نجانے غریب آبادیوں میں لگائے گئے ٹرانسفارمرز اتنے کچے، نازک اور کمزور کیوں ہوتے ہیں کہ ذرا سا بوجھ پڑتے ہی ناریل کی گِری کی طرح چٹخنا شروع ہو جاتے ہیں۔ گرمیاں شروع ہوتے ہی چہار جانب سے ٹرانسفارمرز پھٹنے اور تاروں کے جڑنے سے ہونے والے دھماکوں کی آوازیں اور ان واقعات کی کہانیاں سننے کی ملتی ہیں۔ اپنے محلے یا بلاک میں لگے ٹرانسفارمر سے جب دھماکوں کی آوازیں بلند ہوتی ہیں تو لوگ یہ سنتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ اب پورا دن بجلی نہیں ملے گی۔ محلے کے چند لیڈر قسم کے لوگ بجلی کے ترسیلی محکموں کے دفاتر پہنچ کر اپنی فریاد درج کراتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ابھی کسی اہلکار کو اپنے ساتھ لے کر جائیں اور علاقے کے ٹرانسفارمر کو فوری ٹھیک کرا لیں لیکن کوئی اہلکار ان کے قریب نہیں پھٹکتا۔ ایسے میں کوئی ان کے کان میں سرگوشی کرتا ہے کہ اتنے پیسے لگیں گے‘ نیا ٹرانسفارمر لگ جائے گا، نہیں تو کم ازکم ایک ہفتہ انتظار کرنا ہو گا۔ ہم لکھ کر دیں گے کہ فلاں علاقے کا ٹرانسفارمر خراب ہے، یا تو یہ ٹرانسفارمر مرمت کر کے دیں یا پھر نیا مہیا کیا جائے لیکن یہ سرکاری کام ہے، آپ کو تو پتا ہے کہ سرکاری سلسلہ کچھ طویل ہو جاتا ہے۔ اگر کسی علاقے کا ٹرانسفامر خوش قسمتی سے ٹھیک نکل آئے تو وہاں بجلی کی تاریں ''بے قدروں کی یاری‘‘ کی طرح تڑک تڑک کر کے ٹوٹتی رہتی ہیں اور ان ٹوٹی تاروں کو جوڑنا دو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے سے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ شنید ہے کہ بجلی کمپنیوں میں کام کرنے والے اہلکاروں میں نچلے سے اوپر تک‘ ہر دوسرے شخص کی دائیں ہتھیلی میں ہر وقت خارش ہوتی رہتی ہے اور جیسے ہی کسی جگہ سے ٹرانسفارمر پھٹنے، تاروں کے ٹوٹنے یا کسی ''ڈی‘‘ کے گرنے کی اطلاع ملتی ہے تو وہ اپنی قسمت پر رشک کرنے لگتے ہیں۔
اس وقت پورے ملک میں اعلانیہ طور پر بجلی کی سات سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے جبکہ بہت سی دیگر غیر اعلانیہ وجوہات کے وجہ سے یہ دورانیہ کئی بار اٹھارہ سے چوبیس گھنٹے پر بھی محیط ہو جاتا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہیں جگہ جگہ لگائے گئے یہ کمزور اور لچکیلے ٹرانسفامر جو علاقائی ضروریات پوری کرنے سے یکسر قاصر ہیں۔ کم از کم ہمیں ایسا کوئی شخص نہیں ملا جو اپنے علاقے کے ٹرانسفارمر کے مسئلے کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔ اگر کسی دن ملک بھر میں بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو چوبیس گھنٹوں میں ٹرانسفارمرز کے دھماکوں کی کم از کم پانچ سو شکایات ملیں گی، ان سے متعلق کاغذات میں یہی لکھا جاتا ہے کہ زیادہ لوڈ پڑنے کی وجہ سے ''آپے سے باہر ہو گئے‘‘۔ اس قسم کے حادثات اور پہلے سے طے شدہ لوڈشیڈنگ شہریوں کو بالعموم اور غریب آبادیوں کے مکینوں کو بالخصوص ساری ساری رات رلاتی رہتی ہے۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ آج تک بجلی کی تقسیم کار ان کمپنیوں کو ''ڈی‘‘ کا ہی کوئی متبادل نہیں مل سکا اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم ملک میں انقلاب برپا کر دیں گے‘ ایشین ٹائیگر بنا دیں گے۔
اس مون سون میں جب آبائی گھر کے آنگن کی برسات کی یاد ستانے لگی تو بیگ اٹھائے اور چند روز کیلئے لاہور سے روانہ ہو گئے۔ شام گہری ہوتے ہی مدتوں بعد اُس کمرے میں سستانے کیلئے لیٹا ہی تھا کہ جہاں بچپن اور لڑکپن گزرا تھا‘ کہ یکلخت ایک دھماکا سا ہوا اور پنکھے کی بے ہنگم آواز پہلے کچھ سست ہوئی اور پھر ہر طرف خاموشی اور اندھیرے کی سیاہی پھیل گئی۔ چند ہی منٹوں کے بعد گرمی کی حدت اور حبس نے جسم کو جلانا شروع کر دیا۔ اس کمرے میں اب دس‘ پندرہ منٹ گزارنا بھی مشکل ہو گیا تھا، گھبرا کر چھت پر چارپائی لے گیا، ہوا اگرچہ بند تھی اور شدید حبس تھا لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اردگرد سے بچوں کی ہلکی چیخوں اور رونے کی آوزیں ابھرنا شروع ہو گئیں اور پھر آہستہ آہستہ بوڑھے اور بیمار افراد کے کھانسنے اور زور زور سے بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔ بچوں کے رونے کی آوازیں بتدریج تیز اور بلندتر ہو رہی تھیں، جبکہ ان کی پریشان حال مائوں اور بڑی عمر کے افراد کے کوسنے اور گالیوں کا طوفان بھی امڈنے لگا تھا۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد مجھے ایسے لگنے لگا کہ جیسے ارد گرد ہر کوئی روتے اور چیختے ہوئے ماتم کر رہا ہے۔ ایک طرف گرمی اور حبس‘ دوسری طرف بچوں کے رونے چیخنے کی آوازیں۔ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ میں کیوں ادھر چلا آیا۔ اچانک ایک تیز اور زہریلی سوئی میرے جسم میں چھبی جس کی تکلیف اور خارش سے میں تلملا اٹھا۔ پھر احساس ہوا کہ یہ تیز اور زہریلی سوئیاں جب ننھے منے بچوں کے جسموں میں گھستی ہو گی تو ان کے پھول سے ملائم جسموں کی کیا حالت ہوتی ہو گی۔ اب یہ راز کھلا کہ ان معصوم بچوں کی چیخیں اتنی کربناک کیوں ہیں۔ مچھروں کی بہتات لوڈشیڈنگ کے عذاب کو مزید اذیت ناک بنا دیتی ہے۔ یقینا بچوں کی چیخیں آسمان بھی سن رہا تھا لیکن وہ بالکل خاموش تھا۔
یہ بے بس لوگ‘ جنہیں عوام کہا جاتا ہے‘ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لیے جلسوں اور ریلیوں میں محض ایک ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ انہیں کھانے اور چند پیسوں کے لالچ میں بسوں اور ویگنوں میں بھر کر لایا جاتا ہے۔ یہ نعرے مار کر سیاسی ریلیوں اور جلسوں کی رونقیں بڑھاتے ہیں اور ان کی وجہ سے بے شمار لوگ اپنی دکان بڑھا جاتے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ یہ کروڑوں عوام‘ جنہیں ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی بڑی مشکل سے مل رہی ہے‘ جو سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے رہتے ہیں‘ یہ جو دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد کھلی جگہوں، چھتوں اور اپنے صحنوں میں لیٹے ہوتے ہیں‘ انہیں چند گھڑیاں بھی آرام کی کیوں نہیں ملتیں؟ گرمی اور مچھروں کی یلغار سے ان کے بدن کیوں سوجے رہتے ہیں۔ ان کے گھروں سے بچوں اور بوڑھوں کی چیخیں کیوں گونج رہی ہیں؟ یہ چیخیں پاکستان کے کسی ایک قصبے یا ایک گائوں نہیں بلکہ پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان کے ہر گائوں، گوٹھ، چک اور تحصیل کی ہر گلی سے بلند ہو رہی ہیں، افسوس یہ ہے کہ انہیں سننے والا کوئی نہیں ہے۔ گھنٹوں طویل لوڈ شیڈنگ سے قصبوں، تحصیلوں اور شہروں میں کام کرنے والی کاٹیج انڈسٹری کی لاکھوں مشینوں کے بند ہونے سے فاقہ کشیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ پاور لومز، چھوٹی فیکٹریاں بند ہونے سے لاکھوں عوام کی بیروزگاری کا ذمہ دار کون ہے؟ ساری ساری رات بجلی بند ہونے سے بچوں کے بلبلانے کا ذمہ دار کون ہے؟
اس وقت لاہور جیسے شہر میں کانگو وائرس کی بیماری‘ جس میں سارے جسم پر پیپ زدہ دانے نکل آتے ہیں‘ تیزی سے پھیل رہی ہے لیکن محکمہ صحت اس طرف دھیان ہی نہیں دے رہا۔ یہ وائرس ان غریب آبادیوں میں زیادہ پھیل رہا ہے جہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ طویل تر ہے۔ لوگوں کے گھروں میں کام کرکے گزارہ کرنے والی ایک بیوہ عورت کانگو وائرس کا شکار ہوئی۔ ایک طرف جہاں دس ماہ سے چار سال کے تین یتیم بچوں کی فکر تھی‘ وہیں دن میں دس بار بجلی بند ہونے پر اس کے جسم پر پیپ زدہ دانے پسینے کے باعث کتنی اذیت کا باعث بنتے ہیں‘ یہ تصور کر نا بھی محال ہے۔ اس عورت سمیت نجانے کتنے ہزاروں‘ لاکھوں بیمار ہیں جو کہیں سات تو کہیں دس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کا ظلم سہہ رہے ہیں۔ کچی آبادیوں میں آٹھ‘ دس گھنٹے بجلی کی بندش روز کا معمول ہے۔ اس لوڈشیڈنگ کا وہ لوگ اندازہ بھی کیسے کر سکتے ہیں جن کے ایئر کنڈیشنر ایک لمحے کو بھی بند نہیں ہوتے۔ ہر بڑی سڑک سے گزرنے والوں نے‘ بالخصوص پنجاب میں‘ سڑک کے دونوں جانب خراد سمیت چھوٹی مشینیں کام کرتی دیکھی ہوں گی۔ اب سوچئے کہ یہ لاکھوں کاریگر سات سے دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ میں اپنی روزی روٹی کس طرح کماتے ہوں گے۔ گزشتہ روز فیصل آباد میں ایک شخص نے اپنی دو بیٹیوں کا گلا کاٹنے کے بعد خودکشی کر لی۔ اپنے نوٹ میں اس نے لکھا کہ بیروزگاری کی وجہ سے مکان کا کرایہ ادا نہیں کر سکا تھا، مالک مکان نے بہت تنگ کر رکھا تھا۔ یہی فیصل آباد تھا جہاں دو‘ تین سال پاور لومز چوبیس گھنٹے چلنے کے باوجود آرڈرز پورے نہیں کر پا رہی تھیں اور جہاں ورکرز کی قلت ہو چکی تھی مگر اب سب فیکٹریاں ویران پڑی ہیں اور لاکھوں بیروزگارافراد کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved