محمد خیل کاپر مائننگ پروجیکٹ پر کام کرنے والے انجینئرز اور سٹاف کے انٹرویوز پر مبنی پروگرامز کے کچھ خاص کلپس اور کئی ڈیجیٹل میڈیا انٹرویوز نہ صرف یکایک سوشل میڈیا پر نظر آنے لگے بلکہ وائرل ہونا بھی شروع ہو گئے، مختلف حصے جوڑ کر بنائے گئے ان کلپس کو دیکھ کر سب کو یہی تاثر مل رہا تھا کہ ملک کی بہت بڑی دولت کوئی دوست ملک برسوں سے سب سے چھپا کر چپکے سے اپنے ہاں لے جا رہا ہے۔ ان وڈیو کلپس کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ اب تک وزیرستان سے6ہزار ٹن تانبا نکال کر چین لے جا چکا ہے۔ حالانکہ مجموعی طور پر ٹی وی پروگرامز اور اس میں پیش کیے گئے حقائق کچھ اور بتاتے ہیں لیکن مخصوص کلپس سے یہ تاثر بٹھایا گیا کہ پاکستانی قوم سے ایک بار پھر ہاتھ کیا جا رہا ہے اور ان کا سب کچھ لوٹ لیا گیا ہے۔ اس تاثر اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے لاتعداد تبصروں اور خدشات کے باوجود‘ اس پروجیکٹ کی اصل حقیقت سے متعلق ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ شاید یہ وضاحت اس وقت کی جائے گی جب بدگمانی کا زہر رگ رگ میں پھیلایا جا چکا ہو گا۔ اس طرح کے آدھے ادھورے کلپس وائرل ہوتے نہیں بلکہ کرائے جاتے ہیں اور ایسے وقت میں جب اسی وزیرستان میں کچھ تنظیمیں پشتونوں کی محرومیوں کے نعروں کو اپنے مخصوص سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور چند ماہ سے ان کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں‘ حکومت کی جانب سے اس کا نوٹس نہ لیا جانا اور بدگمانی اور شکوک کو شبہات کو نہ ہٹایا جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
اس منصوبے کے حوالے سے اب تک جو حقائق سامنے آئے ہیں‘ ان کے مطابق محمد خیل کاپر مائن شمالی وزیرستان کے علاقے بویا میں واقع ہے اور یہ پاکستان کا دوسرا بڑا تانبے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) چلا رہی ہے۔ مقامی لوگوں کی فلاح و بہبود اور زندگیاں بدلنے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کے ثمرات پاکستان کے لیے بھی کافی زیادہ ہیں۔ 2016ء میں شروع ہونے والے اس منصوبے پر شب و روز کام جاری و ساری ہے اور وسیع و عریض رقبے پر اب تک 15 ہزار میٹر سے زیادہ کھدائی ہو چکی ہے۔ اس منصوبے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کاBeneficiation پلانٹ بھی ادھر ہی لگایا گیا ہے اور 25 فیصد تانبے کے ساتھ خام مال بھی تیار کیا جاتا ہے۔ اس خام مال کو ملک کے بیشتر علاقوں میں بھیجنے کے ساتھ ساتھ برآمد کر کے زرمبادلہ بھی کمایا جاتا ہے۔واضح رہے کہ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں 30 مربع کلومیٹر کا علاقہ مختص کیا گیا۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق یہاں پانچ ملین ٹن تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہاں سے نکلنے والے 20 ہزار ٹن تابنے کو برآمد کیا گیا۔ دوسری جانب ایف ڈبلیو او نے اس منصوبے کے ثمرات یہاں کے مقامی لوگوں کو پہنچانے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔ منصوبے کی 70 فیصد ملازمتیں یہاں کے مقامی لوگوں کو دی گئی ہیں۔
گزشتہ سال شمالی وزیرستان کے علاقے بنوں ویسٹ بلاک سے تیل و گیس کی دریافت کی خبر آئی تھی۔ بتایا گیا تھا کہ یہ شمالی وزیرستان میں تیل وگیس کی پہلی دریافت ہے اور یہاں سے 25ایم ایم سی ایف ڈی گیس اور 300 بیرل یومیہ تیل کی پیداوار حاصل ہو گی۔ اس وقت بھی پشتونوں کے نام پر مرکز بیزار سیاست کرنے والے چند نام نہاد سیاسی لیڈروں نے اس خبر کو تنقید کا نشانہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ بویہ، دتا خیل، محمد خیل اور دیگر علاقوں سے معدنیات تو پہلے سے نکالی جا رہی ہیں‘ اب یہ خبر کیوں شیئر کی جا رہی ہے۔ اس طرح کے افراد کے متعلق ایک فیصد بھی شک نہیں کہ یہ قصداً لوگوں کے ذہنوں میں شک کا بیج بوتے ہیں اور پھر اپنے سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ اس وقت صوبہ خیبرپختونخوا کی عمومی سیاسی حالت یہ ہے کہ یہاں پر تحریک انصاف سب سے مقبول جماعت ہے اور اب تک ایک بھی جماعت یا سیاسی اتحاد ایسا نہیں جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ وہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کو ٹکر دے سکتا ہے۔ پرویز خٹک کی نئی سیاسی جماعت بھی اڑان بھرتے ہی زمین سے جا لگی۔ جن رہنمائوں کی لسٹ جاری کی گئی‘ ان میں سے بیشتر نے پارٹی میں شمولیت سے انکار کر دیا جبکہ کئی افراد جو پارٹی لانچنگ کی تقریب میں بھی موجود تھے‘ انہوں نے بھی پارٹی میں شمولیت یا پی ٹی آئی کو چھوڑنے کی صاف طور پر نفی کر دی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صوبے بھر میں پی ٹی آئی کی سیا سی طاقت کوکم کرنے کیلئے نت نئے قسم کے تجربات کیے جا رہے ہیں اور انہی میں سے ایک تجربہ ان نام نہاد قوم پرستوں کو کھلی چھوٹ دینا ہے جو امن کے سفید جھنڈوں کے سائے میں زہریلی تقریریں کر رہے اور لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں۔
اس وقت وزیرستان اور کے پی میں دوبارہ حالات کے خراب ہونے میں ایسے عناصر کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چیئرمین پی ٹی آئی سے لاکھ اختلافات مگر وفاقِ پاکستان سے متعلق ان کی زبان سے کبھی وہ الفاظ نہیں نکلے جو ان نام نہاد پشتون تحفظ کے علمبردار ہزاروں کے مجمع کے سامنے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی گزشتہ چند روز کی تقاریر سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے اور انہیں سنتے ہوئے دل لرزنے لگتے ہیں۔ مجال ہے کہ وفاق یا قومی اداروں کے خلاف کی جانے والی ان نفرت انگیز تقاریر پر کسی ایک جانب سے بھی ہلکی سی تشویش اظہار کیاگیا ہو۔ اس سے یہی مطلب لیا جائے گا کہ کے پی‘ بالخصوص قبائلی اضلاع میں ان کو کھلی چھٹی ہے کہ جس کا جو جی چاہے کرے‘ جو دل میں آئے وہ کہے‘ اس کو مکمل آزادی ہے۔
پشتون قوم کی محرومیوں کا نام لے کرجوانوں کے جذبات کی سلگتی آگ کو دوبارہ ہوا دی جا رہی ہے۔ پہلے بھی ہزارہا قربانیوں کے بعد دہشت گردی سے متاثرہ اس صوبے میں امن قائم کیا گیا تھا۔ اے پی ایس سمیت کئی سانحات کا بوجھ اس قوم کے کندھے جھکا چکا ہے‘ اب دوبارہ پرانی غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت پاکستان کے سیاسی‘ معاشی اور جغرافیائی حالات زیرِ بحث ہیں اور عالمی میڈیا پر ایسے واقعات کی رپورٹنگ سوشل میڈیا کی دنیا میں تہلکہ مچائے ہوئے ہے۔ جو کچھ اس وقت وزیرستان اور دوسرے قبائلی علا قوں میں یکے بعد دیگرے دیکھنے اور سننے میں آ رہا ہے‘ سوشل میڈیا کے اس دور میں دنیا اس سے کیسے بے خبر رہ سکتی ہے۔ کبھی جلسے‘ کبھی ریلی تو کبھی کسی ٹی وی پروگرام میں وزیرستان سمیت قبائلی علاقہ جات میں چھپی کھربوں ڈالرز کی معدنیات کی ''چوری‘‘ کی کہانیاں سنا کر نوجوان ذہنوں میں شکوک و شبہات کا زہر انڈیلا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے مگر ہم اتنی قربانیاں دینے‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد جانیں گنوانے اور سینکڑوں ارب ڈالر کا نقصان کرنے کے بعد بھی ہوش میں نہیں آ رہے۔ ابھی بلوچستان میں بیس برسوں سے بھڑکنے والی شورش ہی کم نہیں ہو رہی کہ اب پی ٹی ایم کی تقریریں قبائلی اضلاع کے نوجوانوں میں اضطراب پیدا کرنے لگ گئی ہیں۔
وہ کون سی طاقتیں ہیں چین کے نائب وزیراعظم کی پاکستان آمد کے طے شدہ پروگرام سے چند گھنٹے پہلے جنہوں نے باجوڑ میں دہشت گردی کرائی‘ وہ کون ہیں جنہوں نے پشتون نوجوانوں کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کر رکھا ہے کہ تمہارے گھر کی دولت‘ تمہارے وزیرستان کے جواہرات چپکے چپکے کوئی اور لے کر جا رہا ہے؟ کون ہے جو سی پیک کے روٹ کو غیر محفوظ بنانے کے مذموم منصوبوں پر کام کر رہا ہے؟ اگر میرے جیسا کم وسائل اور محدود عقل و فہم رکھنے والا قلم کار یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکا تو یقیناوہ اربابِ حل و عقد جن کے پاس اطلاعات اور وسائل کی بھر مار ہے‘ اس سے کیسے بے خبر ہو سکتے ہیں کہ اصل نشانہ کون ہے؟کے پی میں یکدم دہشت گردی کی خوفناک لہر کا ابھرنا اور وزیرستان سمیت دوسرے قبائلی علا قوں میں قوم پرست سیاستدانوں کا دوبارہ متحرک ہونا اور ہر چیز پر نفرت انگیز بیان بازی کرنا بے وجہ نہیں ہے۔ یہ ڈوریں یقینا کہیں دور سے ہلائی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا ہو گا۔ نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر انڈیلنے یا انہیں بھڑکانے کی تمام کاوشوں کو فوری زائل کرنا ہو گا وگرنہ اس کے مضمرات کئی دہائیوں تک بھگتنا پڑیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved