یہ نوجوان کئی ماہ سے منصوبہ بندی کررہے تھے کہ کس طرح پردیس میں روزگار تلاش کریں۔ تقریباً سب اپنے کنبوں کے کفیل تھے۔ چھوٹے بچے‘ بیویاں‘ بہن بھائی‘ ماں باپ ان کی طرف دیکھتے کہ کچھ کماکر لائیں تو گھر کا چولہاجلے۔ ایک کی فصل موسمی تبدیلیوں کی نذر ہوگئی۔لیا گیا قرض اتارنا محال ہورہا تھا۔ بے روزگاری کی وجہ سے غربت‘ بھوک نے پہرے لگا رکھے تھے۔ کئی سال گزر جانے کے بعد کچھ نہ بن سکا تو ننگے جسموں اور خالی پیٹوں نے وطن کی مٹی کی خوشبو اور سب رشتوں ناتوں کو ایک تیز آندھی کے ساتھ سمندر کے اندر پھینک دیا۔ ملک سے فرار کا انوکھا اور نہایت ہی پر خطر راستہ نکالا۔ سمندر کے کنارے بیٹھے دور کھڑے مال بردار جہاز تک پہنچنے تک کسی طرح کی تدبیریں کرنے لگے۔ کوئی چھوٹی سی کشتی پکڑی‘ چپو چلاتے کئی منزل بلند جہاز کے قریب پہنچے۔ کسی طرح وہ جہاز کے پتوار تک پہنچ کر اس پر بیٹھنے میں کامیاب ہوگئے۔پتوار سے جہاز یا کشتی کا رُخ موڑا جاتا ہے۔ کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس جہاز کی منزل کیا ہوگی‘ کس ملک جا کر رکے گا۔ وہ تو کسی بھی ملک جانے کو تیار تھے۔ خیال غالباً یہ تھا جہاز یورپ یا امریکہ لے جائے گا۔ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ پتوار پر کتنے دن بیٹھنا پڑے گا۔ چودہ دن سردی اور کھلے سمندر میں گزار دیے۔ آٹھویں دن کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیاتو باقی چھ دن ٹوتھ پیسٹ چاٹ کر اور سمندر کا نمکین پانی پی کر جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھا۔
جہاز رُکا‘ عملہ تبدیل کرنے کے لیے کوئی کشتی گہرے سمندر میں آئی تو یہ پانچ نوجوان پتوار پر مدد کے لیے چیخ و پکار کرتے نظر آئے۔ وہ یورپ یا امریکہ کی بجائے جنوبی امریکہ کے ملک برازیل کی کسی بندرگاہ پر پہنچے تھے۔خوش قسمت تھے کہ زندہ بچ گئے۔ ہر روز افریقہ کے ساحلوں سے‘ خصوصاً شمالی ممالک سے یورپ کے لیے کشتیاں روانہ ہوتی ہیں۔ آئے روز تارکینِ وطن کے ڈوبنے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ ایک دو ماہ پہلے ہم نے اپنے ڈوبنے والوں کی نوحہ خوانی اس صفحے پر کی تھی۔ نائیجریا کے نوجوانوں کی یہ کہانی جمعہ کی صبح نیویارک ٹائمز میں پڑھی تو بیالیس سال پہلے نائیجریا کی خوشحالی اور ترقی کا نقشہ ذہن میں فلم کی طرح چلنے لگا۔ یہ ملک دنیا کے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی صف اوّل میں شامل ہے۔ تب تیل کی دولت سے صنعتیں لگ رہی تھیں‘ جامعات کھل رہی تھیں‘ زراعت ترقی کررہی تھی۔ نائیجریا کی جامعات میں اساتذہ کی بھرتی کے لیے پاکستان کے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات چھپتے‘ انٹرویو کے لیے وہاں سے ٹیمیں آتیں‘ اور بھاری بھرکم مشاہروں کی پیش کش کی جاتی۔ ہمارے ہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ نائیجریا کی جامعات میں جانا شروع ہوگئے۔ جس طرح آج متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ درویش یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے تازہ تازہ اعلیٰ تعلیمی سند حاصل کرکے لوٹا تھا۔ ہم نے بھی دیکھا دیکھی ایک جامعہ میں درخواست بھیج دی۔ مگر پھر خیال آیا کہ گھر‘ ملک سے باہر رہنا ہی تھا تو امریکہ سے بہتر جگہ کیا ہوسکتی تھی ؟ جو ملے اس پر گزارہ کرنا ہم نے بچپن سے ہی سیکھا ہوا تھا۔ وطن واپسی کے بعد آٹھ سال تک ہم اربن ٹرانسپورٹ کی بسوں پر سفر کرتے‘ بچوں کو اسلام آباد کے پارکوں کی سیرکرانے لے جاتے۔ ہماری بیگم راول پنڈی کے ایک سکول میں تدریس کرتی تھیں‘وہ بھی اربن ٹرانسپورٹ کی بس سروس استعمال کرتی تھیں۔ شایدآپ کو یقین نہ آئے‘ عین وقت پر بس ہمارے گھر کے قریب رکتی‘ واپسی بھی اسی بس پر ہوتی تھی۔ دوسا ل وہاں ملازمت کی‘ ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ بس خراب ہوئی یا کبھی تاخیر سے آئی۔ اسلام آباد میں اُس وقت دوپارک تھے۔ ہمارے بچوں کو گلاب چنبیلی باغ پسند تھا۔ اس صاف ستھرے باغ میں ہر طرف پھول ہی پھول تھے۔ ہر سال موسم بہار میں پھولوں کی نمائش لگتی تو اہتمام کے ساتھ اپنا کھانابیگ میں رکھتے‘ بس پر بیٹھتے اور وہاں پہنچ جاتے۔ کبھی بجلی کا بل غلط نہیں آتا تھا۔ گھر پر فون کی سہولت نہیں تھی۔ یہ ہمیں تب ملی جب قائد اعظم یونیورسٹی کے اندر رہائش پذیر ہوئے۔ مگر اس کا دائرہ کار صرف اسلام آباد کی حد تک تھا۔ کبھی کہیں چوری‘ ڈاکے‘ دہشت گردی کی خبرنہیں آتی تھی۔چند ہزار کی تنخواہ سے ہم بچت بھی کرلیتے اور عیدین کے مواقع پر ٹرین میں سوار ہو کر راجن پور کے گائوں کے قریب ریلوے سٹیشن پر جا اُترتے۔ ہماری واپسی بھی ٹرین سے گائو ں کے اسی سٹیشن سے ہوتی۔ نائیجریا اور پاکستان‘ دونوں مستحکم تھے۔ مگر دنوں مضبو ط ہاتھوں میں تھے۔ نائیجریا افریقی ممالک کی صف میں بہت آگے تھا۔ ہماری زندگی آسان‘ سادہ تھی‘ اور ہر لحاظ سے ہم خود کو خوش قسمت سمجھتے تھے۔ پاکستان کی ترقی کی رفتار‘ اقتصادی اور سماجی ترقی کی شرح بھارت سے بہتر تھی۔ میں جب 1984 ء کے اوائل میں پہلی مرتبہ بھارت گیاتو لوگ ہمارے ملک کی خوشحالی کی باتیں کرتے تھے‘ اور اپنے نصیبوں پر اس طرح روتے تھے جس طرح ہم آج رو رہے ہیں۔ ایک بات جو وہاں میں نے ہمیشہ نوٹ کی‘ اُن کے رہنمائوں کو‘ جس جماعت سے بھی تعلق ہو‘ اور عام لوگوں کو‘اپنی دھرتی سے بے حد پیار اور اس پرفخر کرتے پایا۔
یہ باتیں میں چالیس سال پہلے کی کررہا ہوں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر نائیجریا اور پاکستان کیوں پیچھے رہ گئے ؟ آج نائیجریا سے کسی کو کانفرنس میں شرکت کے لیے ہوائی ٹکٹ اور تمام لوازمات کے ساتھ دعوت نامہ ملے تو شاید ہی کوئی جانا پسند کرے۔ ایک مرتبہ میرے سری لنکا کے دوستوں نے وہاں کسی کانفرنس میں جانے کی جو روائیداد سنائی تو کرپشن کا حال سن کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ جگہ جگہ روک کر وردی میں ملبوس پولیس نے بھتہ وصول کیا یہاں تک کہ ایئرپورٹ پر انہیں جعلی ڈالر تھما دیے گئے۔ہمارے ہاں بھی لوگ آنا پسند نہیں کرتے۔ ان دونوں ممالک کی تباہی حکمران طبقات کی بدعنوانی سے شروع ہوئی جو نوکر شاہی سے پھیلتی‘ تاجروں اوردیگر حلقوں میں سرایت کرتی چلی گئی۔ جائز کام کے لیے بھی سرکاری ملازم تنخواہوں اور مراعات کے ساتھ رشوت طلب کرتے ہیں۔ کئی کام رُکے ہوئے ہیں مگر ہمارا بھی تہیہ ہے کہ ایک پیسہ نہیں دینا۔ لوگ سنتے ہیں تو ہنستے ہیں کہ پاکستان میں رہنا ہے تو پھریہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ حیف ہے ایسی سوچ پر‘ مگر مزاحمت کی ایک بھاری قیمت ہے جو ہم ادا کررہے ہیں۔
ریاستوں اور معاشروں کی تباہی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ اچھی ریاست ہی اچھا معاشرہ تعمیر کرتی ہے‘ اور فرد کی صلاحیت‘ روحانی تازگی اور اخلاقیات فقط قانون اور انصاف کی حکمرانی سے سنورتی ہے۔ کہاں گئیں وہ بسیں اور ٹرینیں جو وقت پر چلتی تھیں‘ کہاں گئے وہ لوگ جو حلال کی کھاتے تھے‘ کہاں گئی وہ غیرت اور حمیت؟ شہریوں کو تنگ کرنا اور پیسے بٹورنا اب سرکاری حق خیال کیا جاتا ہے۔ ہماری ریاست کے زوال کا سبب حکمرانوں کی بدعنوانی ہے۔ ان کے محلات‘ بیرونی ممالک میں کمپنیوں میں سرمایہ اور ذاتی کاروبار اور اربوں ڈالرکی منی لانڈرنگ۔ کس کس بدنما دھبے کی بات کریں۔ کرپشن ریاستوں کی تباہی کے بغیر ممکن نہیں۔ ریاست کا مضبوط ہونا اسی کی عدلیہ‘ نوکر شاہی اور احتسابی اداروں اور قانون کا مضبوط ہونا ہے۔ یہ سب کچھ تباہ کرکے ہی کرپشن کی جاتی ہے۔ یہاں سے لوگ ایسے ہی تو نہیں بھاگ رہے۔ جاگو گے نہیں‘ احتساب نہیں کروگے تو یہی ہوتا رہے گاجو آپ دیکھ رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved