزی کراتی ہیں! نہیں معلوم اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے وہ کیا ثبوت پیش کریں گے کہ ایک عدالت ایسی بھی ہے جہاں ہر حکمران کو ثبوت پیش کرنے ہیں اور جہاں سب مچھلیاں برابر ہوں گی !!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved