دنیا بھر میں معاشی ڈھانچا بدل چکا ہے۔ ایک بس ہم ہیں کہ اِس معاملے کو اب تک قبول کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ چار عشروں کے دوران دنیا مکمل بدل گئی ہے۔ چالیس‘ پچاس سال پہلے کی دنیا اول تو دکھائی نہیں دیتی اور اگر کہیں دکھائی بھی دیتی ہے تو بہت پِچھڑی ہوئی یعنی پسماندہ۔ گزرے ہوئے ادوار کی دنیا میں جینا اُنہیں مبارک جنہیں جدت سے غرض ہے نہ مشقّت سے۔ آج کی دنیا صرف اور صرف مسابقت سے عبارت ہے اور ساری مسابقت صرف جدت کے حوالے سے ہے۔ جس میں دم ہے وہ آگے بڑھتا ہے۔ غیر قانونی اور غیر اخلاقی سہاروں کے ذریعے آگے بڑھنے والوں کے لیے توقیر کا سامان نہیں۔ جو دن رات ایک کرکے کچھ سیکھتے ہیں اور پھر اُسے بروئے کار لاتے ہیں بس اُنہی کو کچھ مل پاتا ہے۔ اپنے بل پر یقینی بنائی جانے والی کامیابی بالکل الگ اور نمایاں ہوتی ہے۔ ایسی ہی کامیابی پر انسان فخر کرسکتا ہے۔ بات ہو رہی ہے معاشی ڈھانچے کی تبدیلیوں کی۔ دنیا بھر میں معاش کے ذرائع کے حوالے سے بہت کچھ نیا پایا جارہا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا نے اس حوالے سے کئی رجحانات متعارف کرائے ہیں۔ ایک طرف تو روایتی طرز کی نوکری سے جان چھڑانے پر توجہ دی گئی ہے اور دوسری طرف اِس امر کا اہتمام کیا جارہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لیاقت بھی بڑھے اور آمدن بھی۔ مہنگائی صرف ہمارا نہیں، پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی عام آدمی پر مہنگائی کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کا عام شخص ہمارے حساب سے قابلِ رشک زندگی بسر کر رہا ہے کیونکہ اُسے تمام بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہیں مگر پھر بھی یہ بات تو کھٹکتی ہی رہتی ہے بہت سوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ کرنے کا موقع نہیں مل رہا۔ مہنگائی سب کے لیے ہوتی ہے۔ ہمیں صرف طبقے کی نفسیات اور مجبوریوں کو سمجھنا ہوتا ہے۔ اگر اِتنا ہو پائے تو ہم سمجھ پائیں کہ زندگی کس کے لیے کتنی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ معاشی ڈھانچوں میں نمایاں تبدیلیاں متعارف کرانے کا سلسلہ تین چار عشروں کے دوران خاصا زور پکڑ گیا ہے۔ ڈھنگ سے جینا کس کا خواب نہیں ہوتا؟ ہر انسان چاہتا ہے کہ تمام بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہوں اور زندگی میں سُکون ہو۔ پُرسکون زندگی یقینی بنانے کی دُھن میں انسان پتا نہیں کیا کیا کرتا ہے، کن کن مراحل سے گزرتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ گزرنا ہی پڑتا ہے۔ معاشی استحکام ہر سطح پر ناگزیر ضرورت ہے۔ فرد ہو یا گروہ یا پھر کسی بھی سطح کی حکومت، سبھی کو معاشی استحکام عزیز ہے۔ کوئی بھی جس مقام تک پہنچ چکا ہوتا ہے اُس سے پیچھے جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ذہن اِس بات کو قبول ہی نہیں کرتا۔
معاشی معاملات میں انسان کو بہت کچھ سوچنا اور سیکھنا پڑتا ہے۔ معاش کے حوالے سے عمومی تصور یہ ہے کہ انسان کو آگے ہی بڑھنا چاہیے۔ کبھی کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان پیچھے ہٹ جائے۔ تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر بھرپور تیاری کے ساتھ دوبارہ آگے بڑھنا حکمتِ عملی کا حصہ ہوسکتا ہے۔ ہم کسی کو تھوڑی سی پسپائی اختیار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو طنز کے تیر برسانا شروع کردیتے ہیں۔ کسی اچھے علاقے میں بہت بڑے ذاتی مکان میں رہنے والے اگر تنگ دستی کے ساتھ جی رہے ہوں تو اِس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ اُس مکان کو بیچ کر قدرے سستا مکان خریدا جائے اور جو رقم بچ رہے اُس سے زندگی کا معیار بلند کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ طریقہ بظاہر بزدلانہ ہے مگر ایسا ہے نہیں۔ سوال زبردستی کی ''شجاعت‘‘ دکھانے کا نہیں بلکہ حکمتِ عملی کا ہے۔ اگر کسی سطح پر ڈھنگ سے گزارہ نہ ہو رہا ہو تو انسان کو سوچ بچار کے ذریعے کچھ ایسا کرنا چاہیے جس سے معاملات سنور جائیں۔ معاشی معاملات میں اصل خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہٹ دھرمی کو حکمتِ عملی کے ساتھ کھڑا کردیا جاتا ہے۔ پاکستان کے نامور موسیقار نثار بزمی کی مثال دینے سے شاید بات کو بیان کرنا آسان ہو جائے۔ ہمارے ہاں یہ چلن رہا ہے کہ علم و فن کی دنیا کے لوگ بڑھاپے میں معاشی مشکلات کا رونا روتے ہوئے مدد مانگتے ہیں۔ کئی فنکاروں کا ہم نے بُرا حال دیکھا ہے۔ بیشتر کا معاملہ یہ رہا کہ جب اچھا وقت تھا تب بہت کمایا مگر بچایا نہیں۔ سب اُڑادیا۔ اچھے وقت کی کمائی کا معتدبہ حصہ بچانا ہوتا ہے تاکہ اُس وقت کام آئے جب ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑیں۔ نثار بزمی کا عروج کا زمانہ گزر گیا تو اُن کی آمدنی بھی گھٹ گئی۔ اُن کا مکان کراچی کے ایک بہتر علاقے میں تھا۔ جب آمدن گھٹ گئی تو انہوں نے مکان بیچا اور نسبتاً سستا مکان خریدا۔ جو رقم بچی وہ اُنہوں نے گھر کی ضرورتوں اور اولاد پر خرچ کی۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان تھوڑی سی پسپائی اختیار کرے۔ نثار بزمی نے کبھی امداد کی اپیل نہیں کی۔ اُن کے شاگرد اِتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ اگر وہ امداد چاہتے تو مل بھی جاتی مگر جب عزتِ نفس کا احساس شدید ہو تو انسان ہاتھ کیوں پھیلائے؟
ہمارے ہاں ابھی تک آجروں کی سوچ نہیں بدلی۔ معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں کو دیکھتے ہوئے آجروں کو اپنی طرزِ فکر و عمل بدلنی چاہیے تھی تاکہ بدلتے ہوئے وقت کا ساتھ دینا آسان ہوتا۔ افسوس کہ ڈھائی تین عشروں کے دوران دنیا بھر میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اُن سے ہم نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ابھی تک سیکھنے کا ذہن بنانے میں ہم کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ بدلتے ہوئے معاشی ڈھانچے ہم سے بہت کچھ مانگتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ بہت حد تک ہمارے مفاد میں ہے۔ روایتی ملازمتوں کا زمانہ لد چکا ہے۔ سیلف ایمپلائمنٹ کا دور ہے یعنی کوئی ہنر سیکھئے، کسی شعبے میں تربیت پاکر اپنا یعنی ذاتی کام شروع کیجیے۔ اِسے آپ فری لانسنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اپنا کام کرنے میں سب سے بڑی آسانی تو یہ ہے کہ عزتِ نفس مجروح نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں یعنی پسماندہ معاشروں میں آجروں کی عمومی ذہنیت یہ ہے کہ وہ اجیروں یعنی ملازمین کو غلام سمجھتے ہیں۔ اُنہیں کچھ بھی کہہ دیا جاتا ہے اور ملازمت سے فارغ کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ اچانک نکال دیے جانے کی صورت میں اُن کے گھر کا کیا بنے گا۔
سیلف ایمپلائمنٹ انسان کو بہت کچھ دیتی ہے۔ ایک طرف تو آمدن کا گراف بلند کرنے کا امکان ہے جو خاصا قوی ہے۔ انسان جتنی محنت کرے گا اُتنا پائے گا۔ ملازمت میں اِس کی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں ملازمت کا ایسا ڈھانچا اپنایا جاچکا ہے جس میں اجیر کے لیے کم سے کم تکلیف یا دردِ سر ہو۔ ہمارے ہاں مزدور ہوں یا آفس میں کام کرنے والے یعنی وائٹ کالر ملازمین، سبھی کو روزانہ کام پر جانے اور آنے میں غیر معمولی مشقّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اچھا خاصا خرچ بھی ہوتا ہے اور وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران گھر سے کام کرنے کے رجحان کو تھوڑی سی مقبولیت ملی تھی۔ آجروں نے یہ تجربہ زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اگر اِس رجحان کو پروان چڑھایا جائے تو ایک طرف اجیروں کے لیے بھی راحت کا سامان ہوگا اور دوسری طرف آجر بھی فائدے میں رہیں گے۔ اُنہیں دفتر یا فیکٹری پر زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑے گا، بہت سے خرچے بچیں گے اور سب سے بڑھ کر ملازمین کا جو وقت آنے جانے میں ضائع ہوتا ہے وہ بروئے کار لانا ممکن ہوسکے گا۔
نئی معیشت کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ وقت اور توانائی کو زیادہ سے زیادہ بچاکر کام کا معیار بلند کیا جائے۔ کارکردگی بہتر بنانے کی ایک ہی صورت ہے‘ کہ کام پر بھرپور توجہ مرکوز کی جائے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب آجروں کی سوچ بدلے۔ وہ روایتی انداز سے کام لینے کے بجائے اجیروں کے لیے زیادہ سُکون سے کام کرنے کی گنجائش پیدا کریں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں روزانہ کام پر جانے اور واپس آنے میں آمدن کا خاصا بڑا حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے، وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور سکت بھی متاثر ہوتی ہے۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ آجر ایسی حکمتِ عملی اپنائیں جس میں اجیروں کے لیے زیادہ اور ڈھنگ سے کام کرنا ممکن ہو۔ ترقی یافتہ اور ابھرتے ہوئے معاشروں کے مشاہدے سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved