زندہ دلانِ لاہور کو متوجہ کرنے کے لیے مختلف کھابے بیچنے والے اپنی دکان کو مشہور کی بجائے المشہور کہتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہر حملہ آور قابض اورجابر اپنے آپ کو گریٹ کہتا رہا۔ لیکن لاتعداد حملے کرنے والا قونیہ کا مسمی الیگزینڈر ابنِ فلپ دوم جب یورپ سے آگے حملے کرتا ہوا مِڈل ایسٹ کی طرف بڑھا‘ جس کے بعد وہ پرشیا کو تاراج کرتے کرتے پوٹھوہار تک آپہنچتا ہے۔ جہاں دھرتی کے دلیر بیٹے راجہ پورس نے اُس کے دانت کھٹے کیے تو تب جا کر وہ الیگزینڈر دی گریٹ کہلا سکا۔
اسی طرح سے 164کے المشہور بیانات‘ جنہوں نے جوڈیشل ہسٹری میں اپنے لیے جگہ بنائی‘ ان کے سکرپٹ رائٹر کو ہمیشہ وقت نے عین بروقت منظر عام پر لا کھڑا کیا۔ ایسا ہی اب امریکی سائفر سے متعلق خود امریکہ والوں نے کیا ہے۔اس تناظر میں 164کے پروہت اور پجاریوں کے چہرے بھی واضح ہوگئے۔ آئیے ان پر نظر ڈالتے ہیں۔
ایک امریکی ویب سائٹ نے9اگست 2023ء کو امریکی سائفر سے متعلق یہ دعویٰ کیا ہے کہ سائفر انہیں کسی سورس نے دیا ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سات مارچ 2022ء کے اس سیکرٹ کیبل جسے ہماری وزارتِ خارجہ سائفر کہتی ہے‘ اور جو اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ڈپارٹمنٹ ڈونلڈ لُو کی گفتگو پر مبنی ہے۔ امریکی اہلکاروں کی یہ گفتگو‘ جس میں سینٹرل ایشین افیئرز کے آفیشلز شامل تھے‘ نیو یارک میں پاکستان کے ایمبیسڈر اسد مجید خان سے ہوئی تھی۔ سائفر سامنے آنے کے بعد وائٹ ہائوس اور سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے عمران خان کی سائفر والی تقریر پہ تبصرہ کرتے ہوئے اس کو مِس انفارمیشن اور ڈِس انفارمیشن قرار دیا۔ امریکی سائفر سے متعلق ریاستی اداروں کی تین عدد پریس ریلیزز ریکارڈ پر پہلے ہی موجود ہیں۔ جن میں سے دو پریس ریلیزز نیشنل سکیورٹی کونسل کی طرف سے جاری ہوئی ہیں جبکہ ایک پریس ریلیز وازرتِ امورِ خارجہ پاکستان نے جاری کی۔ جس کے بعد پاکستان کی خود مختاری میں مداخلت پر امریکی سفارت خانے کو ڈی مارش جاری کیا گیا۔
اب جو تفصیلات امریکہ سے سامنے آئی ہیں۔ اُس کے تین اہم حصے ہیں:
پہلا حصہ: جب سے سائفر سامنے آیا ہے‘ امریکہ کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور وائٹ ہائوس کے ترجمان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ جو بھی گفتگو ہوئی وہ امریکہ نے اپنے بہترین مفاد میں کی۔ عین اسی طرح سے ایمبیسیڈر اسد مجید خان نے پاکستان کے بہترین مفاد میں اُس کو سفارتی سائفر کے ذریعے اپنے ملک کے متعلقہ اداروں تک پہنچایا۔ امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے اسد مجید خان کو بتایا کہ امریکہ اور یورپ وزیراعظم پاکستان کے دورۂ روس پر سخت ناخوش ہیں۔ جس پر اسد مجید خان نے دہرایا یورپ میں سے کون ناراض ہے۔ ڈونلڈ لُو کا جواب تھا‘ میرے خیال میں یورپ ناراض ہے۔ناراضی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ امریکہ کے خیال میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان ہماری بات نہیں سُن رہے ۔ اُنہوں نے یوکرین جنگ میں خود سے ہی نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر لیاہے جو امریکہ کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ایمبیسیڈراسد مجید خان نے جواب میں کہا یہ دورۂ روس جنگ سے پہلے کا طے شدہ تھا۔ اُس وقت جب یوکرین اور روس میں جنگ روکنے کے لیے امن کوششیں جاری تھیں۔ ایمبیسیڈر اسد مجید خان نے امریکی اہلکاروں کو یہ بھی باور کرایا کہ فرانس اور یورپ کے کئی ملکوں کے سربراہ خان صاحب سے پہلے اور بعد میں روس کا دورہ کر چکے ہیں۔ اسد مجید خان کو شاباش دینی چاہیے جنہوں نے پاکستان کا مقدمہ ثابت قدمی اور پُر عزم طریقے سے لڑا۔
پہلے حصے کو آپ مبینہ دھمکی والا حصہ کہہ سکتے ہیں جس میں مشرف دور والی دھمکی دہرائی گئی۔ پہلی بار امریکی اہلکار نے براہِ راست پرویز مشرف کو خود فون کیا تھاجبکہ اس بار امریکی اہلکار ہمارے ایمبیسیڈر اسد مجید خان کے ساتھ مخاطب ہوئے۔
دوسرا حصہ : یہ حصہ حکومت کی تبدیلی پر مشتمل ہے۔جس میں مبینہ طور پر ہمارے ایمبیسیڈر اسد مجید خان سے کہا گیا کہ پاکستان کو بڑے سخت حالات درپیش آسکتے ہیں‘ اس لیے خان صاحب کو ہٹایا جائے۔ امریکہ بہادر نے 1970ء کے عشرے میں بھی ایک اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نام بھی ایسا ہی دھمکی نامہ بھیجا تھا۔ شہید بھٹو وہ دھمکی نامہ لے کر عوام میں چلے گئے۔جس کے لیے اُنہوں نے راولپنڈی کینٹ میں ہاتھی چوک کا انتخاب کیا۔ جہاں ایک جیپ کی چھت پر کھڑے ہوکر ذوالفقار علی بھٹو نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سفید ہاتھی مجھے مارنا چاہتا ہے اور میری منتخب حکومت کو ہٹانے کے لیے بیرونی مداخلت کار متحرک ہو گئے ہیں۔ایک طبقے کا ماننا ہے کہ عمران خان نے یہ صورتحال پیش آنے پر اقتدار قربان کردیا مگر Absolutely Notسے پیچھے نہیں ہٹے۔
تیسرا حصہ: اِس میں کہا گیا تھا کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے اور حکومت کی تبدیلی کا آپریشن مکمل ہوتا ہے تو ایسے میں پچھلے سارے قصور معاف کر دیے جائیں گے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
پچھلے تین دن سے مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر امریکی ویب سائٹ سے جاری شدہ سائفر کے متن پر بہت واویلا ہے۔ عمران خان نے پہلے دن سے ہی سائفر کے حوالے سے تمام سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے حمودالرحمن کمیشن کی طرز پر سپریم کورٹ کے حاضر ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنانے کامطالبہ کر رکھاہے۔مئی 2022ء میں صدرِ مملکت عارف علوی نے بھی سائفر کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے چیف جسٹس کے نام خط لکھ تھا جس میں کہا گیا تھاکہ سائفر کی تحقیقات اور سماعت کیلئے جوڈیشل کمیشن کی سربراہی ترجیحاً چیف جسٹس خود کریں۔
اس جوڈیشل کمیشن کے Terms of Referenceتین ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا امریکہ سے رجیم چینج اور عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کے لیے کوئی سائفر آیاتھا۔ دوسری Term of referenceیہ کہ وہ شواہد کو ن سے ہیں جن سے ثابت ہوسکے کہ خان صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرانے کے لیے پیسہ اور طاقت استعمال کی گئی۔تیسرا یہ کہ امریکہ کے اندر امریکی ویب سائٹ کو مبینہ سائفرکی کاپی کس نے پہنچائی۔
اِس حوالے سے تین حقائق سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ یعنی یہ جواب ‘ سوال اُٹھنے سے پہلے ہی موجود ہیں۔خان صاحب جیل میں ہیں۔سائفر سے متعلق خبر تب آئی جب وہ جیل میں بند ہیں۔ دوسرا یہ کہ ایک طرف شہباز شریف نے اسمبلی اور کابینہ توڑنے کی سمری صدر بھجوائی اور دوسری طرف سائفر سے متعلق خبر آ گئی۔ تیسرا یہ کہ نجم سیٹھی نے ٹویٹ کے ذریعے بہت پہلے یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ سائفر کی کاپی اُن کے پاس بھی موجود ہے۔آنے والی نگران حکومت ان کے ٹویٹر اکائونٹ پر27مارچ 2022ء کی ٹویٹ کو سائفر تحقیقا ت کا نقطۂ آغاز بناسکتی ہے۔ قدرت نے164کے پروہت اور پجاری سب سے قدرتی انصاف کر دیا ہے۔ جیسے سرسوں ہتھیلی پر۔(ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved