پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔ گزشتہ سال اپریل سے اقتدار سنبھالنے والی اتحادی حکومت اپنے 16ماہ پر محیط دور کو معیشت کے حوالے سے مشکل قرار دیتی رہی جبکہ اس عرصے میں ملک میں مہنگائی کی تاریخی لہر اور روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ بھی دیکھی گئی۔ ڈیڑھ سال سے بھی کم وقت میں مہنگائی نے شہریوں کی مشکلات دو چند کر دیں لیکن انہیں کوئی ریلیف نہ مل سکا۔ مالی سال 2022ء کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو معیشت کے تینوں بڑے شعبوں میں پیداوارکم ہونے کی وجہ سے معیشت ایک سال میں 6.1فیصد سے 0.29فیصد تک سکڑ گئی۔ زراعت میں شرح نمو 1.55فیصد اور سروسز سیکٹر میں 0.86فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ صنعتی نمو کی رفتار منفی 2.94فیصد رہی۔ اس کے علاوہ ترسیلاتِ زر‘ برآمدات‘ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔
اگر حکومت کی 12ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایک سال میں ترسیلاتِ زر میں 13فیصد سے زیادہ‘ برآمدات میں 14 فیصد‘ درآمدات میں 27 فیصد اور مجموعی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 77فیصد کی بڑی کمی دیکھی گئی۔ البتہ درآمدات کم ہونے سے حکومت جاری کھاتوں کا خسارہ گزشتہ سال کی نسبت 85فیصد کم کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ ٹیکس وصولی میں بھی 16فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ لیکن مالی خسارے میں 34فیصد کا بڑا اضافہ بھی سامنے آیا۔ ان حالات میں قرضوں کی واپسی کے لیے حکومت کو غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا رہا اور برآمدات کے مقابلے میں درآمدات 25ارب ڈالر زیادہ ہونے اور دیگر وجوہات کی بنا پر روپے کی قدر میں تاریخی کمی دیکھی گئی۔ اتحادی حکومت جب برسرِ اقتدار آئی تھی تو اس وقت ایک امریکی ڈالر تقریباً 185روپے کا تھا جب کہ اب ایک امریکی ڈالر کی قیمت 287روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ روپے کی قدر میں گراوٹ کے اثرات کے نتیجے میں ملک میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں 17فیصد زیادہ رہی جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ روس سے خام تیل کی درآمد سے قیمتوں میں نمایاں کمی کے دعووں کے باوجود پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 16ماہ کے دوران 120روپے فی لیٹر سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔ حکومت کے پاس معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی کا شدید فقدان دکھائی دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم کو جب حکومت ملی تو معیشت قرضوں کے انبار‘ اصلاحات کے فقدان‘ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی وجہ سے پہلے ہی دشواریوں کا شکار تھی لیکن پی ڈی ایم کے 16ماہ کے دوران معیشت سنبھلنے کے بجائے‘ معاشی حالات مزید دگرگوں ہوئے اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ حکومت کے پاس شہریوں کو مہنگائی سے نکالنے اور بین الاقوامی ادائیگیوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی مناسب حکمت عملی موجود نہ تھی۔ حکومت کا تمام تر انحصار بیرونی فنڈنگ‘ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور خسارے میں مبتلا توانائی جیسے شعبوں کے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے قیمتیں بڑھانے کی طرف ہی نظر آیا جبکہ نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں میں نہ توکوئی اصلاحات لائی گئیں اور نہ ہی ان کی نجکاری ہوئی۔ حکومت نے گزشتہ سال کے وسط میں آئی ایم ایف پروگرام بحال کروا کر بہتر سمت میں سفر تو شروع کیا لیکن وزیرِ خزانہ کی تبدیلی کے بعد ملک میں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کی کوشش‘ مقررہ ہدف میں تخمینہ شدہ محصولات جمع کرنے میں ناکامی‘ برآمدات میں کمی اور مشکل سیاسی فیصلوں سے بچنے کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام 10ماہ تک معطل رہا جس کی قیمت معیشت اور عام آدمی کو ادا کرنا پڑی‘ تاہم حکومت کو ایک اور موقع اس وقت ملا جب آئی ایم ایف نے کڑی شرائط کے ساتھ سٹینڈ بائی پروگرام منظور کر لیا لیکن ملکی معیشت دگرگوں ہونے کے وجہ سے آئندہ آنے والی حکومت کو بھی عالمی مالیاتی فنڈ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑ سکتا ہے۔ سٹینڈ بائی ایگریمنٹ معیشت کے استحکام کی ضمانت نہیں ہے بلکہ معیشت کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے ابھی طویل راستہ باقی ہے جو شاید ابھی شروع بھی نہیں ہوا ہے۔ اس سب کے لیے طویل سیاسی استحکام‘ طویل المدتی معاشی پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد‘ ٹیکس نہ دینے والی اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ کے اندر لانا اور حکومت کے شاہانہ انداز کو بدلنے سمیت مؤثر افرادی قوت تیار کرنا بنیادی شرائط ہیں۔ معیشت کی بحالی کے لیے ملک کی حکمران اشرافیہ کے اندر ایک پُرعزم اور فیصلہ کن اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ پی ڈی ایم دورِ حکومت میں سیاسی عزم کی بھی کمی نظر آئی۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت گرداب سے باہر نہیں آ رہی۔ محض سیاسی استحکام ہی معاشی استحکام کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے لیے مربوط معاشی پالیسیاں تشکیل دینے اور ان پر غیرمتزلزل عزم کیساتھ کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ 16ماہ کی کارکردگی کے نتیجے میں جامع ترقی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کو بحال کرکے تعطل کے شکار منصوبوں کی تکمیل اور نئے منصوبوں کا آغاز کیا ہے اور چین کے نائب وزیراعظم کے حالیہ دورۂ اسلام آباد میں زراعت‘ صنعت‘ آئی ٹی‘ سماجی اور انسانی ترقی میں تعاون کے لیے نئے مفاہمت ناموں پر دستخط بھی کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے موجودہ مالی سال میں ترقیاتی بجٹ 550ارب سے بڑھا کر 1150ارب روپے رکھا ہے۔ گزشتہ سال اس مد میں 741ارب روپے خرچ کیے گئے۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سماجی شعبوں‘ نوجوانوں کی فلاح و بہبود‘ زراعت کی ترقی اور دیگر منصوبوں سے ترقی کا رُکا ہوا سفر شروع کرکے معیشت کو صحیح سمت کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ ہر جانے والی حکومت اسی طرح کے دعوے کرتی ہے اور نئی آنے والی حکومت کے دعوے بالکل اُلٹ ہوتے ہیں۔ جانے والی حکومت کو چاہیے تھا کہ صرف تصویر کا ایک رُخ نہ دکھاتی بلکہ مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوشربا اضافے کے بارے میں عوام کو بتا کر جاتی اور کھلے دل سے اقرار کرتی کہ جو مہنگائی وہ کم کرنے آئی تھی اسے کم کرنے میں ناکام رہی اور آئندہ عوام سے ووٹ نہیں مانگے گی۔ اب وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ اتحادی جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے الیکشن لڑیں گی۔ وہ عوام سے ووٹ مانگنے کا نعرہ نہیں لگا رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے عوام کے ساتھ کیا کیا ہے۔
ان مشکل حالات میں عوام حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے ایسے فلاحی اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں جو نوجوانوں کی مالی مشکلات کم کرنے پر سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھ چکے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہوگا‘ کمی نہیں۔ اس لیے آمدن بڑھانے کے ذرائع پر کام کرنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے ایک فلاحی ادارے نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو آئی ٹی کی تربیت اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنے کے مقصد سے ایک پروگرام شروع کیا ہے تاکہ وہ 6ماہ میں مہارت حاصل کرکے باعزت طریقے سے روزگار کمانا شروع کر سکیں۔ طلبہ عالمی معیار کے ٹیکنالوجی ماہرین کی زیر قیادت اعلیٰ معیار کی آن لائن تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے پروگرام‘ طلبہ کو تیزی سے پیداواری صلاحیتیں اور قابلِ قدر ملازمتیں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ مایوسی کے ماحول میں ایسے منصوبے پاکستانی معیشت میں بہتری لانے کے لیے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ فلاحی اداروں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر نوجوانوں کو آئی ٹی کے شعبہ میں ماہر بنانے کے لیے پروگرام لانچ کریں تاکہ وہ اپنی زندگی میں خودمختار ہو سکیں اور ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved