خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد کسی ملک کی قومی شناخت‘ آزادی اور قومی مفادات کا تحفظ اور فروغ ہے۔ یہ عالمی سطح پر ملک کا مثبت امیج پیش کرتی ہے‘ منفی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرتی ہے اور دوسرے ممالک کیساتھ مددگار تعلقات استوار کرتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اور علم کے تبادلے‘ مالیاتی تعاون‘ تجارت‘ سرمایہ کاری اور ملکی معیشت کو فروغ دینے اور انسانی فلاح و بہبود اور سماجی ترقی کو فروغ دینے کے لیے تکنیکی اور اقتصادی تعاون کے لیے بین الاقوامی تعاون بھی چاہتی ہے۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے آلات وقت کیساتھ بدلتے رہتے ہیں لیکن اہداف وہی رہتے ہیں۔ تاہم خارجہ پالیسی کے ایجنڈے میں نئے مسائل اور مطالبات شامل کیے جا سکتے ہیں۔
آزادی کے ابتدائی برسوں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی بیرونی علاقائی سلامتی کے مسائل پر حاوی ہے۔ بیرونی سلامتی کے دباؤ نے خارجہ پالیسی اور ملکی پالیسیوں کو تشکیل دینے والے تمام امور پر غلبہ حاصل کیا جبکہ معاشرتی ترقی اور انسانی بہبود کی ضروریات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ دفاعی اور سلامتی کے تحفظات کی وجہ سے پاکستان -55 1954ء میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے تناظر میں امریکہ کے زیر اہتمام علاقائی سلامتی کے معاہدوں میں شامل ہوا۔ ان میں دو طرفہ اور کثیر الجہتی سکیورٹی اور مالی تعاون کے انتظامات شامل تھے۔ اسی طرح کے سکیورٹی تحفظات نے دسمبر 1979ء میں افغانستان میں سوویت فوجی مداخلت کے حوالے سے پاکستان کی پالیسیوں کو تشکیل دیا۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی اسی طرح کی بحالی 11ستمبر 2001ء کو امریکہ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہوئی تھی۔ پاک امریکہ تعلقات کے یہ تین ادوار نے پاکستان کی فوری سکیورٹی ضروریات کو پورا کیا لیکن طویل عرصے میں پاکستان کو ان تعلقات کے نتیجے میں سکیورٹی کے سنگین مسائل اور خاص طور پر دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔
علاقائی سلامتی کے تحفظات 1962-63ء میں پاک چین تعلقات کو فعال کرنے کے ابتدائی عوامل تھے۔ اب تک یہ رشتہ کثیر جہتی بن چکا ہے جس میں سلامتی‘ دفاعی پیداوار اور شہری صنعت‘ معیشت اور تجارت شامل ہیں۔ 2013ء میں شروع ہونے والی چین پاکستان اقتصادی راہداری نے چین پاکستان تعلقات کو ایک منفرد اور باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات میں بدل دیا ہے اور اقتصادی رابطے کو عالمی سفارت کاری کے بنیادی اصول میں تبدیل کیا ہے۔ جب ہم 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں خارجہ پالیسی اور عالمی امور کی بات کرتے ہیں تو ماضی میں استعمال ہونے والے خارجہ پالیسی کے انسٹرومنٹ میں سے کچھ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ عالمی اور علاقائی سیاق و سباق میں تبدیلیوں کیساتھ ساتھ قومی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کیلئے نئے آپشنز کی دستیابی کی وجہ سے 1990ء کی دہائی کے آخر تک استعمال ہونیوالی حکمت عملیوں کو اَپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی مستقل صف بندی نہیں ہے‘ تعلقات مسائل پر مبنی ہیں اور باہمی فائدے کی بنیاد پر لچکدار ہیں۔ دو یا دو سے زیادہ ممالک کے درمیان تعامل میں ایک ہی وقت میں مثبت اور منفی رجحانات ہو سکتے ہیں۔علاقائی اور عالمی معاملات میں کسی ملک کا کردار ریاست کے اندرونی سیاسی اور معاشی حالات سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک کی سیاست انتہائی متصادم‘ تفرقہ انگیز اور غیرجمہوری ہو تو ملک کی عالمی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح وسیع اور بے لگام سیاسی ایجی ٹیشن‘ اختلافی اور علیحدگی پسند سرگرمیاں اور دہشتگردی ریاست کی بیرونی دباؤ اور مداخلت کو برداشت کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرتی ہے۔ خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کا ایک اور اہم عنصر داخلی معیشت ہے۔ اگر کسی ملک کی معیشت غیر مستحکم ہو‘ عدم ادائیگی کا توازن‘ شدید سماجی و اقتصادی عدم مساوات‘ کاروبار‘ صنعت و زراعت کی کمزور اقتصادی بنیاد‘ بیروزگاری اور غربت اور خوراک کی قلت ہو تو وہ خود مختار طریقے سے خارجہ پالیسی پر عمل کرنے سے معذور ہو گا۔ اگر معیشت کا بہت زیادہ انحصار بیرونی وسائل پر ہے تو ملک کی خارجہ اور ملکی پالیسی کے اختیارات محدود ہیں۔
کسی ملک کی عالمی سیاست میں بہتر امکانات ہوتے ہیں اگر اس کی سیاست مستحکم‘ قابلِ پیش گوئی ہو اور اس کی معیشت کو دوسرے ممالک تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے ایک پُرکشش تجویز کے طور پر دیکھتے ہوں۔ اگر کوئی ملک بڑی ریاستوں کے ساتھ مثبت اقتصادی اور سفارتی تعامل کو فروغ دینے کے قابل ہو تو اس کی بہت سی خامیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے دور میں بھارت کی مثال لیں۔ حکمراں بی جے پی کیساتھ منسلک سخت گیر مذہبی اور سیاسی گروپ انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی میں مصروف ہیں اور مذہبی اقلیتوں کے تئیں عدم برداشت کا رویہ اپناتے ہیں۔ تاہم‘ بھارت کی مودی حکومت عالمی سطح پر بھارت کی حیثیت کو بڑھانے میں کامیاب ہوئی ہے کیونکہ بھارت بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے مستحکم اور محفوظ سیاسی اور اقتصادی ماحول فراہم کرتا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کے مؤثر کردار کی راہ میں بڑی رکاوٹ اس کی پریشان حال ملکی سیاست اور زوال پذیر معیشت ہے۔ دیگر متعلقہ مسائل مذہبی انتہا پسندی‘ دہشت گردی اور پاکستانی سیاست کی مستقبل کی سمت غیر متوقع ہونا ہیں۔ یہ سب کچھ مل کر غیرملکی سرمایہ کاری اور بین الاقوامی تجارت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اسے قریبی پڑوس میں سنگین سیاسی‘ سفارتی اور سکیورٹی مسائل کا سامنا ہے۔ چین کی رعایت کیساتھ‘ اسکے خطے میں پڑوسی ریاستوں کیساتھ تعلقات مسائل کا شکار ہیں یا اس کا اقتصادی اور سفارتی تعامل محدود ہے۔ قریبی پڑوسیوں کیساتھ اس کی تجارت اس کی برآمدات کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔ پاکستان مختلف بین الاقوامی فورمز پر جا کر بھارت کیساتھ اپنے مسائل‘ کشمیر کا مسئلہ‘ افغانستان کیساتھ مشکل تعلقات اور دہشت گردی کے معاملات کو اٹھاتا ہے۔ یہ ان مسائل کو دو طرفہ سفارتی بات چیت میں بھی اٹھاتا ہے۔ دوسری قومیں زبانی طور پر پاکستان کیساتھ ہمدردی رکھتی ہیں لیکن ان میں سے اکثر پاکستان کو مشورہ دیتی ہیں کہ وہ خارجہ پالیسی کے مسائل حل کرنے کیلئے سفارت کاری اور بات چیت کا استعمال کرے۔ صرف چار مسلم ریاستیں کشمیر پر پاکستان کے سرکاری نقطۂ نظر کی کھلی اور دو ٹوک حمایت کرتی ہیں۔ ان میں ایران‘ ترکی‘ سعودی عرب اور آذربائیجان شامل ہیں۔ بڑی طاقتوں میں صرف چین پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔ اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
پاکستان کا غیر ملکی قرضوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور کچھ انفرادی ممالک کی طرف سے معاشی امداد پر بہت زیادہ انحصار اس کی خارجہ پالیسی کے اختیارات اور ملکی پالیسی کے انتخاب کو محدود کرتا ہے۔ پاکستان کی معاشی بدحالی کو سمجھنے کیلئے اکنامک سروے: 2022-23ء میں دیے گئے معاشی ترقی کے اشاریوں کو دیکھیں۔ پاکستان نے انسانی وسائل کی ترقی‘ انسانی بہبود اور سماجی بہتری پر بھی محدود وسائل خرچ کیے ہیں۔ پاکستان کو اپنے بیرونی سکیورٹی تاثر پر نظرثانی کرنا‘ بھارت کیساتھ تعلقات کو معمول پر لانا اور موجودہ زمینی حقائق کی بنیاد پر افغانستان میں طالبان حکومت کے حوالے سے حقیقت پسندانہ رویہ اپنانا ہوگا۔ پاکستان اور ایران اب اپنی باہمی تجارت کو وسعت دینے پر کام کر رہے ہیں۔پاکستان کے مسائل کی کلید پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی حالات کو درست کرنا اور پاکستان کو تجارت‘ غیرملکی سرمایہ کاری اور سیاحت کیلئے ایک پُرکشش مقام بنانا ہے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ملکی سیاسی محاذ آرائی اور غیریقینی صورتحال کو سیاسی رہائش سے کم نہیں کیا جاتا اور انتہا پسندی اور دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved