آج کل آموں کا سیزن ہے۔ دکان داروں کو آپ یہ کہتے کبھی نہیں سنیں گے کہ یہ آم پیوندی ہیں۔ تقریباً چالیس پچاس برس پہلے پیوندی آم اتنے عام نہیں تھے۔ دیسی آموں کا راج تھا جو مختلف رنگوں‘ ذائقوں اور سائزوں میں آتے تھے۔ ہم جیسے دیسی لوگ آج بھی دیسی آم پسند کرتے ہیں جو اب بالکل نایاب ہیں اور بازاروں میں فروخت نہیں ہوتے۔ لوگ پیوندی آموں کے شوقین ہیں‘ اس لیے انہی کا راج ہے۔ دیسی اپنے دیس کی مٹی میں کہیں دفن ہو گیا مگر مسئلہ یہ ہے کہ جونہی دیسی کو دفن کریں‘ ایک مضبوط پودے کی صورت نکل آتا ہے۔ اس لیے کہ زمین تو دیسیوں کی ہے۔ آموں کا مسئلہ اس لیے چھیڑا کہ ہائبرڈ نظام کی سمجھ‘ جو مجھے بالکل نہیں آتی‘ شاید آپ سمجھا سکیں۔ کوشش رہتی ہے کہ انگریزی الفاظ کو کم استعمال کیا جائے۔ سوچا کہ ہائبرڈ کے اردو معنی اور مطالب انٹرنیٹ کھول کر دیکھے جائیں۔ اگر میں سارے الفاظ یہاں لکھ دوں تو یہ مضمون ناقابلِ اشاعت ہو جائے گاکہ غضب خدا کا‘ ہمارے اردو ماہرین نے ہائبرڈ کے کیا کیا عجیب و غریب معنی نکالے ہوئے ہیں۔ کچھ تو گالی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس لیے لکھنے سے گریز کر رہا ہوں۔ پیوندی ذرا ہائبرڈ کی انگریزی روح کے قریب محسوس ہوا تو اس کا انتخاب کیا۔ ہائبرڈ کا لفظ موجودہ نظام کے لیے اب ایسے ہی استعمال ہو رہا ہے جیسے ہم انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہماری صحافی برادری کی دانشوری کا کرشمہ ہے کہ ایک ایسا نام دے دیا ہے جس سے اب سمجھ جاتے ہیں کہ ہم اسے مکمل جمہوریت تو نہیں کہہ سکتے‘ بس کچھ ہے بھی اور کچھ نہیں بھی۔ کوئی درمیان کا معاملہ ہے لیکن کچھ زیادہ پتا نہیں چلتا کہ طاقت کا مرکز پارلیمان ہے‘ وزیر اعظم یا پھر کہیں اور۔
ہائبرڈ‘ یعنی پیوندی نظام کی اصطلاح دنیا کی سیاسی لغت میں اضافہ ہے۔ بالکل نئی بات کہ سیاست کرنے والے اور سیاست پڑھنے پڑھانے والے نظاموں کے بارے میں جمہوریت‘ آمریت اور بادشاہت کے حوالوں سے جانتے ہیں۔ اب دنیا کے وہ ممالک جو ہمیں پسماندگی‘ ناکامی‘ دہشت گردی اور نہ جانے کیا کیا طعنے دیتے ہیں‘ اب خوب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کیا کچھ ایجاد نہیں کر سکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری ایجادات کا احاطہ ابھی سیاست تک محدود ہے۔ جمہوریت کس فضا‘ ماحول اور ثقافتی‘ تاریخی اور معاشی پس منظر میں پروان چڑھتی ہے‘ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر ہزاروں مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ ایک بات پر اتفاق ہے کہ یہ پودا ہر تہذیبی زمین کے لیے موزوں ہے۔ اس کے لیے نہ کسی رنگ‘ نہ مذہب اور نہ کسی موسم اور جغرافیائی محلِ وقوع کی خاصیت درکار ہے۔ جب ہم نے اس میدان میں ابھی قدم رکھا تھا‘ یہ بحثیں عام تھیں۔ اب کوئی ایسی رکاوٹوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ دنیا کی تاریخ میں چار جمہوری لہریں تین مختلف صدیوں پر محیط ہیں۔ گزشتہ صدی کے آخر تک جمہوریت پسند ہر جگہ پُر امید تھے کہ جمہوری انقلاب کا پھیلاؤ عالمگیر حیثیت اختیار کرے گا۔ ہم بھی یہاں بہت جشن منا رہے تھے کہ1988 ء میں ہمارا دوسرا جمہوری دور شروع ہوا تھا۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ سیاسی پیوندکاری کا آغاز اس زمانے میں ہی ہو گیا تھا۔ یاد نہیں مرکز میں کس کی حکومت تھی اور پنجاب میں کون جیتا تھا‘ اور پنجاب میں جیتنے والے اپنے محسن کی برسی کے لیے کتنا بڑا جلوس فیض آباد انٹرچینج سے لے کرفیصل مسجد تک لے کر جاتے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید وزیراعظم تو بنیں مگر جو سیاسی دھڑے اور نئے سیاسی گھرانے پیوند کاری سے گورنر ہائوس کی لیبارٹری میں تیار ہوئے تھے‘ انہوں نے جو حالات پیدا کیے وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔
پیوند کاری یا ہائبرڈ نظام ہماری تاریخ میں نیا نہیں‘ بس نام میں پُرکشش جدت پسندی کا عنصر بہت عمدہ اور نمایاں ہے۔ اوپر دیسیوں کا ذکر تھا کہ وہ ملاوٹ بالکل پسند نہیں کرتے‘ خالص اور صر ف خالص چیزیں تلاش کرتے ہیں۔ مگر اس دور میں آپ کو اگر دوائیوں سے لے کر دودھ تک ہر چیز ملاوٹی ملے تو پھراگر آپ خالص جمہوریت‘ مخلص سیاسی رہنما اور اصلی آئین و قانون کی حکمرانی کی خواہش پالیں گے تو سوائے مایوسی کے آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ ہم چونکہ ولایتی ہو کر دیسی بننے کی کوشش کرتے ہیں یا دیسی روح کے ساتھ ولایتی بلند پروازیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو اس لیے ہمارا خیال یہ بھی تھا کہ اس پیوند کاری کو حالا ت کا جبر مان کر دل سے نہیں تو زبان سے تسلیم کر لیا جائے اور اس دوران جمہوریت کے اصلی پودے کی نگہداشت بہتر کی جائے۔ دنیا کے کئی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے تھیں۔ پیوندی نظام کی تباہ کاریاں آہستہ آہستہ ختم ہو گئیں اور طاقت کا توازن عوام کے منتخب ایوانوں کی طرف لوٹ آیا۔ میں خود اس ضمن میں اپنی تصنیف پرویز مشرف کی ''حقیقی جمہوریت‘‘ سے پہلے تک پُر امید تھا۔ آپس کی خوامخواہ کی سیاسی جنگ کے باوجود دو بڑی سیاسی جماعتیں بھی پیوند کاری سے نکلنے کی کوشش میں تھیں۔ پرویز مشرف کا اقتدار پر قبضہ کرنا اس بات کی دلیل ہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ نواز شریف دوسروں کے گہرے سایوں سے نکل کر اپنی جگہ بنا چکے تھے۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو پیوندی نظام کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔
اصل میں اس نظام کی جڑیں 1988 سے بھی تیس سال پہلے ایوب خان کے زمانے میں قائم ہوئی تھیں۔ ان کے ''سنہری انقلاب‘‘ کے آغاز کا وہ دن مجھے ابھی تک یاد ہے۔ وہ جمہوریت کو گائیڈ کرنا چاہتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں جمہوری گھوڑے کو لگام دے کر اس پر شہسور خود بننا چاہتے تھے۔ پیوند کاری میں کنونشن مسلم لیگ اور منتخب اسمبلیاں ضرور تھیں مگر جس طرح اس وقت کے چیف جسٹس ایم آر کیانی نے ایوب خان کے آئین کو لائل پور کے گھنٹہ گھر سے تشبیہ دی تھی‘ اختیارات کے سب راستے ان کے گھر کی طرف جاتے تھے۔ ہماری تاریخ اس موقف کی تائید کرتی ہے کہ بدصورت جمہوریت کو سنو والی کریم کی دبیز تہیں چڑھا کر بھی خوبصورت نہیں بنایا جا سکتا۔ ہمارے پرانے زمانے میں سنو والی کریم لائل پور میں بنتی تھی اور ہر چہرے کو خوبصورت بنانے کے لیے مشہور تھی۔
ایک اور کوشش بھی ہوئی جس کا ذکرکر نے کا ابھی وقت نہیں آیا مگر وہ بھی پیوند کاری کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی۔ ''مجھے کیوں نکالا‘‘ سننے میں آیا مگر بعد میں خود یہی سوال لے کر میدان میں اترے آئے۔ آخری خبریں آنے تک پانچ سال کے لیے نااہل قرار پائے ہیں۔ اب سولہ مہینوں والے بھی رخصت ہو چکے مگر ان کی پیوندکاری کے اثرات شاید کئی سالوں تک ہماری سیاست اور معیشت سے رخصت نہ ہوں۔ اصلی اور ملاوٹی کا مسئلہ کافی عرصہ سے ہمارے ساتھ رہا ہے مگر اب یہ ایک نئے دور میں داخل ہو چکا۔ دونوں کے درمیان تضاد ایک نئی اور واضح شکل میں گزشتہ ڈیرھ سال سے سامنے آیا ہے۔ پیوند کاری نظام کا توازن بگڑا تو اسے اصل شکل میں لانے کے لیے ایک اور وزیراعظم بھی نکل گیا۔ پہلے نکلنے والے تو بہت خوش ہیں کہ تم نے ہمیں نکلوایا تو ہم نے بھی وہی کر دکھایا۔ ہم جیل گئے تو تم بھی گئے۔ ہم نااہل ہوئے تو تم بھی ہوئے‘ حساب برابر۔ بھولے بادشاہو‘ یہی تو آپ پہلے بھی کر رہے تھے اور پیوندکاری کے لیے سیاسی فضا کو سازگار رکھا ہوا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ حساب کتاب برابر کرنے کے دیگر معنی انتقام‘ کوتاہ اندیشی اور سیاست بازی ہیں۔ اگر ہماری صفوں میں کوئی مدبر سیاست دان ہوتا تو پیوندی نظام کبھی ہماری قومی شناخت اور سیاسی قسمت کا درجہ حاصل نہ کر سکتا۔ موج میلوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ ملاوٹی کو اصلی سمجھ کر قبول فرمائیں‘ ورنہ ... مقامات آہ و فغان اور بھی ہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved