5 اگست 2019ء کا سورج گزشتہ 76 برسوں سے بندوقوں کے سائے میں زندگی گزار رہے مظلوم کشمیریوں کیلئے نئی کلفتیں‘ نئے عذاب‘ نئی پابندیاں اور نئے مسائل لے کر طلوع ہوا۔ یہی وہ سیاہ دن تھا جب فسطائی مودی حکومت نے شب خون مارتے ہوئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے مقبوضہ وادیٔ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کر دیا اور اسے بھارتی وفاق کے زیرِ انتظام ایک علاقہ قرار دے دیا۔ ان آرٹیکلز سے کشمیریوں کی امید بندھی تھی کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں گے اور ان کے تحت مقبوضہ کشمیر میں زمین اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریوں‘ وظائف، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اور صرف وہاں کے مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔ ان شقوں کی معطلی سے مقبوضہ کشمیر کے عوام مذکورہ بالا تمام حقوق سے محروم ہو چکے ہیں۔ نریندر مودی نے چار سال قبل کشمیر کو ہڑپ کرتے ہوئے جواہر لال نہرو کے کشمیر پر قبضے کے خواب کو پورا کر دکھایا اور اب اسی نشے میں بدمست آر ایس ایس کا پر چارک مودی اکھنڈ بھارت کی تکمیل کیلئے مقبوضہ کشمیرسے لے کر منی پور تک اقلیتوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے اور ہریانہ سمیت مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں کو مسمار کر کے انہیں دربدکیا جا رہا ہے۔ اب بھارت میں برملا کہا جا رہا ہے کہ بھارت میں رہنا ہے تو ''مودی اور یوگی‘‘ کوووٹ دینا ہو گا۔
کشمیریوں کی مزاحمت روکنے کیلئے مقبوضہ وادی میں کرفیو اور طرح طرح کی پابندیاں نافذ کی گئیں جو تاحال قائم ہیں اور پوری وادیٔ کشمیر گزشتہ چار برس سے محصور ہے جس کے باہر کی دنیا سے رابطے منقطع ہیں۔ کشمیریوں کا روزگار، کاروبار چھن گیا‘ بچوں کا تعلیمی اداروں میں جانا ناممکن ہوگیا اور مریضوں کو ہسپتال لے جانا اور ان کیلئے ادویات تک خریدنا ناممکنات میں شامل ہو گیا۔ کشمیری اپنے مرنے والے پیاروں کی لاشیں کو گھروں کے صحنوں میں دفنانے پر مجبور ہو گئے؛ تاہم اس خوف و جبر کے ماحول میں بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ بھارتی جبر و ظلم سہتے اور جاں گسل آزمائشوں کے دور سے گزر رہے کشمیریوں نے جرأت و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا پر ثابت کر دیا کہ چاہے ان پر سخت پہرے لگا دیے جائیں‘ ان کے سانس لینے پر بھی بھلے بندش ہو مگر وہ جدوجہد آزادی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہی 'ہندو بنیے‘ کی سفاکیت و بربریت کے آگے جھکیں گے، اور یہ کہ پاکستان سے الحاق ہی کشمیریوں کی حتمی منزل ہے۔ جنرل (ر) حمید گل مرحوم نے کشمیر کی تحر یک آزادی میں جو کردار ادا کیا‘ وہ تاریخ میں سنہرے حروف میں درج ہے۔ آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ ''کشمیر کو آزاد کرانے کی خاطر اگر پاکستان کو بھارت سے پچاس جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں‘‘۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنرل (ر) حمید گل کی وفات کے بعد کشمیر کاز کو شدید نقصان پہنچا اور کشمیریوں کے حوالے سے ایک مؤثر آواز خاموش ہو گئی۔
کشمیری اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ میں کشمیریوں‘ بالخصوص مقبوضہ جموں و کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ مسلسل تکالیف اٹھا رہے ہیں لیکن آپ تنہا نہیں ہیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ، پاکستان کی عسکری قیادت سمیت پوری قوم حق خود ارادیت کی آپ کی جدوجہد میں آپ کے ساتھ ہے اور ان شاء اللہ آزادی کا سورج طلوع ہونے تک ہم آپ کا ساتھ نبھائیں گے۔ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ پاکستان کی آرمی کشمیر اور اہالیانِ کشمیر کے ساتھ کھڑی ہے، ہم 'آخری سپاہی و آخری گولی‘ تک لڑیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مذموم سازشیں جاری ہیں۔ مودی سرکار دوسری ریاستوں سے پچاس لاکھ ہندوئوں کو لا کر کشمیر میں آباد کر رہی ہے اور انہیں مقامی ڈومیسائل بھی دے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بھارتی مردم شماری کمیشن نے ہندو اکثریت والے کشمیری علاقے کی نشستیں 83 سے بڑھا کر 90 کر دی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق مسلم آبادی کا تناسب اب 90 فیصد سے گھٹ کر 70 فیصد رہ گیا ہے اور یہ تناسب 50 فیصد سے بھی کم ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
نریندر مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر میں ترقی کا نیا دور شروع ہوا ہے جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ معیشت و تجارت تباہ، غربت، بھوک اور بیروزگاری نے مقبوضہ وادی میں مودی سرکار کے نام نہاد ترقی کے راگ کو بے نقاب کر دیا ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سروے کے مطابق حالیہ کچھ عرصے میں 5 لاکھ کشمیری مرد و خواتین اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ کشمیرکا موازنہ ایک ایسی جیل سے کیا جا رہا ہے جہاں بھارتی جبر اور دہشت گردی کا راج ہے۔ بھارتی مسلح افواج کے ہاتھوں کشمیری نوجوانوں کی جعلی مقابلوں میں ٹارگٹ کلنگ معمول کا واقعہ بن چکی ہے۔ ہزاروں کشمیری آج بھی جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید ہیں اور اپنا دفاع کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ مزید برآں سینکڑوں کمسن بچے جیلوں میں قید اور نظربند ہیں‘ جن کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ یہ بات کافی پریشان کن ہے کہ کشمیر میں 2019ء سے اب تک ہزاروں کشمیری خواتین لاپتا ہو چکی ہیں۔ تشدد اور خونریزی کے واقعات بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ بھارتی مظالم کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کرنے والے میڈیا اداروں کو بند کر دیا گیا ہے۔ سچائی کو منظر عام پر آنے سے روکنے کے لیے بھارت نے صحافتی سنسرشپ کا دائرہ لامحدود کر رکھا ہے اور لاکھوں کشمیریوں کو جن حالات کا سامنا ہے‘ ان خبروں کو کسی بھی صورت نشر و شائع کرنے کی اجازت نہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سروسز پر پابندیوں پر پابندیاں نافذ ہیں۔ انسانی حقوق‘ آزادیٔ فکر اور اظہارِ رائے سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مائیکل فورسٹ اور ڈیوڈ کائے نے بھی اس حوالے سے متعدد بار بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کڑے سنسرشپ نظام کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ بھارت اور مودی سرکار کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھے۔ بھارتی قابض حکام نے مقامی افراد کو زرعی اور غیر زرعی جائیدادوں سے زبردستی بے دخل کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں 1 لاکھ 78 ہزار ایکڑ اور جموں میں 25 ہزار 159 ایکڑ سے زائد اراضی اور املاک پر قابض افواج نے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ مقبوضہ وادی میں عمارتوں اور مکانات کو منہدم کرنے کے لیے بلڈوزر چلا کر ہزاروں لوگوں کو بے گھر کیا گیا۔ اسی طرح ریاستی زمینیں اونے پونے داموں کاروباری ہندوئوں اور غیر ریاستی افراد کو بیچنے کا سلسلہ جاری ہے۔ غیر کشمیری ہندوئوں کو ریاستی وسائل کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ ہے، مثال کے طور پر کان کنی، پتھروں کی کھدائی اور معدنیات کے 70 فیصد ٹھیکے غیر کشمیریوں کو دیے گئے۔ کشمیر میں 2023ء میں بیروزگاری کی شرح بڑھ کر 23.1 فیصد ہو چکی ہے۔ لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان بشمول ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز معمولی معمولی ملازمتوں کے لیے درخواستیں دینے پر مجبور ہیں۔ پھلوں کی صنعت‘ جو تقریباً 60 سے 70 فیصد مقامی آبادی کو روزی روٹی فراہم کرتی ہے‘ بے حسی اور بے اعتنائی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہے۔ جان بوجھ کر پھلوں سے لدے ٹرکوں کے وادی سے باہر جانے میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔
ادھر بھارتی سپریم کورٹ میں چار سال بعد دفعہ 370 کے خاتمے کے خلاف کیس کی سماعت 2 اگست سے روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ دیکھئے بھارتی انصاف کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اس وقت عالمی برادری کی جانب سے عملی اقدامات اور بھارتی مظالم کو روکنے اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے مستقل طور پر بند باندھنے کی ضرورت ہے جس کے لیے عالمی اداروں اور اقوامِ عالم کو مصلحت پسندی اور انسانی حقوق پر معاشی مفادات کو فوقیت دینے کی پالیسی ترک کرنا ہو گی اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی 21 اپریل 1948ء کی قرارداد پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرانا ہو گا بصورتِ دیگر علاقائی اور عالمی امن و استحکام کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved