تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     12-08-2023

خان صاحب کو کس نے جیل بھیجا؟

خان صاحب کو اس حال تک پہنچانے میں ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے جو آنکھیں بند کر کے خان صاحب کی تقلید کرتے تھے اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے انہیں مزید ہلہ شیری دیتے تھے کہ آپ نے بالکل صحیح کیا‘ آپ جو کرتے ہیں بالکل ٹھیک کرتے ہیں۔ یہ لوگ ان کے اردگرد تو پائے ہی جاتے تھے‘ عوام کا ایک نمایاں طبقہ بھی ان کی کرشماتی شخصیت کی وجہ سے ان کے پیچھے لگا ہوا تھا‘ اس نے بھی اس بات کو وتیرہ بنا لیا تھا کہ کس طرح خان صاحب کی غلطیوں پر پردہ ڈالنا ہے اور ان کی کمزوریوں کو طاقت بنا کر پیش کرنا ہے۔ لیڈر ہمیشہ اپنے فالوروز سے طاقت پکڑتا ہے۔ خان صاحب کے پاس بے پناہ فالورز تھے لیکن ان فالوروز کو مثبت راستے پر چلانے کے بجائے اپنی غلطیاں چھپانے اور مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا کا شتر بے مہار استعمال سب کے سامنے ہے‘ جو آج بھی جاری ہے۔ اس وقت بھی سوشل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈا کا ایک طوفان برپا ہے۔ علی محمد خان کی جیل کی پرانی تصاویر کو ایڈٹ کر کے یہ کہا جا رہا ہے کہ دیکھو کیسے خان صاحب جیل میں عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ان شیدائیوں کا مسئلہ یہی ہے کہ یہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقلدین کی طرح سوچ سمجھ سے کام نہیں لیتے۔
جب خان صاحب 2018ء میں حکومت میں آئے تھے اور آنے کے چند ماہ میں ہی ثابت کر دیا کہ ان کے پاس حکومت چلانے کے لیے نہ ٹیم ہے نہ کوئی ٹھوس پالیسی‘ بس شہرت ہی شہرت ہے‘ یا پھر ماضی کے دو چار کامیاب پروجیکٹس جن کو وہ کیش کراتے آ رہے ہیں‘ تو اس وقت بھی ان کی شخصیت کو ایک کرشماتی لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا حالانکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ موصوف بھی حادثاتی طور پر اور کندھا استعمال کرکے بامِ اقتدار تک پہنچے تھے نہ کہ عوامی حمایت کے بل بوتے پر اور اس کا ڈراپ سین تین سال کے اندر اندر ہی ہو گیا کہ جن جماعتوں کو حکومت اور انہیں وزیراعظم بنانے کے لیے ان کے ساتھ ملایا گیا تھا وہ پیچھے ہٹ گئیں اور اقتدار کا محل زمین پر آ گرا۔ تب سے انہوں نے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر رکھی ہے۔ دراصل جنہوں نے انہیں لانچ کیا تھا انہوں نے ایک سال کے اندر اندر یا شاید چند ماہ میں ہی بھانپ لیا تھا کہ یہ تو باقیوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے ہوئے ہیں‘ نہ ان کا کوئی منشور ہے نہ وژن۔ اگر ہے تو اس پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت موجود نہیں۔ پھر جس طرح سے ایک ناتجربہ کار شخص کو وزیراعلیٰ پنجاب کی کرسی پر بٹھا کر بارہ کروڑ آبادی والے صوبے کا جو حال کیا گیا وہ ایک الگ داستان ہے۔ ان اقدامات پر پارٹی کے جس جس ممبر یا لیڈر نے احتجاج کیا‘ اسے یوں نکال باہر کیا گیا جیسے دودھ سے مکھی کو نکال پھینکا جاتا ہے۔
پارٹی کے شیدائی اور سپورٹرز اس وقت بھی خاموش رہے جب خان صاحب نے بڑے بڑے یوٹرنز لینا شروع کر دیے۔ جب میڈیا نے زیادہ سوال اٹھایا تو کہا گیا کہ یوٹرن تو اچھے ہوتے ہیں۔ ان کا یہ اعلان مخالفین کے نہیں اپنے سپورٹرز کے منہ پر طمانچے کے مترادف تھا لیکن ان کے سپورٹرز ان کی کرشماتی شخصیت کے سحر میں اتنے کھو چکے تھے کہ انہیں حقیقت حال کی کوئی خبر تھی اور نہ ہی اس سے دلچسپی۔ انہیں بس خان صاحب کا چپل پہننا‘ کالا چشمہ لگانا‘ ورزش کے نت نئے انداز اور اپنی تقریروں میں مخالفین کے خلاف سخت اور طعن آمیز زبان استعمال کرنا اچھا لگتا تھا۔ کچھ عرصے بعد خان صاحب کی آڈیو لیکس سامنے آنا شروع ہو گئیں جن کو سننے کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا تھا کہ ان کی جو ظاہری شخصیت دکھائی جاتی ہے اصل میں معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل سے منسلک رہنے والے ایک ڈاکٹر نے ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ اس نے خان صاحب کی محبت میں بے شمار لوگوں کا دل دکھایا اور سوشل میڈیا کے ذریعے مخالفین کی پگڑیاں اچھالیں‘ جس پر اپنے انٹرویو میں اس نے معافی بھی مانگی۔ اس ڈاکٹر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس نے انٹرویو لینے والے صحافی کو بھی ایک موقع پر سوشل میڈیا پر خوب رگیدا تھا جس پر وہ اب شرمندہ ہے؛ تاہم اس جماعت کی اکثریت اب بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔ کسی کو عار محسوس نہیں ہوتی کہ ایک سیاسی رہنما کی محبت اور مخالفین سے عداوت میں گزشتہ چند برس میں معاشرے کو اخلافی طور پر کس قدر بدبودار اور تعفن زدہ بنا دیا گیا ہے۔ نفرت کے بیج اس قدر تیزی کے ساتھ بوئے گئے کہ ہر گھر میں شدت پسندی اور عداوت کی دیواریں کھڑی ہو گئیں۔ بھائی بھائی سے لڑنے لگا‘ بچے والدین کے گلے پڑنے لگے۔ لوگ ایک دوسرے سے پہلے ہی دور تھے‘ اس سیاسی شر انگیزی نے معاشرے کو مزید تقسیم کر دیا۔ یہ تقسیم یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کے اثرات اتنے وسیع ہو گئے کہ پارٹی کا شیرازہ بھی بکھرنے لگا۔ نو مئی کو جو کچھ ہوا اس پر شروع میں تو پارٹی چیئرمین نے خاموشی اختیار کیے رکھی لیکن بعد میں معاملات جب ہاتھ سے نکلتے دیکھے تو گول مول سی مذمت کر دی اور اپنے ہی سپورٹرز کو پہچاننے سے انکار کر دیا جنہیں ہرزہ سرائی کرنے اور مخالفین کے خلاف ٹرینڈز چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اداروں کے حوالے سے مسلسل الزامی بیان بازی کرکے نوجوانوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بوئے گئے اور بعد میں اس سب سے یکسر انکار کر دیا گیا۔
آج خان صاحب جیل کی سلاخوں کے پیچھے سوچ رہے ہوں گے کہ آخر وہ یہاں تک کیسے اور کیونکر پہنچے۔ دراصل وہ ہمیشہ سے ڈبل مائنڈڈ رہے ہیں۔ کبھی کہتے کہ عوام میرے ساتھ ہیں‘ کبھی اداروں اور ان کے سربراہان سے ملاقات کے لیے وقت مانگنے لگتے۔ کبھی سائفر لہرا کر عوام کو امریکہ کے خلاف بھڑکاتے تو دوسری طرف دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے امریکی مدد کے حصول کے لیے کوششیں کرتے نظر آتے۔ وہ ایک ہی وقت میں کئی کشتیوں میں سوار تھے۔ ان کے اہلِ خانہ نے جس طرح حکومتی سرگرمیوں میں مداخلت کی‘ وہ ایک الگ داستان ہے۔ آج وہ سب یقینا انہیں یاد آ رہا ہوگا کہ کیسے ایک غیر معروف شخص کو محض اس لیے وزیراعلیٰ لگایا گیا کہ وہ ان کے اور اہلِ خانہ کے احکامات کے سامنے چون و چرا نہ کر سکے اور جو کہا جائے‘ اس کی من و عن تعمیل کرتا جائے۔ لوگ اب سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہ وہ کام تھے جن کے لیے خان صاحب بیس‘ پچیس سال تک جدوجہد کرتے رہے؟ وہ تو کہتے تھے مجھے پیسوں کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں‘ میرے اندر طمع اور لالچ نہیں ہے، تو پھر اپنے اہلِ خانہ کو بھی یہ بات سمجھا دیتے اور آج اس حال کو پہنچنے سے بچ جاتے۔ وہ ہمیشہ برطانیہ کی جمہوریت کی مثالیں دیتے رہے لیکن کبھی خود بھی ان اصولوں پر عمل پیرا نہ ہوئے۔ برطانیہ میں ایسا کب ہوتا ہے کہ کوئی سیاسی لیڈر غلطی کرے اور عوام آنکھیں بند کرکے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔ خان صاحب کو اندر کرانے میں ان کے مقلدین اور سپورٹرز کا سب سے زیادہ کردار ہے۔ اگر وہ ان کی غلطیوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے تو آج ان کا لیڈر یوں تنہا اور بے بسی کا شکار نہ ہوتا اور نہ ہی قریبی ساتھی پارٹی چھوڑ کر جاتے۔ ایک لیڈر ہمیشہ اپنے سپورٹرز اور ناقدین سے طاقت پکڑتا ہے اور اس سارے المیے کا نتیجہ یہی ہے کہ آپ چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں‘ جب آپ کا لیڈر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی کھل کر تعریف کریں‘ اس کا ساتھ دیں لیکن اگر وہ کوئی غلط قدم اٹھائے تو اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں نہ کہ اس کے غلط اقدام کی تاویلیں کریں، اس کے لیے دلیلیں گھڑیں اور اس کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں۔ ایک اچھا سیاسی ورکر اور باشعور شہری وہی ہوتا ہے جو کھل کر اور درست وقت پر صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved