دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی مذہب ،عقیدے ،نظریے یا فکر کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنی فکر کو اپنی دانست میں بالکل درست سمجھتا اور اپنے پسندیدہ مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ غیر معمولی وابستگی رکھتا ہے۔ لوگ اپنے مذہبی رہنماؤں اور پیشواؤں کے ساتھ کئی مرتبہ اپنی اولادوں سے بھی بڑھ کر پیار اور محبت کرتے ہیں اور جب یہ نسبت کسی پیغمبر یا نبی کی ذات کے ساتھ ہوتو اس میں کہیں زیادہ پختگی اور قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کی ناموس کے لیے اپنی جانوں کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ تمام مسلمانوں کو والہانہ وابستگی ہے اور کوئی بھی غیرت مند مسلمان نبی کریمﷺ کی شانِ اقدس میں کسی قسم کی کمی یا توہین کو برداشت نہیں کر سکتا۔ جب بھی کبھی کسی مغربی ملک میں توہینِ رسالت کے حوالے سے کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو دنیا بھر کے مسلمان اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں اس حوالے سے احتجاجی جلسے، جلوس،اجتماعات اور تقاریر سننے کو ملتی ہیں۔ کئی مرتبہ غم و غصہ اس حد تک بڑھ جا تا ہے کہ مظاہرین اور حکومتوں کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اہلِ اسلام کا اپنے حکمرانوں سے ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ گستاخی کا ارتکاب کرنے والے یا ان کی سرپرستی کرنے والے ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو منقطع کیا جائے ۔ مسلم حکمرانوں کی بڑی تعداد دنیاوی اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اُمت کے جذبات کی صحیح طور پر ترجمانی نہیں کر پاتی جس کی وجہ سے عامۃ الناس میں غم وغصے کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
اس مسئلے کی نزاکت کو سمجھنے کے لیے بعض نکات کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر شخص اپنی عزت اور ناموس کے حوالے سے حساس ہوتا ہے؛ چنانچہ کوئی شخص بھی اس بات کو پسند نہیں کرتاکہ کوئی شخص اُس کی توہین کرے یا اس کو بدنام کرنے کی کوشش کرے۔ توہین اور بدنامی کے واقعات سے بچنے کے لیے انسان ہر قسم کے ذرائع اور وسائل کو اختیار کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔انسانوں کی اس نفسیاتی الجھن کو دور کرنے اور ان کی عزت وناموس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے دنیا بھر میں ہتکِ عزت کے قوانین بنائے گئے ہیں جن میں اس بات کو طے کیا گیا کہ کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کی بلا جواز توہین نہیں کر سکتا۔ ہتکِ عزت کے مقدمات میں کئی مرتبہ متاثرہ فریق اپنی عزت کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے جارح سے خطیر رقوم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
ریاستوں میں قوانین کی عملداری کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ عدالتوں کے احترام کو یقینی بنایا جائے۔ اگر عدالتی فیصلوں پر بے لاگ تبصرے کیے جائیں اور ان کو تضحیک کا نشانہ بنایا جائے تو دنیا میں کہیں بھی قیام امن کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ قانون کی عملداری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے ریاست کا داخلی ڈھانچہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے؛ چنانچہ ریاست کے داخلی ڈھانچے کو مضبوط رکھنے اور معاشرے میں قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے دنیا بھر میں توہینِ عدالت کے قوانین بنائے جاتے ہیں اور ان قوانین کے ذریعے لوگوں کو اس بات کا پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ عدالتوں کی توہین اور تضحیک سے باز رہیں۔
دنیا کابہت بڑا حصہ بالخصوص مغربی ممالک جمہوریت ،حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار پر یقین رکھتا ہے نفرت پر مبنی اشتعال انگیز تحریروں اور تقاریر کو ہر سطح پر مسترد کیا جاتا ہے۔ دنیا کے کئی اہم ایئر پورٹس پر امیگریشن کے کاؤنٹرز کے پیچھے اس قسم کے فلیکس اور بینرز آویزاں کیے جاتے ہیں کہ بدتہذیبی اور توہین کو گوارا نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار کا کوئی بھی اسلوب‘ جس میں عدالتی فیصلوں ،اداروں اور انسانوں کو تضحیک یا توہین کانشانہ بنایا جائے‘ اجتماعی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔ عقلِ اجتماعی نے جس انداز سے ہتکِ عزت اور توہینِ عدالت کے قوانین کو قبول کیا ہے‘ اس سے کہیں بڑھ کر انبیاء کرام اور مقدساتِ دین کی ناموس کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک میں اس حوالے سے کڑی سزاؤں کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ اُن لوگوں کی دریدہ دہنی کو روکا جا سکے جو انبیاء کرام اور مقدساتِ دین و اُمت کی ناموس پر حملہ کرتے ہیں ۔ان قوانین کویورپ اور مغربی ممالک میں اجرا کے لیے سمجھدار اور بااثر مسلمان رہنما اور مفکرین اپنی اپنی بساط کے مطابق جستجو کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس میں انبیاء کرام علیہم السلام اورنبی کریمﷺ کی حرمت کو یقینی بنانے کے لیے باقاعدہ طور پہ قانون سازی کی گئی ہے۔ آئین کی شق295-A انبیاء کرام علیہم السلام اوربانیانِ مذاہب کے خلاف ہونے والی گستاخیوں کے انسداد کے لیے قانونی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح 295-Cکے قوانین خصوصاً نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے کی جانے والی گستاخیوں کے انسدادکے حوالے سے ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔ کئی سازشی عناصر ان قوانین کو کالعدم کرانے کے لیے اپنی بساط کے مطابق کوششیں کرتے رہتے ہیں لیکن اُن کو ہمیشہ علما کرام اور مذہبی طبقات کی مؤثر کوششوں کی وجہ سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کی حرمت کو یقینی بنانے پر تمام مکاتب فکر کا کلی اتفاق ہے ۔اسی طرح آپﷺ کی ذات سے وابستہ صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیت عظامؓ کی عظمت بھی مسلمانوں میں مسلّم ہے۔ بعض عناصر اس حوالے سے بد احتیاطی کرتے اور نامناسب رویوں کا اظہار کرتے ہیں جس کو دینی طبقات اور علما کرام نے کبھی قبول نہیں کیا ۔
قاضی حسین احمد مرحوم نے اس حوالے سے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر نمایاں کردار ادا کیا اور اہلِ تشیع اور اہلِ سنت علما سے اس یادداشت پر دستخط کرائے کہ تنقیصِ صحابہ و اہل بیت حرام اور تکفیر صحابہ و اہل بیت کفر ہے۔ ان اصولوں پر تمام علما کرام اتفاق کر چکے ہیں؛ تاہم ان اصول وضوابط کو ملکی قانون بنانے کے لیے ایک عرصے سے کوششیں کی جا رہی تھیں۔ ایک دور میں مولانا اعظم طارق نے اس حوالے سے کوششیں کیں اور اسمبلی میں ناموس صحابہؓ کے حوالے سے بل پیش کیا جو پاس نہ ہو سکا۔ بعد ازاں ان کے فرزند مولانا معاویہ طارق نے مولانا الیاس چنیوٹی اور مولانا جلیل احمد شرقپوری کی ہمراہی میں مؤثر انداز سے کوشش کی اور پنجاب اسمبلی میں سپیکر چودھری پرویز الٰہی کے دور میں اس بل کو منظور کرانے کی کوشش کی۔ اسمبلی کے ارکان کی واضح اکثریت کی حمایت سے یہ بل منظور ہوالیکن گورنر کے دستخط نہ کرنے کی وجہ سے قانون کا حصہ نہ بن سکا۔ چودھری پرویز الٰہی نے اس حوالے سے ذاتی کوششیں بھی کیں لیکن یہ کوششیں پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں۔ کچھ عرصہ قبل جماعت اسلامی کے سینئر رہنما اور ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے ناموس صحابہؓ و اہل بیتؓ کے حوالے سے ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جو اتفاقِ رائے سے قومی اسمبلی سے منظور ہو گیا ۔بعد ازاں اس بل کو سینیٹ میں سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نے پیش کیا لیکن یہ بل بحث کے حوالے سے التوا کا شکار رہا ۔کئی مہینے کے بعد اس بل کو 7 اگست کو دوبارہ حافظ عبدالکریم نے پیش کیا اور ہاؤس سے انتہائی عاجزی اور انکساری سے التجا کی کہ اس حقیقت پر تمام طبقات کا اتفاق ہے کہ اہل بیتؓ وصحابہ کرامؓ کی تنقیص ،توہین اور تکفیر کو کسی بھی طور پر گوارا نہیں کیاجا سکتا؛ چنانچہ اس بل کو منظور کیا جائے۔ اس بل کے محرکین میں اُن کے ہمراہ سینیٹر عبدالغفور حیدری اور سینیٹر مشتاق احمد خان بھی تھے۔ اس بل کے حوالے سے جب سینیٹ کے ممبران کو احساس دلایا گیا تو معمولی مزاحمت کے بعد یہ بل سینیٹ سے بھی اکثریتِ رائے سے منظور ہو گیا۔ اس بل کے منظور ہونے کے بعد اہل بیتؓ وصحابہ کرامؓ کی ناموس کو قانونی تحفظ حاصل ہو چکا ہے ۔
ہمارے ملک میں جرائم کے انسداد کے لیے کئی قوانین موجود ہیں لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا رہتا ہے؛ تاہم یہ قوانین ماورائے عدالت اقدام اور انتقامی کارروائیوں کے راستے میں رکاوٹ بنتے اور اہلِ اسلام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں قیام امن کو یقینی بنانے میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ناموس صحابہؓ و اہلِ بیتؓ بل کا قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور ہو جانا یقینا ایک بہت بڑی خوشخبری ہے‘ اس پر تمام مذہبی طبقات نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے اور اس موقع پر ان تمام لوگوں‘ جنہوں نے اسمبلی کے اندر اور باہر اس حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے جستجو کی‘ کو مبارکباد بھی دی ہے اور اُن کی خدمات کا اعتراف بھی کیا ہے۔
پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس کا آئین کتاب و سنت کے عملداری کی ضمانت دیتا ہے۔ ختم نبوت اور ناموس رسالت کو بھی اس کے آئین کے ذریعے قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ ناموس صحابہؓ و اہل بیتؓ بل منظور ہو جانے سے ملک کا نظریاتی تشخص مزید اجاگر ہوا ہے اور یہ بات واضح ہوئی ہے کہ پاکستان واقعی ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کے داخلی اور خارجی دشمنوں اور سازشی عناصر سے اس کی حفاظت فرمائے اور اس کو حقیقی معنوں میں ایک نظریاتی اور فلاحی ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعا ہے کہ علما ،سیاستدان ،مذہبی ادارے اور دینی جماعتیں‘ جو پاکستان کے جغرافیے کے ساتھ ساتھ اس کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے لیے بھی متحرک رہتی ہیں‘ اللہ تبارک و تعالیٰ اُن کو قائم رکھے اور ان کی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، آمین !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved