غیرمعمولی حالات غیرمعمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ فقرہ آپ کو کچھ سنا سنا سا لگے لیکن پاکستان میں کب اور کس وقت معمولی حالات‘ غیرمعمولی صورت حال میں تبدیل ہو جائیں‘ اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ آپ آئندہ عام انتخابات کو ہی دیکھ لیں‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس حوالے سے بھی اب غیرمعمولی حالات بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ 25جولائی 2018ء کے انتخابات کو پانچ سال ہو چکے۔ اس کے نتیجے میں تقریباً ساڑھے تین سال تحریک انصاف اقتدار میں رہی۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا اور تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ شہباز شریف اتحادی حکومت کے وزیراعظم رہے۔ آئین کے آرٹیکل 52میں قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال درج ہے اور موجودہ قومی اسمبلی کے پانچ سال بارہ اگست رات بارہ بجے پورے ہورہے ہیں لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے بدھ‘ نو اگست کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ اسمبلی مقررہ مدت پوری ہونے پر خود بخود تحلیل ہو تو الیکشن کمیشن ساٹھ دن میں انتخابات کرانے کا پابند ہوتا ہے۔ وقت سے پہلے تحلیل کردی جائے تو الیکشن کمیشن کو نوے دن میں انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔ الیکشن وقت پر ہوں گے یا نہیں؟ یہی اس وقت سب سے بڑا اور اہم سوال ہے۔
حکومت کی جانب سے نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد انتخابات کا انعقاد التوا کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے منظور کردہ نئی مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کو ملکی آبادی کے نئے اعدادوشمار کے مطابق انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندیاں کرنا ہوں گی۔ الیکشن کمیشن کو نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں مکمل کرنے میں چار ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس کے بعد حلقہ بندیوں پر اعتراضات بھی دور کرنا ہوں گے جس میں پہلے تو سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن سے ہی رجوع کریں گی۔ اس کے بعد بھی اعتراضات دور نہ ہوئے تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق اس قانونی عمل میں بھی دو مہینے لگ سکتے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن اس تمام عمل کو مناسب وقت میں پورا کرے تب بھی یہ معاملہ دسمبر تک جا سکتا ہے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن شیڈول کا اعلان کرے تو انتخابات فروری یا مارچ 2024ء تک جا سکتے ہیں۔ انتخابات میں یہ التوا محض قانونی اور آئینی ماہرین کے اندازوں تک محدود نہیں۔ وفاقی وزرا بھی کچھ ایسے اشارے دیتے نظر آتے ہیں۔ رانا ثنا اللہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں واضح طور پر کہا تھا کہ 2023ء الیکشن کا سال نہیں ہے۔ مردم شماری نوٹیفائی ہو جائے تو حلقہ بندیاں آئینی تقاضا ہیں۔ خواجہ آصف نے سی این این کو انٹرویو میں بتایا کہ انتخابات نومبر میں ہو جائیں گے لیکن اگر الیکشن کمیشن چاہے تو اس میں ایک دو ماہ کی تاخیر کر سکتا ہے‘ اس سے زیادہ نہیں۔ ان وزرا کی رائے سامنے رکھی جائے تو ہلکی پھلکی جمہوریت میں ہلکی پھلکی انتخابی تاخیر کا امکان ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حد تک تو یہ مظاہرہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف نے اس سال جنوری میں دونوں صوبوں کی اسمبلیاں اس امید پر تحلیل کی تھیں کہ آئین کی رو سے نوے روز میں نئے انتخابات ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف میدان ما رلے گی‘ پھر اپنی حکومت بنائے گی اور سیاسی مخالفین کو ناکوں چنے چبوائے گی۔ تحریک انصاف نے ان دونوں صوبوں میں انتخابات کے لیے احتجاجی تحریک چلائی۔ عدالت سے رجوع کیا لیکن اب ان دونوں صوبوں میں بھی انتخابات وفاق‘ پنجاب اور بلوچستان کے ساتھ ہی ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ سوال اب بھی مگر اپنی جگہ پر قائم ہے کہ آخر انتخابات کب ہوں گے؟ منتخب حکومتوں کے گھر جانے کے بعد نگران سیٹ اَپ آئے گا۔ ایسے میں اہم سوال یہ بھی ہے کہ نگران وزیراعظم کون ہوگا؟ اس منصب کے لیے گورنر سندھ کامران ٹیسوری‘ بلوچستان سے جسٹس ریٹائرڈ شکیل بلوچ‘ سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ‘ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر‘ فواد حسن فواد اور سابق گورنر بلوچستان ذوالفقار علی خان مگسی کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ کچھ حلقوں کی جانب سے سید محسن رضا نقوی اور سابق گورنر سندھ عشرت العباد کا نام بھی نگران وزیراعظم کے لیے تجویز کیا جارہا ہے۔ انتخابات کے انعقاد میں ممکنہ تاخیر کا امکان نگران وزیراعظم کے عہدے کو مزید اہم بناتا ہے۔ کچھ حلقوں کی طرف سے بات کی جا رہی ہے کہ نگران وزیراعظم ماہر معیشت ہوگا تاکہ وہ اس وقت ملک کو درپیش معاشی مسائل کو سمجھ سکے۔ عالمی سطح پر معیشت کے نگہبانوں سے بھی بات کر سکے۔ دوست ممالک سے سرمایہ کاری کی راہ ہموار بنائے رکھے۔ ایسے میں حفیظ شیخ کو نگران وزیراعظم کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار قرار دیا جارہا ہے۔ حفیظ شیخ صاحب تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر خزانہ رہے ہیں۔ انہوں نے آئی ایم ایف سے ڈیل کی۔ یہ وہی ڈیل تھی جس کو پی ڈی ایم پہلے اپوزیشن میں اور پھر اقتدار میں رہ کر بھرپور تنقید کا نشانہ بناتی رہی۔ حفیظ شیخ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر خزانہ رہے اور تب بھی قومی خزانے اور ملکی معیشت کے لیے کوئی بڑا چمکتار نہیں دکھا پائے۔ وہ اس سے بھی پہلے صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی صوبائی سطح پر خزانے کی کنجی کے نگہبان رہے لیکن وہاں بھی کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ حفیظ شیخ کے ناقدین یہ سوال بھی اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ وہ مختلف ادوار میں تین بار خزانے کے حوالے سے کوئی بڑا کارنامہ نہیں کر سکے تو اب ایک بار پھر اگر ان کو موقع دیا جائے تو ان سے مختلف نتائج کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ خیر یہ ملکِ عزیز پاکستان ہے‘ یہاں اَنہونی کبھی اَنہونی نہیں ہوتی۔ اگرچہ تادم تحریر مسلم لیگ (ن) حفیظ شیخ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے‘ تاہم اگر حفیظ شیخ صاحب ہی منظورِ نظر ہیں تو پھر نگران وزیراعظم وہی ہوں گے۔ بدخواہ یوں ہی برائیاں کرتے کرتے تھک جائیں گے۔
نگران وزارتِ عظمیٰ کے لیے تجویز کردہ ناموں میں ایک اہم نام فواد حسن فواد کا بھی ہے جو کہ سابق بیوروکریٹ ہیں اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت زیر عتاب آئی تو سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ہونے کی وجہ سے فواد حسن فواد بھی جیل پہنچ گئے۔ اسیر رہے۔ مشکلات دیکھیں۔ اپنی سروس کا آخری حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا۔ میاں نواز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباؤ برداشت کیا‘ لیکن اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ اسیری کاٹ لی لیکن وعدہ معاف گواہ نہیں بنے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف جب ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان گواہی دینے کے لیے سامنے آئے تو ان دونوں اشخاص کا موازنہ بھی کیا گیا۔ ایسے میں فواد حسن فواد مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی پسند ہوں گے اور وہ یہ ضرور چاہیں گے کہ نگران وزیراعظم ان کا تجویز کنندہ شخص ہی بنے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگلے انتخابات کب ہوں گے اور مستقبل کی سیاست کس کروٹ بیٹھے گی‘ ان سب باتوں کا فیصلہ نگران وزیراعظم کے اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کے بعد ہی ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved