علم کے فروغ میں کتب بینی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔کسی بھی اچھے مصنف کی لکھی ہوئی کتاب‘ جس میں تحقیق کے اصولوں اور معیار کا التزام کیا گیا ہو‘ قارئین کے علم میں اضافہ کرتی ہیں۔معیاری کتاب لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں‘اس کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔مطالعے اور مشاہدے کے نچوڑ اور نتائج کو تحریر کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ذہانت، بصیرت اور فکر و شعور کی بلندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھی تحریریں لکھنے اور اچھا کلام کرنے والے لوگ ہر عہد میں خال خال ہی گزرے ہیں۔ ایسے لوگ یقینا معاشرے کے رہنما، معمار اور محسن ہوتے ہیں۔ یہی لوگ معاشرے میں ترسیلِ علم کیلئے اپنی صلاحیتوں کو وقف کرتے اور ان کی ریاضت اور ذہنی صلاحیتوں سے اہلِ فکر ودانش اور طالبعلم استفادہ کرتے ہیں۔
علم تاریخ کی بہت سی شاخیں ہیں ان میں سے تاریخ نویسی اور سوانح نگاری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔کسی بھی عہد کے حالات و واقعات کو سمجھنے کے لیے اس عہد کے مشاہیر اور معاشرے کے معمولات اور حالات سے متعلق آگہی انسان کو تاریخ کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے۔ تاریخ کے علم کی ترقی نے تدوین حدیث میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔رجال اور راویان کے حالاتِ زندگی سے آگہی حاصل کرنے کے بعد اسناد کی پڑتال ممکن ہوئی اور صحیح اور ضعیف روایات کے درمیان تفریق کرنے کے امکانات پیدا ہوئے۔ محدثین اس اعتبار سے نمایاں اور ممتازحیثیت کے حامل ہیں کہ انہوں نے بڑی عرق ریزی اور محنت کے ساتھ فرامینِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آثارِ صحابہ کرام کو جمع کیا جس کی وجہ سے ہم دین پر صحیح طریقے سے عمل کرنے کے قابل ہوئے۔
اگر ہم غور کریں تو اسلامی تاریخ میں بھی بہت بلند پایا مؤرخین گزرے ہیں۔ جن میں امام ابن جریر،امام ابن کثیر، حافظ ذہبی،امام ابن ہشام،امام ابن سعد اور دیگر بہت سے نام نمایاں ہیں۔ ہر عہد کے حوالے سے مختلف طرح کی تاریخیں مرتب ہوتی رہیں۔ برصغیر میں بھی تاریخ نویسی پر کافی محنت کی گئی اور تاریخِ فرشتہ اور تاریخِ فیروز شاہی جیسی کتابوں کو مدون کیا گیا۔ماضی قریب میں بھی بہت سے مورخین اپنے اپنے مشاہدات کی روشنی میں تاریخی واقعات کو قلمبند کر کے لوگوں کے سامنے رکھتے رہے۔ مورخین کے اِن کاموں کی وجہ سے ہم مختلف زمانوں کے معاملات سے آگاہی حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ماضی قریب میں مولانا اسحاق بھٹیؒ کو تاریخ نویسی میں ایک نمایاں مقام حاصل ہوا اور آپ نے اس حوالے سے بہت سی معیاری اور خوبصورت کتابیں مرتب کیں جن میں آپ نے اپنے عہد کی ممتاز شخصیات کے حالات زندگی کو قلمبند کیا۔مولانا اسحاق بھٹی ؒنے کئی اہم شخصیات کے بارے میں مستقل کتابیں بھی تحریر کیں۔مولانا اسحاق بھٹی کی تحریروں کو پڑھنے کے بعد انسان یوں محسوس کرتا ہے کہ وہ جس عہد یا شخصیت سے متعلق تحریروں کو پڑھ رہا ہے گویا کہ وہ عہد اور شخصیت اس کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔
مولانا اسحاق بھٹی کے بعد ڈاکٹر بہاء الدین نے بھی اس حوالے سے بڑا منظم اور مبسوط کام کیا اور تحریک ختم نبوت کی پوری تاریخ کو مرتب کرنے کے لیے 70 سے زائد جلدوں پر مشتمل ایک جامع کتاب کو مرتب کیا۔ تاریخ نویسی کا یہ فن درحقیقت انتہائی ذمہ داری کا فن ہے اور اس میں کمی بیشی کرنا یا حقائق کو مسخ کرنا یقینا ایک بہت بڑی بددیانتی ہے۔اس حوالے سے تساہل کا مظاہرہ کرنے اور غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے والے لوگ نہ صرف یہ کہ عوام الناس کے ذہنوں کو پراگندہ اور مسموم کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگ عنداللہ بھی اپنی لکھی ہوئی تحریروں کے حوالے سے جوابدہ ہوں گے۔ مؤرخ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جب بھی وہ کوئی تحریر لکھے پوری ذمہ داری،جستجو،محنت سے لکھے اور اس کے ساتھ ساتھ اس پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ علمی سرقہ کا ارتکاب نہ کرے اور کسی بھی کتاب سے نقل کردہ حوالے کو اس کو لکھنے والے اصل شخص کے ساتھ منسوب کرے۔کسی دوسرے کی محنت کو اپنے نام کے ساتھ منسوب کر کے علمی خیانت کا مظاہرہ کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ تاریخی واقعات کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے والے اور ان کو تحریر کے قالب میں ڈھال کر عوام الناس تک پہنچانے والے لوگ یقینا ہر اعتبار سے قابلِ تحسین ہوتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر فرید پراچہ اُن لوگوں میں شامل ہیں جنہیں سماجی،سیاسی اور مذہبی معاملات سے خصوصی دلچسپی رہی ہے۔انہوں نے تقریبا ًنصف صدی تک ملک میں جاری دینی،سماجی اور سیاسی تحریکوں کے قائدین کی زندگی کا مشاہدہ کیا ہے۔ وہ ایک وسیع المشرب انسان ہیں اور ان کے تعلقات معاشرے کے ہر طبقے کے ساتھ ہیں۔ وہ سیاسی رہنماؤں کے درمیان سیاستدان اور علمی ذوق رکھنے والوں کے درمیان ایک سکالر کی حیثیت سے جلوہ افروز ہوتے ہیں۔مدلل گفتگو کرنا جانتے ہیں اور اپنے اسلوبِ گفتگو سے مخاطب پر اچھے اور خوشگوار اثرات چھوڑتے ہیں۔ ڈاکٹر فرید پراچہ کے ساتھ میرے تعلقات کئی برسوں پہ محیط ہیں۔ کئی ٹی وی پروگراموں میں ہمیں اکٹھے شرکت کرنے کا موقع ملا اور اس کے ساتھ ساتھ کئی جلسوں اور اجتماعات میں اکٹھے خطاب کرنے کا موقع بھی میسر آیا۔ اُن کی فکر یقینا سطحیت سے کافی بلند ہے اور وہ چیزوں کا گہرائی اور باریک بینی کے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کو جہاں مذاکرے،مکالمے اور تقریر کا ملکہ حاصل ہے وہیں وہ تحریر میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور گاہے گاہے مختلف عناوین پر اپنی رائے کو تحریری شکل میں عوام الناس کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں۔
چند دن قبل ڈاکٹر فرید پراچہ نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنی کتاب ''میرے ہمنوا‘ میرے رہنما‘‘ کی تقریب رونمائی میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ کتاب 390 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں درجنوں مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے حوالے سے اپنی یادداشتوں کو قلمبند کیا گیا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، علامہ احسان الٰہی ظہیر،قاضی حسین احمد، سید منور حسن، لیاقت بلوچ، آغاعبدالکریم، شورش کاشمیری،مولانا فضل الرحمن،بے نظیر بھٹو،جاوید ہاشمی،حفیظ اللہ نیازی اور دیگر بہت سی شخصیات کے حوالے سے یادداشتوں کو اس کتاب میں بڑے ہی سلجھے ہوئے انداز میں قلمبند کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فرید پراچہ کی اس کتاب میں ان تمام شخصیات کے بارے میں ان کے ذاتی مشاہدات بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں مختلف شخصیات کے بارے میں بہت سی اہم معلومات موجود ہیں اور کتاب پڑھنے کے بعد انسان بہت سی شخصیات کے بارے میں ایک رائے قائم کرنے کے قابل ہو جاتا ہے جبکہ ان شخصیات کے مزاج سے بھی آگہی اور شناسائی حاصل ہوتی ہے؛ تاہم اس کتاب میں بعض شخصیات کے خاکے کو انتہائی اختصارکے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے ان کی شخصیت کے تمام پہلو سامنے نہیں آتے بلکہ اکثر سرسری انداز میں شخصیت کے اوصاف کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے قاری کئی مرتبہ تشنگی محسوس کرتا ہے اور اس کے ذہن میں اس حوالے سے تجسس پیدا ہوتا ہے کہ کئی نمایاں شخصیات کے بارے میں اس قدر مختصر معلومات کیوں بیان کی گئی ہیں۔کئی شخصیات کے بارے میں بہت زیادہ اختصار سے کام لینے کی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ ڈاکٹر فرید پراچہ اس بات کو سمجھتے تھے کہ اگر تمام شخصیات کے حوالے سے مفصل خیالات کا اظہار کیا گیا تو اس سے کتاب کی ضخامت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا اور زیادہ تفصیل سے لکھنے کی صورت میں بہت سی شخصیات کے تذکرے کو کتاب کا حصہ نہیں بنایا جا سکے گا۔
پراچہ صاحب نے اس کتاب میں اپنے عہد کی بہت سی اہم شخصیات کے طرزِ زندگی، افکار اور طرزِ بیان کو لوگوں کے سامنے رکھ کر اُن کو اہم شخصیات کی ایک جھلک دکھائی ہے۔ اس جھلک کو دیکھنے کے بعد یقینا ہم اپنے معاشرے کی اہم شخصیات کی اخلاقی اقدار کو سمجھ سکتے ہیں۔اس کتاب کو پڑھ کر کئی اعتبار سے اطمینان بھی حاصل ہوتا ہے کہ اب بھی ہمارا معاشرہ بنجر نہیں ہوا بلکہ اس میں بہت سی ایسی شخصیات موجود ہیں جو علم،شعور اور آگہی کی ترویج کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی کتاب یقینا تاریخ نویسی، خاکہ نگاری اور سوانح نگاری کے فن کے حوالے سے لکھی جانے والی کتابوں میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ اس تقریب میں جناب سراج الحق، جاوید ہاشمی، لیاقت بلوچ، حفیظ اللہ نیازی، مجیب الرحمن شامی کے ساتھ میں نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا اور یہ بات لوگوں کے سامنے رکھی کہ ہمیں علم اور شعور کے فروغ کے لیے اپنے عہد کی نمایاں شخصیات کے احوال سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے تاکہ عوام میں ان کی جستجو،محنت،استقامت اور صبر و برداشت کو دیکھ کر خود بھی کچھ کر گزرنے کا حوصلہ،جذبہ اور صلاحیت پیدا ہو۔اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہم سب کو بھی عظیم شخصیات کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے بہتر زندگی گزارنے کی توفیق دے، آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved