وہ کچھ عرصہ سے ہماری مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے۔ عین وقت پر گاڑی سے آتے۔ جیسے ہی جماعت تمام ہوتی‘ اُٹھتے اور چلے جاتے۔ چہرے پر مسکراہٹ رہتی! کئی بار نوٹ کیا کہ مسجد کا دروازہ کھولتے ہوئے‘ پیچھے آنے والے کو پہلے گزرنے دیتے۔ پہلی صف میں کھڑا ہونے کے لیے کبھی تیز قدم نہ اٹھاتے۔ نارمل رفتار کے ساتھ متانت سے چلتے اور ہمیشہ دوسروں کو پہلے موقع دیتے۔ کئی بار دیکھا کہ کسی کے جوتے دور ہوتے تو جھک کر اٹھاتے اور نزدیک کر دیتے۔ ہم بقیہ نمازی تو محلے ہی کے تھے اور ایک دوسرے کو بخوبی جانتے تھے مگر ان کے بارے میں کسی کو معلوم نہ تھا کہ کہاں سے آتے ہیں۔ ہماری مسجد میں ایک طویل ریش بوڑھا بھی آتا تھا‘ قریب کے کسی خالی گھر میں چوکیدار تھا۔ ٹوٹے ہوئے دانت‘ لڑکھڑاتی چال‘ بوسیدہ لباس! دو بار نوٹ کیا کہ وہ صاحب اس کے ہاتھ میں کچھ تھما رہے تھے۔ ان کی شخصیت میں عجیب سی کشش تھی۔ جب بھی انہیں سلام کرتا اور وہ مسکرا کر جواب دیتے تو اپنائیت سی محسوس ہوتی! یوں لگتا تھا ان سے دیرینہ تعلق تھا مگر حقیقت میں کوئی تعلق نہ تھا۔ کیش اینڈ کیری سٹور ہمارے گھر سے پانچ منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ ایک شام میں کچھ سودا خرید رہا تھا کہ وہ نظر آئے۔ پھل خرید رہے تھے۔ میں کاؤنٹر پر ادائیگی کے لیے قطار میں کھڑا تھا کہ وہ میرے پیچھے آکر کھڑے ہو گئے۔ میں نے انہیں اپنی جگہ کی پیشکش کی کہ وہ پہلے ادائیگی کر لیں مگر انہوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ شکریہ ادا کیا۔ میں نے اصرار کیا تو کہنے لگے کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہم اپنی اپنی باری پر ہی ادائیگی کریں گے۔ میں سودا اٹھائے گاڑی کی طرف جا رہا تھا کہ قدم رُک گئے۔ میں بلا ارداہ ان کا انتظار کرنے لگا۔ وہ سٹور سے باہر نکلے تو میں نے پوچھا کہ کہاں قیام پذیر ہیں۔ انہوں نے ایک آبادی کا نام لیا جو ہمارے محلے سے بالکل متصل تھی۔ میں نے بغیر سوچے پوچھ لیا کہ کیا انہیں ملنے آسکتا ہوں؟ مسکرائے اور کہا ضرور۔ انہوں نے جیب سے بٹوہ نکالا اور کارڈ مجھے دیا۔ کارڈ پر صرف نام تھا‘ فون نمبر اور گھر کا ایڈریس۔ اس سارے عرصہ کے دوران جب میں ان سے بات کر رہا تھا‘ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے بشاشت قسم کی کوئی شے میرے اندر اُتر رہی ہو۔ ان سے بات کر کے عجیب طمانیت کا احساس ہو رہا تھا۔
ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد فون کیا اور ان سے ملنے کا وقت طے کیا۔ یہ ایک درمیانہ درجے کی خوبصورت آبادی تھی۔ شروع میں بڑے گھر تھے۔ دو دو تین تین کنال کے‘ پھر ایک ایک کنال کے‘ پھر بارہ مرلے کے۔ ان کا گھر بارہ مرلے کا تھا۔ گھنٹی دی۔ وہ خود باہر آئے۔ ایک سادہ سا ڈرائنگ روم تھا۔ بات چیت شروع ہوئی۔ وہ اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہوئے تھے۔ پورے پورے براعظموں کے انچارج رہے تھے۔ میں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ اس چھوٹے گھر میں کیوں رہ رہے ہیں؟ مسکرائے اور کہا یہ گھر ہماری ضرورت کے مطابق ہے۔ اس سے بڑے گھر کی ضرورت نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ تو ماشاء اللہ بڑا گھر بلکہ محل بھی آسانی سے افورڈ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بہت اطمینان سے جواب دیا کہ گھر استطاعت کے لحاظ سے نہیں‘ ضرورت کے لحاظ ہونا چاہیے۔ اگر استطاعت سات بیڈ روم کی ہو اور ضرورت دو بیڈ روم کی‘ تو سات بیڈ کا گھر بنانا حماقت ہے یا نمودو نمائش اور نمودو نمائش کا دوسرا نام تکبر ہے۔ میں نے پوچھا آپ کی شخصیت میں ایک جاذبیت ہے اور چہرے پر اطمینان! اس کا کیا سبب ہے؟ آخر آپ کی زندگی کا مرکزی نکتہ کیا ہے؟ ان کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ کہا مجھے نہیں معلوم میری شخصیت میں جاذبیت ہے یا نہیں اور چہرے سے اطمینان جھلکتا ہے یا نہیں۔ جہاں تک میری زندگی کے مرکزی نکتے کا تعلق ہے تو وہ بے نیازی ہے! بے نیازی!! بے نیازی میری زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ کیریئر کے دوران بھی اگر مجھ سے زیادتی ہوئی اور میری جگہ کسی اور کی ناروا سرپرستی کی گئی تو میں نے کوئی پروا نہیں کی۔ بے نیاز رہا۔ کسی رفیقِ کار نے زیادتی کی تو بے نیاز رہا۔ میں نے پوچھا کہ بے نیازی کی نشانی کیا ہے؟ کہنے لگے بے نیازی کی نشانی یہ ہے کہ کسی واقعہ سے یا کسی کی زیادتی سے آپ کے دل پر سے کوئی سایہ نہ گزرے۔ آپ کے اطمینانِ قلب پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ آپ زیادتی کرنے والے سے بالکل اسی طرح ملیں جیسے پہلے ملتے تھے۔ کوئی برائی کرے تو بدلہ نہ لیجئے۔ وہ شرمندگی کی وجہ سے رابطہ نہیں کر رہا تو آپ خود رابطہ کرکے اس کی Face Savingکریں تاکہ وہ ذہنی تکلیف سے یا ندامت سے باہر نکلے۔ بے نیازی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ کسی سے بدلہ نہ لیجئے۔ جب آپ بدلہ لینے کا سوچتے ہیں اور انتقام لینے کا منصوبہ بناتے ہیں تو آپ اپنے لیے ٹینشن کا دروازہ کھولتے ہیں۔ ایک کرب سے گزرتے ہیں۔ اندر ہی اندر کُڑھتے ہیں۔ اس کا اثر سب سے پہلے آپ کے چہرے پر پڑتا ہے۔ چہرے سے مسکراہٹ‘ بشاشت‘ اطمینان سب کچھ غائب ہو جاتا ہے۔ رویے میں بوکھلاہٹ در آتی ہے۔ پھر جب آپ بدلہ لے چکتے ہیں اور دوسرے کو نقصان پہنچا چکتے ہیں تو انتقام کی آگ تو ٹھنڈی ہو جاتی ہے مگر اب ایک احساسِ ندامت آپ کے درپے ہو جاتا ہے۔ اس سے آپ کا چہرہ زیادہ بے نور ہوتا ہے اور برتاؤ میں تنگی آجاتی ہے۔
بے نیازی یہ بھی ہے کہ جب اپنی ضرورت کا سامان آپ نے حاصل کر لیا تو پھر اس میں اضافے کا نہ سوچئے۔ قناعت کیجئے۔ ورنہ آپ ایک ایسی دوڑ میں شریک ہو جائیں گے جو کہیں ختم نہیں ہو رہی۔ ہاں آپ تھک کر گر پڑیں تو اور بات ہے! آپ کے پاس رہنے کے لیے مکان ہے۔ مہینہ گزارنے کے لیے معقول رقم ہر ماہ آجاتی ہے۔ علاج کی سہولت موجود ہے تو اب آپ کو کسی پلاٹ‘ کسی مکان‘ کسی سامان کی مزید ضرورت نہیں! ایک خاص عمر کے بعد آپ کو طویل المدت سرمایہ کاری کی حاجت بھی نہیں رہتی۔ جو کچھ قدرت نے آپ کو عطا کر دیا ہے‘ وہ لاکھوں کے پاس نہیں ہے۔ ان کی طرف دیکھئے۔ اس سے آپ کو شکر کرنے کی طاقت نصیب ہو گی۔ جب آپ ان چیزوں کی طرف دیکھیں گے جو آپ کے پاس نہیں ہیں اور ان کے بغیر آپ کی گزر بسر بخوبی ہو رہی ہے تو آپ اپنے لیے اضطراب کی مستقل صورتحال پیدا کر لیں گے۔ غور کیا جائے تو شکر‘ بے نیازی اور قناعت ایک ہی شے کے تین رخ ہیں اور یہ تینوں رُخ جسے حاصل ہو جائیں وہ غنی ہے اور خوش بخت ہے۔
وہ بول رہے تھے اور میں ہمہ تن گوش تھا۔ کہہ رہے تھے بے نیازی کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آپ سے کسی نے زیادتی کی ہے یا آپ کی حق تلفی کی ہے یا آپ کو آزردہ خاطر کیا ہے تو اس کا ذکر کسی سے بھی نہ کیجئے‘ خاص طور پر ان لوگوں سے تو بالکل نہ کیجئے جن کا اس سے ملنا جلنا ہے۔ اس کے دو بہت بڑے فائدے ہیں۔ ایک تو آپ غیبت سے بچ جائیں گے‘ دوسرے اس کی زیادتی کو جلد بھول سکیں گے۔ ورنہ جب بھی تذکرہ کریں گے‘ زیادتی از سر نو زندہ ہو جائے گی۔ زیادتی کرنے والے کو نظر انداز کرنا عفو اور بے نیازی کی بہترین شکلوں میں سے ایک ہے!
ان سے مل کر واپس آتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے زندگی کی نئی لِیز مل گئی ہے!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved