وزیرا عظم شہباز شریف کی اسمبلی اور کابینہ تحلیل ہو چکی‘ نگران وزیراعظم کے نام پر بھی اتفاق ہو چکا۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے سر پر تاج سجا دیا گیا ہے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اس پر مہر ِتوثیق ثبت کر دی ہے اور یوں قائد حزبِ اختلاف راجہ ریاض کا لکھا یا کہا ہوا پتھر کی لکیر بن گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ میں نے یہ نام تجویز کیا اور شہباز شریف صاحب نے اس سے اتفاق کر لیا۔سینیٹر انوار الحق کاکڑ پانچ برس پہلے بلوچستان سے آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔بعدازاں بلوچستان عوامی پارٹی کی تخلیق میں حصہ ڈالا اور سینیٹ میں اس کی قیادت بھی سنبھال لی۔سینیٹر انوار الحق کاکڑ ایک صاف ستھرے سیاسی کارکن ہیں‘پاکستان‘اس کی سالمیت اور اس کے نظریے کے حوالے سے اُن کے تصورات واضح ہیں۔امید کی جانی چاہئے کہ وہ نگران وزیراعظم کے طور پر اپنا کردار بطریق ِاحسن ادا کریں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے جو نام میڈیا میں آتے رہے‘اُن میں کاکڑ صاحب شامل نہیں تھے۔اُن کے نام کی راز کی طرح حفاظت کی گئی‘مقتدر حلقوں نے بڑے بڑے باخبر میڈیا گروؤں کو زِچ کر دکھایا۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران دو وزرائے اعظم کو بھگتایا جا چکا۔ عمران خان نے تین برس سے زیادہ اپنا سکہّ چلایا‘ اُس کے بعد ہما شہباز شریف کے سر پر آن بیٹھا۔سابق وزیراعظم عمران خان جہاں بہت سی انفرادی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک ہیں‘ وہاں اُنہیں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا کہ اُن کے خلاف باقاعدہ تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی نے منظور کی۔وہ پاکستانی تاریخ کے پہلے ایسے وزیراعظم بن گئے جنہیں اُن کو چننے والی اسمبلی ہی نے ایوانِ اقتدار سے باہر دھکیل دیا۔عمران خان سابق وزیراعظم بن کر بقول خود ''خطرے ناک ‘‘ ثابت ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کر دکھایا‘جو اس سے پہلے کوئی نہیں کر سکا تھا۔اب وہ اٹک جیل میں پہنچا دیے گئے ہیں‘جہاں ایک زمانے میں وزیراعظم شہباز شریف بھی قید رہ چکے ہیں‘شکایت کی جا رہی ہے کہ جیل کا ماحول سازگار نہیں ہے‘ کیڑے‘ مچھر اور مکھیاں ڈھیروں ڈھیر ہیں‘ جیل کی انتظامیہ کی طرف سے وضاحتیں پیش ہو رہی ہیں لیکن رانا ثنا اللہ مطمئن ہیں کہ ''جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘۔اُن کے اس اطمینان پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔ جیل کے اندر سیاسی قیدیوں کے ساتھ حُسن ِ سلوک کی روایات قائم کی جانی چاہئیں‘ اس معاملے میں جو بھی‘ جب بھی قدم اٹھا لے اُس کی تعریف ہی کی جائے گی۔
عمران خان کے پاس اقتدار نہیں رہا لیکن اُن کی جماعت اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔تمام تر ٹوٹ پھوٹ کے باوجود یہ اپنی توانائیاں مجتمع کرنے میں مصروف ہے۔شاہ محمود قریشی سرد وگرم چشیدہ اور جہاندیدہ سیاستدان ہیں‘انہیں موقع ملا تو وہ یقینا اپنی جماعت کو سنبھالنے میں لگ جائیں گے۔اگر خان صاحب کو بدگمانی نے گھیر لیا تو پھر شاہ صاحب کی خوش گمانی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ عمران خان انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ''سب کے وزیراعظم‘‘ بن کر اپنے مخالفین اور حاسدین کو کارنر کر سکتے تھے‘ انہیں کمزور تر بنا سکتے تھے لیکن اس طرف اُن کی نگاہ گئی ہی نہیں۔وہ اپنے مخالفین کو ناکوں چنے چبواتے چبواتے اپنے حامیوں کو بھی روندتے چلے گئے‘پارٹی کے اندر اور باہر جس جس نے بھی اُن کا راستہ کشادہ کیا تھا اُس پر زمین تنگ کر دی۔یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنا کردار کب‘ کہاں‘کس حد تک اور کس وقت ادا کر پائیں گے۔
شہباز شریف نے گزشتہ ڈیڑھ سال جس طرح گزارا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔انہوں نے تیرہ رکنی اتحاد کا نمائندہ بن کر اقتدار سنبھالا تھا‘ پاکستانی معیشت انتہائی مشکلات سے دوچار تھی‘انہوں نے کام‘ کام اور کام کے ذریعے اپنا نقش جمایا۔پاکستان کو دیوالگی کے خطرے سے بچایااور فوجی قیادت کے ساتھ مل کر پاکستان کو آگے بڑھانے کا راستہ نکالا۔شہباز شریف نے جہاں اپنے اتحادیوں کو ناراض نہیں ہونے دیا‘ وہاں خارجی دوستوں کا اعتماد بھی حاصل کیا۔ چین‘سعودی عرب‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات‘ ترکی سب کو سینے سے لگایا۔سب پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘اُس کی معاشی اور سیاسی مشکلات کم کرنے کے اقدامات کرنے لگے۔یہ درست ہے کہ مہنگائی کا جن قابو نہیں کیا جا سکا‘ معیشت سست روی کا شکار رہی‘شرح سود کو بڑھانا پڑا‘ بجلی کے نرخ بڑھتے چلے گئے لیکن اس سب کی ذمہ داری کسی ایک شخص یا کسی ایک حکومت کے سر نہیں ڈالی جا سکتی۔گزشتہ کئی برسوں کی بداعمالیوں نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے‘اسے چٹکیاں بجاتے تبدیل نہیںکیا جا سکتا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ شہباز حکومت نے فوجی قیادت کیساتھ مل کر انویسٹمنٹ کونسل کی تشکیل کی‘جس میں وفاقی اور صوبائی صاحبانِ اقتدار شانہ بشانہ ہیں اور یوں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا گیا۔ زراعت اور معدنیات کے شعبوں کی طرف توجہ کی گئی‘موثر پیش رفت کے ذریعے نئے امکانات اُبھر کر سامنے آئے۔ اگر فوجی اور سیاسی قیادت کا یہ اشتراک جاری رہا‘کسی کوتاہ اندیش نے اسے سبوتاژ نہ کر دیاتو معاشی مستقبل کو سنوارا جا سکے گا۔
پاکستان کو قائم ہوئے76برس ہو چکے۔دنیا بھر میں پاکستانی اپنی آزادی کی سالگرہ منا رہے ہیں‘آج کی مشکلات اُن کو افسردہ کیے دیتی ہیں لیکن جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو حوصلہ جواں ہو جاتا ہے۔پاکستان جیسا آج ہے‘ ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔اُس نے اپنے آپ کو ہر محاذ اور ہر سطح پر منوایا ہے۔ وہ عالم ِ اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے‘اُس کے ہنر مندوں نے عالم ِ اسلام کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالااور دنیا بھر میں مقام بنایا ہے‘ جہاں بھی چلے جائیں‘ پاکستانی سرگرم اور ممتاز نظر آئیں گے۔پاکستانی معیشت برق رفتاری سے ترقی کر کے دکھا چکی ہے اور اب بھی ایسا کر سکتی ہے۔اگر ہمارے رہنما اختلاف کے آداب سیکھ جائیں‘اُسے مخالفت اور دشمنی میں تبدیل نہ ہونے دیں اور قوم کو بھی یہ نکتہ ازبر کرا دیں تو ترقی اور خوشحالی کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔لڑتا جھگڑتا پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے۔اپنے ماضی کو دوہرا سکتا ہے۔ ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔
مصر‘ خواب اور تعبیر
پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر ایسے استاد‘ دانشور‘ محقق اور کالم نگار ہیں کہ جن پر ہر پاکستانی فخر کر سکتا ہے۔اُن کی متعدد کتابیں قبولِ عام حاصل کر چکی ہیں۔ جامعہ الازہر میں قائم پاکستان چیئر پر اُن کی خواہش پر اُن کا تقرر ہوا‘ تو وہ مصر کیا پورے عالم ِ عرب میں پاکستان کے سفیر بن گئے۔ انگریزی اور عربی میں انہوں نے پاکستان اور اس کے نظریے کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ اب اُن کا سفر نامہ ''مصر‘ خواب اور تعبیر‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوا ہے۔اس میں جہاں مصر کا ماضی اور حال سمٹ آیا ہے‘ وہیں پاکستانی سفارت کاروں کی کم ہمتی اور پریشانی خیالی بھی عیاں ہوئی ہے۔ بے یقینی کے سمندر میں غوطہ زن پاکستانیوں کو بحفاظت ساحل تک پہنچانے کا کام ڈاکٹر زاہد منیر عامر جیسے کھیون ہار ہی انجام دے سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم کو آج ان جیسے اہل ِ دانش کی ضرورت ہے۔اُن کا سفر نامہ پڑھیے‘ اور اپنی کھوئی ہوئی منزل کا سراغ پانے کی کوشش کیجیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved