سترہ ماہ سے جاری یوکرین جنگ میں محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک اور ساٹھ لاکھ کے قریب نقل مکانی پہ مجبور ہوئے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد مغرب کے قلب میں برپا ہونی والی اس مہلک جنگ نے یورپ کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ نیٹو کے دفاعی اتحاد کی بقا کو بھی خطرات سے دو چار کر دیا۔جنگ کی دلدل سے نکلنے کیلئے وسیع پیمانے کی سفارتی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن مغرب کی وار ڈپلومیسی کا مربوط نظام اس مہلک جنگ کے مضمرات کو سمیٹنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔تمام تر کوششوں کے باوجود سمٹنے کی بجائے اس جنگ کا دائرہ ایٹمی تصادم تک پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ روس کی وزارتِ دفاع نے ٹیلی گرام میسجنگ ایپ پر بتایا کہ یوکرینی افواج نے بغیر پائلٹ کے دو کشتیوں(sea drones) کے استعمال سے‘ روسی فوج کےNovorossiysk بحری اڈے پر حملے کی کوشش کی مگر بحیرہ اسود اور کریمیا کے جزیرہ نما میں ان حملوں کو ناکام بنا دیاگیا۔ادھر یوکرین کی سکیورٹی سروس کے سربراہ‘ واسیل مالیوک نے عوامی طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ یوکرین روسی جہاز پر ڈرون حملے کا ذمہ دار ہے‘انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اتنا کہا کہ اس طرح کے خصوصی آپریشن یوکرین کے علاقائی پانیوں میں کیے جاتے ہیں‘جو مکمل طور پر قانونی ہیں۔دریں اثنا روسی وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ اس نے ضم شدہ جزیرہ نما کریمیا پر 13 ڈرون مار گرائے‘حملوں میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔یوکرین کے حکام کی طرف سے جاری کردہ ویڈیو میں بغیر پائلٹ کے سمندری ڈرون کو رات کی تاریکی میں 141 میٹر لمبے روسی پرچم والے شپ کے کنارے پر حملہ کرتے دکھایا گیا۔ روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا نے کہا کہ ماسکو جوابی کارروائی کرے گا۔روس کا کہنا ہے کہ اس نے شمال مشرقی یوکرین میں نووسیلیوسک کی بستی پر قبضہ کر لیا‘ جہاں کیف نے حملوں میں اضافے کی اطلاع دی۔ روسی فوج کی فوٹیج میں نووسیلیوسک مکمل طور پر تباہ دکھایا گیا‘ جس میں گرتی ہوئی عمارتوں سے سفید دھواں اُٹھ رہا تھا۔دوسری جانب یورپ کے قلب میں جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر یوکرین جنگ کا پراُمن حل تلاش کرنے کے لیے سعودی عرب میں مذاکرات بھی شروع ہیں۔امید کی جا رہی ہے کہ روس کی شمولیت کے بغیر تقریباً 40 ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں اور دیگر اعلیٰ حکام کی اس میٹنگ میں تنازعات کو نمٹانے کے اصولوں پر اتفاق رائے حاصل کیا جائے گا۔فی الحال ٹینکر حملے سے پیچھے ہٹتے ہوئے‘ یوکرین جنگ کا پُرامن حل تلاش کرنے کے لیے سعودی عرب میں بات چیت شروع ہو گئی ہے‘ یوکرینی صدر کے دفتر کے سربراہ اور جدہ میں ہونے والے مذاکرات کے لیے ان کے مرکزی ایلچی آندری یرماک نے کہا بات چیت اگرچہ مشکل ہے لیکن میں پُر امید ہوں کیونکہ ہمارے پیچھے سچائی اور نیکی کھڑی ہے۔جدہ فورم میں روس کو شامل نہیں کیا گیا تاہم کریملن نے کہا ہے کہ وہ اس اجلاس پر''نظر رکھے گا‘‘۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ یوریشین امور کے لیے اپنے خصوصی ایلچی لی ہوئی کو مذاکرات کار کے طور پہ بھیجے گا۔لی نے کہا ''ہمارے درمیان بہت سے اختلافات ہیں اور ہم نے مختلف مؤقف سنے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہمارے اصول مشترک ہوں۔تاہم یوکرین‘ روسی اور بین الاقوامی حکام نے تسلیم کہ اس وقت یوکرین اور روس کے درمیان براہ راست امن مذاکرات کا کوئی امکان نہیں کیونکہ جنگ بدستور پھیل رہی ہے۔صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ انہیں اب بھی امید ہے کہ ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن اس ماہ ترکی کا دورہ کریں گے کیونکہ انقرہ اس معاہدے کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے کام کر رہا ہے جس کے تحت یوکرین بحیرہ اسود کے راستے اناج برآمد کر سکے گا۔
یوکرین کے بحری حکام نے خبردار کیا ہے کہ 23 اگست سے روسی بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کو ''جنگ کے خطرے والے علاقوں‘‘کے طور پر سمجھا جائے گا۔ یوکرین کے صدارتی مشیر نے بھی عقابی لہجے میں کہا ہے کہ روس کے ساتھ تنازع میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔کیف اور زپوریزہیا سمیت کئی شہروں میں فضائی الرٹ کے ساتھ دھماکوں کی اطلاعات ہیں۔نیٹو کی اشتعال انگیزی کے ردعمل میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے فروری 2022ء میں یوکرین پر حملہ کرکے دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کو سب سے بڑے مسلح تصادم کی طرف دھکیل دیا جس سے یورپ میں انسانی بحران بڑھتا رہا ہے۔ایک تو امریکہ براہ راست اس جنگ میں الجھنے سے ہچکچاتا ہے کیونکہ یورپ نے اپنی مشترکہ حکمت عملی سے اگر روس کو شکست کے دھانے تک پہنچا دیا تو پوتن یورپ اور امریکہ پہ بھی ایٹمی حملہ کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ عالمی سیاست کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ واضح نہیں کہ جنگ کے نتیجہ میں یورپ کا مستقبل کیا ہوگا۔ تنازع کیسے حل ہو سکتا ہے؟ کیا بات چیت سے تصفیہ ممکن ہے؟ اس تنازعہ کے ختم ہونے کے طویل عرصے بعد اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں لیکن روس جیسے ملک کے خلاف جیت کیا معنی رکھتی ہے؟ماہرین کہتے ہیں کہ مغرب اس وحشیانہ حقیقت سے بچ نہیں سکتا کہ پوتن تقریباً چھ ہزار جوہری ہتھیار چلانے کا حکم دے کر ہم سب کو مار سکتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم بھول جائیں‘ اس ہفتے اس کے اس اعلان پر غور کریں کہ روس'' New START Treaty‘‘ میں شرکت معطل کر رہا ہے‘ جو کہ اس کا امریکہ کے ساتھ آخری باقی ماندہ اسلحہ کنٹرول معاہدہ تھا۔مغربی دانشور یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ اگر صرف یوکرین کی بقا ہی نہیں یورپ کا مستقبل اور یہاں تک کہ عالمی نظام بھی خطرے میں ہے تو یوکرین کے بہادروں کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں کوئی امریکی فوجی کیوں نہیں لڑ رہا ؟ تاہم صدر بائیڈن شروع سے اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ امریکہ یوکرین کیلئے تیسری جنگ عظیم نہیں لڑ سکتا۔اگر امریکہ نے روسی فوجیوں کو مارنے کیلئے امریکی فوجیوں کو میدان ِجنگ میں بھیجا تو یہ جلد ہی امریکہ اور روس کے درمیان جنگ بن جائے گی اور معاملہ ایٹمی جنگ تک بڑھ سکتا ہے۔پوتن نے جن جوہری ہتھیاروں کے الرٹ کا حکم دیا وہ ریاستہائے متحدہ کو تباہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ قومی سلامتی کے سنجیدہ ماہرین جانتے ہیں کہ اس یقینی تباہی کی دنیا میں‘ رونالڈ ریگن کی بصیرت بنیادی سچائی بن کے ابھری‘یعنی ''جوہری جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور نہ ہی لڑی جانی چاہیے‘‘۔جیسا کہ اس نے تقریباً نصف صدی کی سرد جنگ کے دوران کیا تھا‘ امریکہ کی بقا کے لیے روس کے ساتھ براہ راست تنازع میں الجھے بغیر اپنے مفادات کے دفاع اور آگے بڑھنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم جے برنز درست کہتے ہیں کہ جب اس نے یہ دعویٰ کیا کہ یوکرین ایک ایسی جنگ ہے جس میں پوتن کو یقین ہے کہ وہ ہارنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر میدانِ جنگ کے حالات پوتن کو ذلت آمیز نقصان اور تباہی کی بڑھتی ہوئی سطح میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو وہ ایٹمی حملے کا انتخاب کریں گے۔ وہ جنگ کو بڑھاوا دینے کو تیار ہے۔ اس جنگ کا نتیجہ روس کیلئے کوئی وجود نہیں رکھتا لیکن یہ پوتن کیلئے بہت اہم ہے۔اگر پوتن کا واحد متبادل‘ فیصلہ کن شکست ہے‘ تو وہ یقین کر سکتے ہیں کہ ان کے پاس یوکرین پر ٹیکٹیکل ایٹمی حملے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ صدر جان ایف کینیڈی کیوبا کے میزائل بحران سے بچ جانے کے بعد‘ جہاں ان کا خیال تھا کہ تین میں سے ایک جنگ کا امکان ہے‘جو کروڑوں معصوم جانوں کو بجھا دے گا‘ نے مستقبل کے سیاستدانوں کو بڑا سبق دیا۔ ان کے الفاظ میں ''سب سے بڑھ کر‘ اپنے اہم مفادات کا دفاع کرتے ہوئے‘ جوہری طاقتوں کو ان محاذ آرائیوں کو روکنا چاہیے جو حریف کو ذلت آمیز پسپائی یا جوہری جنگ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہیں‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved