اسلام آبادکی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر ایک لاکھ روپے جرمانہ نہیں ادا کیا جاتا تو چھ ماہ مزید قید ہو گی۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ زمان پارک سے گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کر دیا گیا۔ ایک جانب اس فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے تو دوسری جانب ماہرین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس کیس میں اثاثے ظاہر کرنے کا جو معیار طے کیا گیا ہے‘ اس پر کئی دیگر سیاستدانوں کو بھی سزا ہوسکتی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف، شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف سمیت متعدد ارکان نے توشہ خانہ سے تحائف وصول کیے اور ان کا اعتراف بھی کیا مگر کسی ایک نے بھی فارم بی میں ان تحائف کو اپنے پاس رکھنے یا انہیں دوسروں کو منتقل کرنے کی تفصیلات نہیں دیں۔ اس کیس میں مزید کیا سامنے آتا ہے‘ یہ تو آئندہ چند دنوں میں علم ہو جائے گا‘ یادش بخیر گزشتہ سال جولائی میں 'نااہلی کی بے رحم تلوار‘ کے عنوان سے ایک کالم میں مَیں نے بتایا تھا کہ خان صاحب کو میدانِ سیاست سے باہر کرنے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ ابتدائی نااہلی توشہ خانہ کیس میں ہو گی اور پھر دیگر بہت سے کیسز میں خان صاحب کو سنگین دفعات کے تحت گرفتار کیا جائے گا۔ جبکہ 'پلان بی‘ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ایک دھڑے کو پارٹی قیادت کے خلاف کھڑا کیا جائے تاکہ بطور پارٹی تحریک انصاف کو کمزور کیا جائے۔
یہ کالم اس وقت شائع ہوا تھا جب پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت تھی اور کے پی میں محمود خان وزیراعلیٰ تھے۔ اُس وقت جب ایک واقفِ حال نے ایک نجی ملاقات میں سرگوشی کے سے انداز میں یہ خبردی کہ جلد پی ٹی آئی کا عوامی مقبولیت کا گھمنڈ ختم ہو جائے گا تو یقین نہیں آیا تھا۔ بحث مباحثے کے بعد بھی وہ اپنی خبر پر قائم رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ محمد مرسی کے بعد اب پی ٹی آئی کے چیئرمین کی صورت میں ایک نئی مثالِ عبرت قائم کرے گی اور اس کے آثار چند دنوں میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
ایک طرف چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے سے جوڑا جا رہا ہے تو دوسری جانب کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہو نہ ہو‘ پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پہ کوئی آسیب ہے کہ جو بھی اس پر بیٹھا بعد میں زندان اور مقدمات ہی اس کا مقدر ٹھہرے اور حالیہ کچھ سال میں اس روش نے کافی جڑ پکڑ لی ہے۔ ملک کے پانچویں وزیر اعظم حسین شہید سہروردی سے شروع ہونے والا سلسلہ اب خان صاحب تک آ گیا ہے‘ خدا جانے یہ کہاں جا کر رکے گا۔ حسین شہید سہروردی نے ایوب خان کے اقتدار کی توثیق سے انکار کیا تو ان پر پہلے الیکٹو باڈیز ڈسکوالیفکیشن آرڈر (ای بی ڈی او) کے تحت سیاست کرنے پر پابندی عائد کی گئی اور بعد ازاں جنوری 1962ء میں انہیں ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزامات کے تحت گرفتار کرکے کسی مقدمے کے بغیر ہی کراچی کی سنٹرل جیل میں قیدِ تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ستمبر 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو ایک سیاسی مخالف کے قتل کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔اولاً انہیں لاہور ہائیکورٹ نے اس بنا پر رہا کر دیا تھا کہ ان کی گرفتاری کا کوئی قانونی جواز نہیں لیکن چند دن بعد ہی بھٹو کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور 4 اپریل 1979ء کو پھانسی دے دی گئی۔ مسلم لیگ نواز کی ''دو تہائی اکثریت‘‘ والی حکومت میں مئی 1998ء سے اپریل 1999ء تک متعدد بار بینظیر بھٹو کے وارنٹ جاری کیے گئے اور بالآخر ایک سوئس کمپنی سے کک بیکس لینے کے جرم میں پانچ سال قید اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہلی کی سزا سنا دی گئی۔ واضح رہے کہ سزا کے وقت بینظیر بھٹو ملک میں موجود نہیں تھیں۔ اکتوبر 1999ء میں پرویز مشرف کے حکومت سنبھالنے کے بعد اثاثہ جات ریفرنس کیس میں عدم حاضری کی بنیاد پر بینظیر بھٹو کے دوبارہ ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔اس سے قبل 12 اکتوبر کو تختہ الٹے جانے پر میاں نواز شریف کو زندان خانے منتقل کیا جا چکا تھا‘ جو 2001ء میں ایک ڈیل کے تحت بیرونِ ملک روانہ ہو گئے۔ صرف گزشتہ تین جمہوری ادوار کا جائزہ لیا جائے تو تینوں اسمبلیوں میں وزرائے اعظم معزول اور نااہل ہوئے۔
ادھر خان صاحب کی گرفتاری کے بعد قصور میں کھڈیاں کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم صاحب کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے تو کوئی گھڑیاں نہیں بیچیں، نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں گھر بھیج دیا گیا۔ ا س وقت مسلم لیگ نواز کا سوشل میڈیا سیل مکافاتِ عمل قرار دے کر توشہ خانہ کیس کا موازنہ پاناما ریفرنس سے کر رہا ہے حالانکہ دونوں کیسز کا کوئی موازنہ ہے ہی نہیں۔ حالیہ فیصلے کے حوالے سے سپریم کورٹ بار اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے کئی سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ قانون کے مطابق کسی بھی ملزم کی غیر موجودگی میں سنائی گئی سزا غیر قانونی ہوتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ حالیہ کئی فیصلوں میں یہ واضح کر چکی ہے کہ ملزم کو سزا سنانے سے پہلے اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا بھرپور موقع دیا جانا چاہیے۔ ضابطہ فوجداری کے تحت پراسیکیوشن کی شہادت مکمل ہونے کے بعد ملزم کا بیان زیرِ دفعہ 342 ریکارڈ کیا جاتا ہے، جو موجودہ کیس میں نہیں ریکارڈ کیا گیا۔ملزم کی گواہ پیش کرنے کی درخواست اس وقت ہائیکورٹ میں زیرِ سماعت ہے جس پر فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کیس میں کئی لُوپ ہولز ہیں۔ اگر پاناما کیس کی بات کی جائے تو اپریل 2016ء میں سامنے آنے والے پاناما سکینڈل کی سپریم کورٹ میں سماعت یکم نومبر 2016ء کو شروع ہوئی تھی اور 20 اپریل 2017ء کو تین‘ دو سے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ سامنے آیا تو مزید تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا اور پھر 28 جولائی 2017ء کو جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ سنایا گیا۔ اس سے قبل جے آئی ٹی نے (اس وقت کے) وزیر اعظم نواز شریف‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، چیئرمین نیب، صدر نیشنل بینک، اس وقت کے چیئرمین ایس ای سی پی کے بیانات ریکارڈ کیے۔ نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کو 6 بار‘ حسن نواز کو 3 بار طلب کیا جبکہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو بھی طلب کیا گیا۔ جے آئی ٹی نے 63 روز میں تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کی جس کے بعد فریقین کے اعتراضات سنے گئے اور پانچ روز مسلسل سماعت کے بعد 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جو 28 جولائی 2017ء کو سنایا گیا۔ آج چھ سال گزرنے کے بعد یہ گلہ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کا فیئر ٹرائل نہیں ہوا تھا، انہیں اپنی صفائی کا موقع نہیںملا تھا۔ سپریم کورٹ کے دو بینچ‘ جے آئی ٹی اور اس کے بعد اعتراضات کی سماعت‘ اس کے بعد فیئر ٹرائل کیا ہوتا ہے؟
سیاسی مخالفت میں انتہائی حدوں تک جانے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ آپ خود بھی تو شیشے کے گھر میں نہیں بیٹھے ہوئے؟ اقتدار کی تلوار دو رخی ہوتی ہے۔ اگر آج اس کی زد میں مخالفین آ رہے ہیں تو کل لازماً آپ کی باری بھی آئے گی۔ آج آپ نے توشہ خانہ کیس میں جو معیار مقرر کردیا ہے‘ کل آپ کو بھی اسی پر پرکھا جائے گا۔ ویسے بھی جب جیل بھیجنے کی خواہش کا اظہار سرعام جلسوں میں کیا جاتا رہا ہو تو پھر کون ایسے مقدمات کی حیثیت کو مانے گا؟ اس سب کو دیکھ کر تو یہی کہا جائے گا کہ یہ سب تو پہلے سے طے تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved