قیامِ پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب سمیت ہندوستان کے دیگر علاقوں سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچنے والے لاکھوں لوگ اپنی طبعی عمریں پوری کر کے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور جو ابھی زندہ ہیں وہ چند قدم چلنے کے بعد ایسے تھک جاتے ہیں جیسے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں کولہو کے بیل کی طرح نیم جان ہیں۔ پاکستان بنانے کا جو حقیقی مقصد تھا وہ پس پشت ڈال دیا گیا ہے لیکن وہ قربانیاں‘ وہ عزتیں‘ وہ تکالیف‘ وہ درد اور وہ زندگی بھر کے وچھوڑے کیسے بھلائے جا سکتے ہیں کہ جس میں ماں بیٹے سے‘ بیٹی باپ سے‘ بہنیں بھائیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئیں‘ لوگوں کے گھر بار لٹ گئے‘ بازو اور ٹانگیں کٹ گئیں اور پھر انہی کٹے ہوئے بازؤں اور لنگڑاتی ہوئی ٹانگوں سے سرکاری دفتروں میں اپنے کلیم کے حق کے لیے دھکے کھانے پڑے۔
پاکستان کو معرضِ وجود میں آنے کے بعد جس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے ہمیں اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے قابل ہی نہ رہنے دیا اور جب بھی بغیر سہارے کے اٹھنے کی کوشش کی تو ایسا دھکا دیا گیا کہ کمر ہی دہری ہو گئی۔ ملک کے قیام کے 24 سالوں میں ہی ہم نے دو‘ تین جنگیں اور سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کو بھگتا۔ اس دوران ملک میں حکومت بار بار ڈی ریل ہوتی گئی۔ انگریز ہندوستان سے جاتے ہوئے اپنے جانشین یہاں چھوڑ گیا۔انگریز کی پروردہ حکمران کلاس اس ملک سے وہی سلوک کرتی رہی جو انگریز کرتا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اپنا مستقبل اس ملک کے ساتھ نتھی نہیں کر رہی تھی بلکہ یورپ کے پُرفضا مقامات کو وہ اپنے خیالوں میں بسائے ہوئے تھی۔ اس لیے انہوں نے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود اسی کے حکم کی بجا آوری کو اپنی اولین ترجیح بنایا۔
پاکستان ہو یا ہم عصر دنیا کا کوئی دوسرا معاشرہ‘ اگر کوئی ملک تعمیر و ترقی کے بامِ عروج پر ہے اور جس حال میں اور جس مقام پر ہے تو اس کے پیچھے ماضی میں دور تک پھیلا ہوا سلسلۂ فکر و عمل کارفرما ہے۔ گویا حال ماضی کی تخلیق ہے اور مستقبل کے بارے میں کو ئی پیش گوئی حال ہی کو دیکھ کر کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے حال نے اہلِ وطن کو اس کے مستقبل کے حوالے سے سخت فکر و تشویش اور پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اندرونِ ملک کے سانحات ہوں یا ہمہ جہتی اسبابِ زوال یا بین الاقوامی دائرۂ تعلقات میں انحطاط کی مختلف صورتیں‘ ان سب نے ملکی صورت حال کو اتنا مخدوش کر دیا ہے کہ مستقبل پر خوف اور مایوسی کے گہرے سائے چھائے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان کے اندر کیا کچھ ہوا‘ کس نے کیسے کیا کیا‘ کس کس نے اس پر کاری وار کیے؛ اگرچہ یہ سب اس کالم کا موضوع نہیں ہے لیکن جس طرح مرض کی تہہ تک پہنچنے کیلئے ایک طبیب نبض پر ہاتھ رکھتے ہی مریض سے یہ سوال پوچھتا ہے کہ کل کیا کھایا تھا‘ کیا کیا تھا‘ کیا آپ کے والدین میں سے تو کوئی اس مرض کا شکار نہیں رہا وغیرہ وغیرہ‘ ایسے ہی وطن عزیز کو جکڑنے والے ان قومی امراض کی تشخیص کیلئے ہمیں تھوڑا سا اپنا ماضی بھی جھانک لینا چاہئے کہ ہمیں غلامی کے طوق میں کس کس نے جکڑا اور اس کے بدلے حصہ وصول کیا۔ کس نے وطن کے مستقبل کی قیمت پر اپنے محلات یورپ کے پُرسکون ممالک میں سجائے؟ پاکستان میں ماضی کے تمام حکمرانوں کے جتنے بھی بیرونی معاہدات ہوئے اور جن کا سلسلہ آج بھی اسی رفتار سے جاری و ساری ہے‘ وہ کیوں پوشیدہ رہے؟
پی ڈی ایم کے برسر اقتدار آنے کے بعدآئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں نے کن شرائط پر ڈوبتی اور ہچکولے کھاتی ہوئی پاکستانی معیشت کو سہارا دیا‘کیا پاکستانی عوام یہ سب جاننے کا حق نہیں رکھتے؟ کہیں ہم ایک بار پھر کسی نئی اور ترقی یافتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سراب کا شکار تو نہیں کیے جا رہے؟ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی‘ جو آج سے لگ بھگ چار سو سال قبل 31 دسمبر 1606ء کو لندن میں اس مقصد کیلئے تشکیل دی گئی تھی کہ اپنی مصنوعات کی منڈیوں کے لیے ہندوستان اور انڈونیشیا تک پھیلے خطوں تک پہنچ کر وہاں اپنے تجارتی مراکز قائم کرے مگر پھر سب نے دیکھا کہ ہندوستان میں انگریز تجارت کے نام پر داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سورت اور پھر مدراس اور کلکتہ کی بندرگاہوں پر قابض ہو گئے۔
اس وقت کسی کو خبر ہی نہ ہوئی کہ بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے اس وقت کے مغل بادشاہوں اور ان کے علاقائی عہدیداروں سے انگریزوں نے ذاتی مراسم بڑھائے مغل بادشاہ جہانگیر نے تو ایک انگریز کو منصب دار کا اہم عہدہ بھی سونپ دیاپھر انگریزوں کو اہم شہر اور علا قے سونپے جانے لگے ۔ اس وقت کسی کو خبر ہی نہ ہوئی کہ اس کمپنی کے عملے میں بری اور بحری افواج کے لوگ بھی شامل تھے۔ نہایت غیر محسوس طریقے سے اس وقت کے مغل بادشاہوں اور علاقائی عہدیداروں سے انگریزوں نے ذاتی مراسم بڑھائے۔ مغل بادشاہ جہانگیر نے تو ایک انگریز کواہم عہدہ بھی سونپ دیا تھا۔ پھر انگریزوں کو اہم شہر اور علاقے سونپے جانے لگے۔پھر یہ وقت بھی آیا کہ حکومت مغل خاندان کی تھی مگر محصول کمپنی اکٹھا کرتی تھی۔ انگریز نے روبہ زوال مغل سلطنت کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی سطح پر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے چھوٹی چھوٹی جھڑپوں سے ہندوستان پر قبضے کا آغاز کیا اور پھر 1757ء کی جنگ پلاسی میں پہلے بنگال اور پھر سو سال بعد اپنی فتح کا جشن مناتے ہوئے 1857ء کی جنگِ آزادی میں مغلوں‘ مقامی راجوں‘ مہاراجوں اور نوابوں کو شکست دے کر پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور برصغیر کے پُرشکوہ مغلیہ خاندان کو بے نام و نشان بنا کر رکھ دیا۔ تاریخ کا یہ گزرا ہوا دور اب ایک نئی صورت میں اپنے اعادے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ دیکھتی آنکھیں حیران ہو رہی ہیں کہ امریکہ‘ برطانیہ‘ اٹلی‘ فرانس اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی افریقہ اور عرب دنیا کے تمام ممالک کے فیصلوں سمیت ان کی معیشت پر رفتہ رفتہ قابض ہوتے جا رہے ہیں۔دیکھنے کی حد تک تو پاکستان میں حکمران بدل رہے ہیں لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ ہمارا اصلی حکمران امریکہ ہے۔ ہمارے حکمران امریکہ کی طرف سے جاری ہونے والا حکم ہی مانتے ہیں اور امریکہ کے اشاروں پر چلتے ہوئے ہی کروڑوں پاکستانیوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں۔
دنیا کا نقشہ سامنے رکھ کر غور سے دیکھیں کہ ایشیا کا وسیع علاقہ‘ جو وسطی ایشیا سے چین تک اور ادھر جنوبی ایشیا میں پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ سری لنکا سے ہوتا ہوا میانمار‘ ملائیشیا اور کوریا تک پھیلا ہوا ہے‘ دنیا کی دوتہائی سے زائد آبادی پر مشتمل ہے۔ یہ ابھی تک امریکہ اور یورپ کی عسکری دسترس سے باہر ہے جبکہ وسطی ایشیا کی ابھرتی ہوئی ریاستیں‘ چین اور بھارت بڑی معاشی قوت بن چکی ہیں۔ جاپان اور انڈونیشیا جیسے ممالک ان کے سرے پر واقع ہیں۔امریکہ کے تھنک ٹینک اسے سمجھا رہے ہیں کہ وہ صرف پاکستان کے راستے ہی قلبِ ایشیا تک پہنچ سکتا ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ اگر کوئی آزادی کا نعرہ لگائے یا غلامی سے نجات پانے کی باتیں کرے تو اسے نشانِ عبرت بنا دو تاکہ آئندہ کسی کو ایسی جرأت نہ ہو سکے۔ انہیں طاقت کے بل پر اچھے سے سمجھا دو کہ آزادی کے نعرے صرف پاکستان کے قیام تک ہی صحیح تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved