یہ گمان بلا جواز ہے کہ کوئی زمینی حقیقت کبھی نہیں بدلتی۔ زمینی حقیقتیں بھی بدلتی ہیں مگر ہاں‘ ایسا کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے، بہت قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ یہ کوئی راتوں رات رونما ہونے والا معاملہ نہیں۔ ہر ناموافق زمینی حقیقت ایک بڑے چیلنج کا درجہ رکھتی ہے۔ ہر چیلنج اِس لیے ہوتا ہے کہ انسان متحرک ہو اور جو کچھ بھی ناموافق دکھائی دے رہا ہے اُسے بدلنے کے لیے کچھ کرے۔ اِس کی توفیق کم ہی لوگوں کو مل پاتی ہے۔ جب تک دل نہ چاہے تب تک انسان ایسا کچھ بھی نہیں کرسکتا جو اُس کے اور اُس کے ماحول کے ناپسندیدہ معاملات کی اصلیت کو بدلے۔
ہم بہت کچھ دیکھتے ہیں اور برداشت، قبول یا ہضم کرتے چلے جاتے ہیں۔ بہت کچھ ہمیں قبول یا برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔ بعض معاملات البتہ ایسے ہوتے ہیں جو ہم سے زیرو ٹالرنس کا تقاضا کرتے ہیں یعنی اُن کے حوالے سے ہم میں تحمل اور برداشت کا جذبہ اور ارادہ ہونا ہی نہیں چاہیے مگر کیا کیجیے کہ ایسا ہی ہے یعنی ہم وہ سب کچھ بھی برداشت کرتے چلے جاتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ کسی نہ کسی طور ہضم کرتے رہتے ہیں۔ زندگی مستقل آزمائش ہے۔ ہر سطح اور ہر طبقے کے انسان کو مرتے دم تک کسی نہ کسی حوالے سے تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ ہر زمینی حقیقت ہمیں آزماتی ہے۔ جو کچھ بھی ہمارے سامنے ہے وہ سچ ہے اور ہمیں اُس سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل اختیار کرنا پڑتی ہے۔ ایسا نہ کرنے کا آپشن بھی ہے مگر یہ آپشن اپنانے والے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔ ہر معاشرے میں اور ہر سطح پر ایسے لوگ غالب اکثریت میں ہیں جو زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے زندہ رہنا پسند کرتے ہیں اور اِس کا خمیازہ بھی بھگتتے رہتے ہیں۔ جو کچھ بھی ہمارے سامنے ہے یعنی جس سے آنکھیں ملاتے ہوئے ہم جی رہے ہیں وہ سب سے بڑا سچ ہے اور ہمیں جو کچھ بھی سوچنا اور کرنا ہے اُس میں اُس آنکھوں کے سامنے کے سچ سے مطابقت رکھنے والا بہت کچھ ہونا چاہیے۔
ہمارے ماحول میں جو کچھ بھی پایا جاتا ہے وہ ناقابلِ تردید حقیقت کا درجہ رکھتا ہے سوال یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ قابلِ قبول ہے بھی یا نہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں اُس کے وجود کو تسلیم اور قبول کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی اچھائی کو تبھی اپنایا جاسکتا ہے جب ہم اُسے قبول کریں۔ اِسی طور کسی بھی خرابی کو ہم اُسی وقت دور کرسکتے ہیں جب ہم اُس کے وجود کو تسلیم کریں۔ اِسے عرفِ عام میں حقیقت پسندی کہتے ہیں۔ حقیقت پسندی انسان میں قوتِ برداشت کا گراف بلند کرتی ہے۔ کسی بھی انسان کو اپنا آپ بدلنے کی حقیقی تحریک اُسی وقت مل سکتی ہے جب وہ قابلِ رشک حد تک حقیقت پسندی کا حامل ہو۔ ہم زندگی بھر مختلف النوع حالات کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ ہر صورتِ حال ہم سے کسی نہ کسی چیز کا تقاضا تو کرتی ہی ہے۔ اگر معاملہ اچھا ہو تو اُس کا تقاضا یہ ہوتا ہے ہم خوشی کا اظہار کریں، دوسروں کو اپنی خوشی میں شریک کریں۔ اگر معاملہ ناموافق ہو تو اُس کا بنیادی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوں، اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کچھ سوچیں، تدارک کے لیے متحرک ہوں۔ یہ جو کچھ بھی سوچنا اور کرنا ہے یہ سب زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ اِس مرحلے سے بار بار گزرنا ہے۔ جب بار بار گزرنا ہی ٹھہرا تو کیوں نہ اِس اٹل حقیقت جیسے مرحلے کو اپنایا جائے، ہر لائحۂ عمل اِس کے تقاضوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ترتیب دیا جائے؟ دانش کا تقاضا تو یہی ہے۔
ذہن کو بروئے کار لائے بغیر زندگی بسر کرنے کا ''حوصلہ‘‘ تو اُنہی میں ہوتا ہے جنہوں نے عقلِ سلیم بیچ کھائی ہو۔ ہمیں قدم قدم پر ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں جن کی زندگی میں شعور اور احساس نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ذہن کو بروئے کار لانے میں دلچسپی لینے سے گریز کرتے رہتے ہیں۔ اِن سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بے شعوری کی حالت میں جینے کی صورت میں کیا کیا جھیلنا پڑتا ہے!
جو کچھ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور جس سے دن رات گزرتے ہوئے ہم جی رہے ہیں اُس کا معیار بلند کرنا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ حالات ہمارے گھر سے شروع ہوتے ہیں اور ریاستی سطح تک پھیلتے ہیں۔ گھر سے نکلئے تو گلی ہے اور گلی سے نکلئے تو علاقہ۔ پھر پورا شہر۔ اِس کے بعد صوبہ اور پھر قومی سطح۔ ہم کتنی پَرتوں میں جی رہے ہوتے ہیں اور اِس کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ جو کچھ زندگی کا حصہ ہو جائے اُس کا احساس کم ہی ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بعض امور میں ہمیں شعور سے کام لیتے ہوئے بہت کچھ کرنا ہوتا ہے مگر ہم معمولات میں گم ہوکر اپنے حصے کا کام بھول جاتے ہیں۔ سوال معیشت کا ہو یا معاشرت کا، ہمیں حقیقت پسندی کا آپشن ہی اپنانا ہے۔ جو کچھ بھی آنکھوں کے سامنے ہے وہ بدیہی حقیقت ہے اور ہر بدیہی حقیقت اصلاً اِس لیے ہوتی ہے کہ اُسے قبول کیا جائے۔ ہر بدیہی حقیقت کو قبول کرنے کی صورت ہی میں اُس کے حوالے سے سوچنے اور کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
ہر دور کا انسان اپنی آنکھوں کے سامنے کے سچ سے لڑتا اور جان چھڑانے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ جو کچھ بھی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے وہ سب کا سب قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ حالات کے دامن میں ہمارے خلاف بہت کچھ ہوتا ہے۔ مفادات کا ٹکراؤ ہمارے لیے الجھنیں پیدا کرتا ہے۔ ہم اپنے مفاد کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ کوشش دوسروں سے تصادم کی کیفیت پیدا کیے بغیر رہتی نہیں۔ دوسروں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کوئی بھی معاملہ یکطرفہ نہیں ہوتا۔ جو لوگ انسانوں کے درمیان رہتے ہیں اُنہیں مفادات کے تصادم کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ کہیں فریق بننا پڑتا ہے اور کہیں کسی کو فریق بنانا پڑتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے کا سچ ہمیں یونہی آزمائشوں سے دوچار رکھتا ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان سے پوچھ دیکھیے۔ کامیابی کے راز بیان کرتے وقت وہ آپ کو کسی نہ کسی طور یہ بات ضرور بتائے گا کہ بدیہی حقیقتوں کو تسلیم اور قبول کرکے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ بھرپور کامیابی کا ذہن بنانے والے سب سے پہلے اپنی آنکھوں کے سامنے کے سچ کو قبول کرتے ہیں۔ اِس مرحلے سے کامیاب گزرنے کی صورت میں وہ اپنے لیے ایسی راہ منتخب کر پاتے ہیں جس پر غیر معمولی استقامت کے ساتھ چلنا ممکن ہو۔
آرزوؤں اور اُمیدوں کا جھولا جھولنے اور زمینی حقیقتوں کا سامنا کرنے میں بہت فرق ہے۔ محض خوش گمانیوں اور خوش فہمیوں کی وادیوں کی سیر کرتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی بھی راتوں رات کامیاب نہیں ہوتا۔ جو کامیابی ہمیں راتوں رات ملتی دکھائی دیتی ہے وہ بھی برسوں اور کبھی کبھی تو عشروں کی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کسی بھی شعبے کے نمایاں ترین شخصیات کی جدوجہد کے بارے میں پڑھ دیکھیے، اندازہ ہو جائے گا کہ کچھ بھی بیٹھے بٹھائے ملا ہے نہ راتوں رات۔ کوئی اپنے آپ کو پوری طرح کھپاتا ہے تو ہی کچھ پاتا ہے۔ اور اِس کے لیے ناگزیر ہے کہ آنکھوں کے سامنے کے سچ کو شرحِ صدر سے قبول کیا جائے، اُس کے تقاضوں کو سمجھنے اور اُن سے مطابقت رکھنے والی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اِس مرحلے سے گزرے بغیر ہم اپنے لیے ممکنہ حد تک معقول ترین طرزِ فکر و عمل یا لائحۂ عمل ترتیب نہیں دے سکتے۔آج کی نئی نسل الجھی ہوئی ہے۔ ذہن میں غیر متعلق باتوں کے داخل ہونے اور جمع ہوتے رہنے کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پورٹلز نے نئی نسل کو قدم قدم پر الجھنوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ ذہن کو یکسو رکھنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ایسے میں صرف حقیقت پسندی ایسا ہتھیار ہے جس کی مدد سے زندگی کے ہر محاذ پر دادِ شجاعت دی جاسکتی ہے۔
کسی بھی معنی خیز تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے سب سے پہلے اپنے ماحول میں پائی جانے والی حقیقتوں کو قبول کرنا سیکھئے۔ جو کچھ آنکھوں کے سامنے ہے اُس سے چشم پوشی کسی بھی درجے میں قابلِ ستائش روش نہیں۔ زندگی کو اپنائیے، حقیقتوں کو گلے لگائیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved