تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     29-09-2013

کشمیر اور بلوچستان

انتخابی مہم سے بھارت کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے ‘ جو کوششیں اور ماحول بنانے کی سعی ہو رہی تھی‘ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نوازشریف کی تقریر سے وہیں پہنچ گئی‘ جہاں پہلے تھی۔ وزیراعظم غالباً پہلے 100 دنوں کی کارکردگی پر عوامی ردعمل کے دبائو میں تھے اور چاہتے تھے کہ اپنی مقبولیت کا گراف اوپر لے جا کر‘ نقصان کی تلافی کر لیں۔ ان کی تقریر کی یقینا تعریف و توصیف ہو رہی ہے۔ لیکن اس سے کشمیریوں اور خود پاکستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچے گا۔ البتہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوبارہ مذاکرات کے لئے‘ جو مناسب فضا بنتی جا رہی تھی‘ اسے ضرور جھٹکا لگ گیا۔ میں کشمیر کی مایوس کن کہانی دہرا کے‘ قارئین کو بور نہیں کرنا چاہتا۔ ہم نے ابتدا ہی سے نان سٹیٹ ایکٹرز کا استعمال کر کے‘ تنازعہ کشمیر کو اپنے لئے مصیبت بنایا۔ ورنہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے درمیان‘ ریاست کے مستقبل کے فیصلے کے لئے مذاکرات کی جو فضا موجود تھی‘ اگر اسی کو برقرار رہنے دیا جاتا‘ تو کشمیر کے مسئلے کا بہتر حل ڈھونڈا جا سکتا تھا۔ لیکن پاکستانی قیادت نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے جلدی جلدی اقدامات کر کے‘ بھارت کو تقسیم ہند کے فارمولے سے جان چھڑانے کا موقع فراہم کر دیا۔ وہ معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور اس کے بعد اب تک جو کچھ ہوتا آ رہا ہے‘ سب ہمارے سامنے ہے۔ ہم عالمی برادری کی طرف دیکھتے رہ گئے۔ سلامتی کونسل سے امیدیں لگائے بیٹھے رہے اور بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کرتا چلا گیا۔ اس کے بعد ہمارے پاس یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر تقریریں کر کے اندرون ملک تحسین حاصل کر لیتے ہیں لیکن اس سے نہ کشمیریوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ تنازعہ کشمیر کے حل میں کوئی مدد ملتی ہے۔ وزیراعظم کی تقریر کے فوراً بعد جب ’’دنیانیوز‘‘ چینل پر مجھے تبصرے کے لئے کہا گیا‘ تو میں نے بھی اہل وطن کی طرح جنرل اسمبلی میں‘ کشمیر پر پاکستان کا موقف جرأت مندی سے پیش کرنے پر وزیراعظم کی تحسین کی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بھارتی وزیراعظم بھی جنرل اسمبلی میں تقریر کرنے والے ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ نواز شریف کی تقریر کے بعد‘ وہ کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں؟ مجھے زیادہ انتظار کی ضرورت نہیں پڑی۔ عین اسی روز صدر اوباما سے ملاقات کے بعد وائٹ ہائوس میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے‘ بھارتی وزیراعظم کے تیور بدلے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’خطے کو جن مشکلات کا سامنا ہے‘ ان کی وجہ پاکستان ہے۔ جو اب بھی خطے میں دہشت گردی کا مرکز ہے۔‘‘ پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’’اس سے زیادہ امیدیں نہیں رکھنا چاہئیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ ہمارے وزیراعظم کی تقریر کے فوراً بعد نئی دہلی اور نیویارک کے درمیان فوری تبادلہ پیغامات ہوا ہو گا اور منموہن سنگھ کے لہجے کی تبدیلی انہی پیغامات کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے بھارت کے حالات بھی کل کے ایک ہی دھماکہ خیز واقعے کے بعد بدل گئے ہیں۔ وزیراعظم منموہن سنگھ کی سیاسی حیثیت چشم زدن میں کمزور پڑ گئی۔ اب وہ داخلی طور پر اتنا الجھ گئے ہیں کہ اپنے دوراقتدار میں امورخارجہ کے شعبے میں کوئی اہم فیصلہ نہیں کر پائیں گے۔ چند الفاظ میں اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم نے مخلوط حکومت کے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر‘ایک قانون بنایا تھا‘ جس کے تحت‘ زیرسماعت مقدمات میں ملوث اسمبلیوں کے ممبران کو ایوانوں کی کارروائی میں شرکت کی اجازت دے دی گئی تھی۔ بل پر صرف صدر کے دستخط ہونا تھے۔ راہول گاندھی نے اچانک دہلی پریس کلب میں آ کر اعلان کر دیا کہ ’’یہ قانون نان سینس ہے۔ میری پارٹی نے یہ فیصلہ انتہائی غلط کیا ہے۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔‘‘ یہ بیان آتے ہی‘ کانگریس کی پوری لیڈرشپ اپنے وزیراعظم کے خلاف ہو گئی۔راہول کا اعلان ٹی وی پر آیا تو عجب تماشا ہوا۔ مجوزہ قانون کابینہ کا فیصلہ تھا‘ جس کا دفاع ساری کابینہ اور پارٹی کے عہدیدار کرتے رہے تھے۔ مگر جیسے ہی اچانک راہول نے اس فیصلے کو ’’ نان سینس ‘‘ کہا تو سارے کانگریسی لیڈر وزیراعظم اور کولیشن پارٹنرز کے متفقہ فیصلے کو ایک دم ٹھوکر مار کر راہول کے ہم خیال ہو گئے۔ شُکلا، جوکرکٹ کے راستے سے لوک سبھا اور گاندھی خاندان کے پرویز رشید بن گئے ہیں‘ انہیں پتہ نہیں تھا کہ راہول نے کیا کہا، مگر جب میڈیا نے راہول کی رائے بتا کر سوال کیا تو شُکلا نے جواب دیا ’’ مجھے معلوم نہیں راہول صاحب نے کیا کہا مگر جو کچھ انہوں نے کہا ہے مجھے اس سے کامل اتفاق ہے اور وہی ہماری پارٹی پالیسی۔‘‘ پھر اس کے بعد ایک کے بعد ایک کانگریسی لیڈر عابد شیر علی بنتا چلا گیا۔ہم بے شک الگ ہوچکے ہیں۔ مگر ان کی کانگریس اور ہماری مسلم لیگ اپنے طور طریقوں میں الگ نہیں ہوئے۔کانگریس لیڈروں کی بھیڑ چال دیکھ کر کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو یا تو استعفیٰ دینا پڑے گا یا بطور وزیراعظم اپنے باقی دن‘ ایک بے بس اور تنہا شخص کی حیثیت سے گزارنا ہوں گے۔ منموہن سنگھ اب پاک بھارت تعلقات کے معاملے میں کچھ کرنے کے قابل نہیں رہ گئے۔ اگلے چند ہفتوں میں بھارت میں تین اہم بھارتی ریاستوں کے انتخابات شروع ہو جائیں گے۔ ان کے فوراً بعد عام انتخابات کی مہم کا وقت آ جائے گا اور نئے سال کے اختتام تک‘ حکومت امور خارجہ کے حساس معاملات پر توجہ نہیں دے پائے گی۔ لہٰذا پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل‘ اگر معطل نہیں تو سست رفتار ضرور ہو جائے گا۔ ہمارے وزیراعظم کی تقریر میں کشمیر کا معاملہ اٹھانے کا کارنامہ تو انجام دے دیا گیا۔ لیکن اس سے یہ مسئلہ یو این میں دوبارہ زیربحث نہیں آ سکے گا۔ دونوں ملک معاہدے کے تحت اس امر کے پابند ہیں کہ تنازعہ کشمیر‘ باہمی بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔ بلوچستان میں خوفناک زلزلے کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں‘ متاثرین کی جو حالت ہو رہی ہے‘ اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہاں بڑے شہر اور بستیاں نہیں ہیں۔ صحرائوں میں دوردور بکھرے ہوئے مٹی کے گھر ہیں یا کہیں کہیں پختہ اینٹوں کے گھر پائے جاتے تھے‘ وہ سب کے سب زمین بوس ہو چکے ہیں۔جانی نقصان کا ابھی تک اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ کیونکہ تمام متاثرہ علاقوں میں تو باہر سے ابھی کوئی پہنچ ہی نہیں پایا۔ مکانات گرنے سے جو لوگ زخمی ہوئے‘ ان میں اکثریت کے جسموں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں اور انہیں مطلوبہ علاج کی سہولت میسر نہیں۔ پانی کا حصول وہاں کے بے گھر اور زخمی شہریوں کے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔ گرمی اور گردوغبار سے بچائو کا کوئی طریقہ نہیں۔ مزید ظلم یہ کہ ناراض نوجوانوں کے جو گروپ‘ حکومت سے برسرپیکار ہیں‘ وہ اپنے ہی اہل وطن کی مصیبت میں کمی لانے کی کوششوں کو ناکام بنا رہے ہیں۔ امدادی سامان لے جانے والے رضاکاروں اور اہلکاروں پر حملے کرتے ہیں۔ امدادی سامان لوٹ لیتے ہیں اور حد یہ کہ جو اعلیٰ حکام تباہی کا جائزہ لینے جاتے ہیں تاکہ امدادی سامان پہنچانے کے انتظامات کریں‘ ان کے ہیلی کاپٹروں پر راکٹ چلائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز پاک فوج کے دو میجرل جنرلز‘ راکٹوں کے حملے سے بال بال بچے۔ یہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔ کچھ بیرونی ملکوں نے بھی مدد کی پیش کش کی ہے۔ لیکن کسی کو بھی متاثرین تک پہنچنے کا محفوظ راستہ دستیاب نہیں۔ ان حالات میں بحریہ ٹائون کے سابق سربراہ ملک ریاض حسین نے بے مثال پیش کش کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں ذاتی وسائل سے ‘ تمام متاثرین کو دوبارہ آباد کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے حکومت سے صرف اتنی مدد چاہیے کہ وہ متاثرہ علاقوں تک پہنچنے اور انجینئروں‘ کاریگروں اور تعمیراتی اور امدادی سامان پہنچانے کے لئے محفوظ راستے مہیا کر دے۔ ملک ریاض ایک بزنس مین ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی پاکستان میں کسی نسلی اور قومی گروپ میں‘ ان کے خلاف کسی بھی طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ ملک ریاض کے سیاسی مقاصد بھی نہیں اور ان کی پیش کش کو دیکھا جائے‘ تو جس شخص کے دل میں زلزلہ زدگان کے لئے ذرا بھی ہمدردی پائی جاتی ہے‘ اس کی یہی خواہش ہو گی کہ متاثرین کو اس پیش کش کے فوائد سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔ ملک صاحب کے مطابق وہ تمام تعمیراتی سامان خود پہنچائیں گے۔ منہدم ہونے والے تمام گھروں کو خود تعمیر کرائیں گے۔ ان کے صرف انجینئر اور فنی ماہرین ‘ متاثرہ علاقے میں پہنچیں گے۔ باقی سارے کام متاثرین سے معاوضہ دے کر کرائے جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی انہیں روزمرہ ضروریات کی اشیا بھی‘ جیسے خوراک اور دیگر چیزیں‘ ملک صاحب کی طرف سے فراہم کی جائیں گی۔ گویا امداد کا یہ عمل نہ صرف انسانی اعتبار سے خوشگوار ہو گا بلکہ جب مقامی آبادی کو اپنے ہی مکانات کی تعمیر میں حصہ لینے کے مواقع بھی ملیں گے اور ساتھ معاوضہ بھی حاصل ہو گا‘ تو اس سے بہتر صورتحال کیا ہو سکتی ہے؟ میں جنگجونوجوانوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ ملک صاحب کی اس پیشکش کے فوائد اپنے مصیبت زدہ بھائیوں تک پہنچنے سے نہ روکیں اور اسے قبول کرتے ہوئے اعلان کریں کہ ملک صاحب کی طرف سے آنے والی امداد اور اسے پہنچانے والے کارکنوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ حکومت اور جنگجوگروپوں کی طرف سے‘ تحفظ کی یقین دہانی‘ زلزلہ زدگان کے لئے ایک احسان عظیم ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved