عرصہ ہوا لندن آکر حیران ہونا چھوڑ دیا۔ اب تو یہاں کی باتیں لکھنا بھی کسی اور دنیا کی کہانی لگتا ہے۔ زیادہ بات کرو تو دوست کہتے ہیں مرعوب ہو گئے ہو۔ ہم بھول گئے کہ کوئی اچھی چیز کہیں سے بھی ملے اسے اپنالو کہ حکمت مومن کی میراث ہے۔ بعض دفعہ ایسے پاکستانیوں سے ملاقات ہو جاتی ہے جن کا لندن کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ انہوں نے اس معاشرے میں رہتے ہوئے ترقی کی لیکن اب بھی وہ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ پاکستان کے خلاف سازش کر رہا ہے کہ اسے کمزور کیا جائے۔ حیرت سے ان کی منطق سنتا ہوں۔ پھر سوچتا ہوں کہ ان کا بھی اتنا قصور نہیں۔ یہ لوگ مزدوری کی تلاش میں یہاں آئے‘ کچھ عرب ممالک کی طرف چلے گئے۔ مغربی ممالک نے پاکستانیوں کو ترقی کرنے کے مواقع دیئے‘ اس کے باوجود انہیں شکایت ہے۔ مشرق وسطیٰ اور یورپ میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو فرق نظر آ جائے گا۔ عرب ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی شخصیت میں خوف کی جھلک محسوس ہوگی لیکن برطانیہ میں رہنے والے بااعتماد نظر آئیں گے۔ وہ آپ سے بحث کرے گا‘ مسکراتا ہوا ملے گا‘ سازشی تھیوریز سنائے گا‘ امریکہ اور یورپ کو پاکستان کے مسائل کی جڑ سمجھے گا۔ اس نے خود یہاں ترقی کی اور اب اس کے بچے بھی اس دوڑ میں شریک ہیں‘ پھر بھی اسے اس ملک اور معاشرے سے شکایتیں ہیں۔ ان پاکستانیوں کو احساس نہیں ہے کہ یورپ کا معاشرہ ان سے تنگ آتا جا رہا ہے۔ سروے یہی رجحان ظاہر کرتے ہیں‘ دیکھیں اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ دوسری طرف اب ایسی مائیں بھی نہیں رہیں جو اپنے بچے کی جیب میں بائیس سو پائونڈ دیکھ کر اُسے لندن پولیس کے پاس خود لے جائیں اور پتا چلے کہ اس کے بیٹے نے ایک گیم دیکھ کر ڈکیتی کا پروگرام بنایا اور ایک نقلی گن دکھا کر پیسے چھین لایا۔ وہ بیٹے کو پولیس کے حوالے کر آتی ہے کیونکہ اسے محسوس ہوتا ہے اس کے بیٹے سے معاشرے کو خطرہ ہے‘ ریاست بہتر طور پر اس کے بیٹے کا خیال کر سکتی ہے اور اسے سدھارنے میں مدد کر سکتی ہے۔ ایک اور ماں کی کہانی سنیں۔ اسے شک پڑا کہ ایک بچی کو جسمانی طور پر ہراساں کرنے میں اس کے بیٹے کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے چودہ سالہ بیٹے کو لندن پولیس کے پاس لے گئی۔ مقدمہ عدالت میں گیا۔ جج اسے جیل نہیں بھیجتا لیکن اس کے لیےrestraining orders کرتا ہے۔ ہم یہ سب کچھ کرنے کی جرأت کر سکیں گے؟ کبھی وقت ملا تو صفدر عباس بھائی کے گھر میں مقیم افریقہ کے دو چھوٹے بچوں محمد اور ابراہیم کی کہانی سنائوں گا کہ جن کے ماں باپ لڑنے کے بعد انہیں ایک رات لندن کی سڑک پر چھوڑ گئے تھے، برطانوی ریاست ان کے مستقبل کو بچانے کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے۔ دوسری طرف ہم ہر وقت پاکستان کے مسائل میں امریکہ، برطانیہ اور ہندوئوں اور یہودیوں کی سازش تلاش کرتے رہتے ہیں۔ الفریڈ میں دوستوں سے ملنے گیا تو ہر دوسرا پاکستانی مجھ سے دو بلند ٹاورز کی طرف اشارا کر کے کہتا‘ آپ جانتے ہیں کہ یہ کس کی ملکیت ہیں؟ میں حیرت سے پوچھتا کہ حضرت مجھے کیا معلوم‘ آپ لوگ یہاں رہتے ہیں‘ آپ کو علم ہوگا۔ وہ جواب دیتے‘ آپ صحافی ہیں آپ کو بہتر علم ہوگا۔ میں مسکرا دیتا۔ دوست سمجھتے ہیں کہ آسمان کے نیچے جو کچھ بھی ہوگا اسے اللہ میاں کے بعد صحافی کو ضرور علم ہوگا ۔ میرے دوست ہارون الرشید اکثر شریف خاندان کی لندن میں بھاری سرمایہ کاری کی کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ ان کے ذرائع بڑے پکے ہیں۔ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان نیب کی فائلوں میں سے غائب ہوگیا ہے کہ کیسے منی لانڈرنگ کی گئی تھی ۔ شاید اسی لیے نیب کا نیا چیئرمین نہیں مل رہا کہ کہیں پچھلے مقدمات کھول کر نہ بیٹھ جائے۔ پاکستان میں جو پانچ ہزار روپے ٹیکس نہیں دیتے تھے ان کی لندن میں اربوں کی جائیدادیں بن گئی ہیں۔ جمعہ کے روز ڈیلی میل میں ایک اور کہانی شائع ہوئی ہے۔ اس کے ایک رپورٹر نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری نے جو سرے محل خریدا تھا اب وہ کس حال میں ہے۔ یہ محل 1995ء میں خریدا گیا اور 2004ء میں 40 لاکھ پائونڈ میں بیچا گیا۔ اب 2013 میں اس محل کی قیمت نوے لاکھ پائونڈ ہو چکی ہے۔ یقینا زرداری صاحب پچھتا رہے ہوں گے کہ اتنی جلدی کیوں بیچ بیٹھے۔ اخبار لکھتا ہے کہ دس سال تک آصف زرداری اس محل میں دنیا بھر کے حکمرانوں، دوستوں اور طاقت ور لوگوں کو قسم قسم کی پارٹیاں دیتے رہے۔ اس محل کی جو تصویریں چھپی ہیں وہ دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہاں کس طرح کا لائف اسٹائل تھا۔ ڈیلی میل کا رپورٹر کہتا ہے کہ اس محل میں اب نئے مالک نے نیا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ وہ اب اس محل میں پریمی جوڑوں کو تنہائی کے لمحات فراہم کرتا ہے۔ ایک رات کا کرایہ 450 پائونڈ ہے۔ محل میں اب رقص اور فطری لباس میں پارٹیاں ہوتی ہیں ۔ ٹینس تک اسی حالت میں کھیلنے کے انتظامات ہیں۔ اس اخبار کی ویب سائٹ پر عام برطانوی شہریوں کے جو تبصرے چھپے ہیں وہ پڑھنے کے قابل ہیں۔ وہ حیران ہو کر لکھتے ہیں کہ وہ تو سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے لیکن اس ملک کے ایک لیڈر کے پاس چالیس لاکھ پائونڈ کا محل تھا۔ ایک برطانوی نے سوال اٹھایا کہ برطانیہ ہر سال سات سو ملین پائونڈز کی امداد کیوں ایک ایسے ملک کے شہریوں کو تعلیم اور صحت کے لیے دے رہا ہے جس کے صدر اور سابق وزریراعظم کے پاس چالیس لاکھ پائونڈ کا گھر تھا۔ ایک اور انگریز لکھتاہے کہ اب سمجھ میں آیا کہ پاکستان کے لیے دی گئی برطانوی امداد کہاں خرچ ہوئی۔ مان لیتے ہیں کہ الفریڈ ٹاور سے لے کر سرے محل حلال کمائی سے خریدے گئے تھے۔ کیا پاکستان کے حکمرانوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اس سطح کی عیاشی کریں؟ پھر یہ بھی دیکھیں کہ زرداری صاحب اور نواز شریف صاحب نے کتنا ٹیکس دیا ہے؟ سرے محل کی کہانی سے یاد آیا کہ شاید اگست 2007ء میں لندن کے سنڈے ٹائمز میں بینظیر بھٹو کا ایک انٹرویو چھپا تھا جو انہوں نے دوبئی میں خریدے گئے اپنے محل میں بیٹھ کر دیا تھا۔ سوالات کے دوران خاتون رپورٹر جو اس محل کی خوبصورتی سے متاثر ہوئیں یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکیں کہ یہ محل آپ نے کتنے میں خریدا ہے؟ بینظیر بھٹو نے فخر سے سر اوپر اٹھایا اور کہا یہ دو کروڑ بیس لاکھ درہم میں خریدا ہے۔ اس وقت ایک درہم تقریبا29 روپے کا ہے۔ سوچتا ہوں‘ اچھا ہوا میرا دوست ڈاکٹر شیر افگن زندہ نہیں ہے۔ 2005ء میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اس سکینڈل پر بات ہوئی تو سادہ لوح نیازی نے وزیراعظم سے پوچھ لیا کہ یہ محل ان کا ہے یا نہیں؟ بینظیر بھٹو نے پورے یقین کے ساتھ بتایا تھا کہ بالکل نہیں۔ وہ آخری دن تک بینظیر بھٹو کی اس بات پر پکے رہے کہ وہ ان کا نہیں ہے۔ میرے نیازی دوست کو علم نہیں تھا کہ محترمہ نے یہ محل 2004ء میں چالیس لاکھ پائونڈ میں فروخت کردیا تھا۔ اگر آج کوئی سابق صدر سے پوچھ سکے تو شاید وہ بتاد یں کہ یہ محل کتنے میں بیچا تھا۔ دل دکھ سے بھر جاتا ہے کہ کہاں چالیس لاکھ پائونڈ کا سرے محل اور 22 ملین درہم کا دوبئی میں محل اور کہاں گڑھی خدابخش کی ایک کچی قبر جس کی مکین کو ان محلوں میں چند ماہ بھی رہنا نصیب نہ ہوا ۔ یہ سوچ کرہی ڈپریشن ہوجاتا ہے کہ سرے محل، دوبئی محل، الفریڈ ٹاور اور ماربل آرچ پر پارک لین کے کروڑوں پائونڈز لاگت کے قیمتی گھروں میں ہمارے ارب پتی حکمرانوں کو سونے کے لیے کتنی جگہ چاہیے اور زندگی گزارنے کے لیے کتنا پیسہ !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved