تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-09-2013

خادم اعلیٰ کے عہد میں پٹواریوں کے کڑا کے نکل گئے

برسوں پہلے اندرون ملک سمگلنگ روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی ہوتی تھی۔ کپڑے ، میک اپ کا سامان، سگریٹ اور اسی قبیل کی چیزیں ۔ مرد اور خواتین دونوں اس ’’کار خیر‘‘ میں حصہ لیتے تھے۔ بڑے بڑے سمگلر بیرون ملک سمگلنگ کا کام کیا کرتے تھے۔ پھیرے بازوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ دیہاڑی لگاتے تھے۔ ملتان میں ایک باڑہ بازار ہوتا تھا مگر وہاں جھگیوں میں صرف کپڑا فروخت ہوتا تھا۔ جھگیوں کے ساتھ خالی میدان میں متمول خواتین کی گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں۔ جھگیوں کاسارا کاروبار پٹھانوں کے پاس تھا۔ آدھا کپڑا سمگل شدہ ہوتا تھا اور آدھا لوکل ہوتا تھا جو اس سمگل شدہ کپڑے کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ بک جاتا تھا۔ اب یہ باڑہ بازار جھگیوں سے پختہ دکانوں میں بدل گیا ہے اور دھڑلے سے کام ہورہا ہے۔ اس زمانے میں جب کا ذکر کررہا ہوں یعنی تقریباً پینتیس چالیس پہلے ، کبھی کبھار کوئی پٹھان اپنے کسی اعتباری جاننے والے کے لیے درے کا بناہوا دیسی ریوالور ، پستول یا پین پسٹل لے آتا تھا۔ سمگلنگ کا روٹ پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوتا ہوا براستہ تونسہ، وہواہ، ملتان ہوتا تھا۔ دوسرا روٹ پشاور ، بنوں، کوٹ چاننا، میانوالی، مظفر گڑھ سے ملتان ہوتا تھا۔ سمگلنگ کی شکایات بڑھیں تو کسٹم حکام نے ایک اینٹی سمگلنگ سکواڈ بنادیا۔ کچھ دونوں کے بعد خبراڑی کہ ملتان میانوالی روٹ پر سمگلنگ تقریباً ختم ہوگئی ہے اور سمگلر یہ روٹ چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ میں اپنے ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا کہ وہاں اسی موضوع پر بات چھڑ گئی۔ ہمارا یہ دوست اس اینٹی سمگلنگ سکواڈ کے انچارج کا بڑا قریبی دوست تھا۔ بتانے لگا کہ خوداینٹی سمگلنگ سکواڈ نے اپنی نگرانی اور سرپرستی میں ایک دو گروہ تیار کیے ہیں اور انہیں مکمل تحفظ دے رہے ہیں جبکہ پرانے پھیرے بازوں پر اتنی سختی کی ہے کہ وہ یہ روٹ چھوڑ کر کسی دوسرے روٹ پر چلے گئے ہیں۔ یہ پرانا واقعہ ایک عرصے کے بعد یاد آگیا۔ تب سمگلر آٹھ دس کپڑے کے تھان، صابنوں کے پندرہ بیس بنڈل، سگریٹوں کے دس بارہ ڈبے اور تین چارسوگرام چرس کی واردات ڈالا کرتے تھے۔ پشاور سے ملتان تک بس ڈرائیور، کنڈیکٹر، چیک پوسٹ والوں اور راستے میں چیکنگ کرنے والی پولیس کو نذرانے دیتے دیتے جب ملتان پہنچتے تو ان کا ’’منافع‘‘ نہایت مناسب سطح پر آچکا ہوتا تھا۔ ایسے میں اینٹی سمگلنگ سکواڈ نے سختی شروع کردی تو بھلا ان محنت کشوں کو کیا بچنا تھا؟ لہٰذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ اب کوئی اور روٹ دیکھا جائے‘ سووہ یہ روٹ چھوڑ کر کہیں اور بھاگ گئے۔ تب سیاستدان براہ راست سمگلنگ میں ان کی سرپرستی کرنے یا حصہ داری میں شریک نہیں تھے۔ سارے معاملات سمگلروں اور سرکاری اہلکاروں کے درمیان ’’نہایت ایمانداری‘‘ سے چلتے رہتے تھے تاوقتیکہ کوئی ایماندار افسر رنگ میں بھنگ نہ ڈالتا تھا۔ آہستہ آہستہ ملک کا سارا نظام اجتماعی خرابی اور بعدازاں بربادی کی طرف تیزی سے رواں ہوگیا۔ تمام معاملات میں سیاستدان براہ راست ہرمعاملے میں بھتہ خوری پر اتر آئے اور ہرچیز سے وصولی کرنے لگ گئے۔ نوکریوں کی بندربانٹ، ٹرانسفر، پوسٹنگ اور فائلوں کو چلانے‘ غرض ہرچیز کے لیے معاوضہ وصول ہونے لگ گیا۔ منتھلی لگ گئی۔ ایک دو ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کے متعلق مشہور تھا کہ ایکسائز کے دفتر میں موٹررجسٹریشن برانچ میں ان کا آدمی لگا ہوا ہے جو انہیں ماہانہ معاوضہ دیتا ہے اور ان کے پاس لوگ اپنے اپنے آدمی لے کر جاتے ہیں کہ انہیں آزمائیں‘ یہ آپ کو موجودہ آدمی سے زیادہ ماہانہ دیں گے۔ کبھی معاملہ طے پا جاتا تھا اور کبھی بڑے صاحب انکار کردیتے اور نہایت قناعت پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے لاپروائی سے کہتے کہ اپنا آدمی لگا ہوا ہے‘ ہم اس سے کچھ نہیں لیتے‘ بس اپنا آدمی مزے کررہا ہے‘ ہمارے لیے یہی بہت ہے۔ تب تھوڑی بہت شرم و حیا تھی اور لحاظ مروت تھا۔ ممبران اسمبلی ہر آدمی کے سامنے اپنے پیٹ سے کپڑا نہیں اٹھاتے تھے مگر پھر یہ لوگ عنقا ہوگئے اور ایسے لوگ آگئے جو پیٹ سے کپڑا اٹھانا تو ایک طرف سرے سے پیٹ ہی ننگا کرکے بیٹھ گئے۔ ملتان میں حالیہ انتخابات میں ہارنے والے ایک ممبر قومی اسمبلی خود لوگوں کے الٹے سیدھے کام کرواتے رہتے تھے اور اس کا پارٹی عہدیدار چھوٹا بھائی زمینوں پر قبضے، اڈوں سے بھتہ لینے اور سرکاری ملازموں سے جگا ٹیکس لینے میں لگارہتا تھا۔ شنید ہے کہ وہ اپنی مرضی کا پٹواری لگوانے کے عوض پوسٹنگ پر پانچ لاکھ اور ماہانہ ایک لاکھ نذرانہ لیتے تھے۔ وہ نئے نئے امیر ہوئے تھے اور کافی نیچے سے ’’ترقی‘‘ کرکے اوپر آئے تھے‘ اس لیے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نسلوں کی بھوک ایک آدھ نسل کی لوٹ مار سے ختم نہیں ہوتی مگر اس حمام میں تو ایسے ایسے ننگے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ملتان میں معاملات کافی سے زیادہ خراب ہیں تاہم یہ خرابی صرف اس لیے ہمیں نظر آتی ہے کہ ہمارے سامنے ہورہی ہے وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ ملتان بقیہ پنجاب کے مقابلے میں نسبتاً بہت بہتر جگہ ہے کہ یہاں کا سیاستدان زور آوری کی اس منزل پر فائز نہیں ہوا جس پر اپر پنجاب اور اس سے بڑھ کر وسطی پنجاب کے سیاستدان فائز ہیں۔ دیگ کا اندازہ کرنے کے لیے صرف چند چاولوں کا چکھنا ہی کافی ہوتا ہے‘ پوری دیگ نہیں کھائی جاتی۔ اگر ملتان میں حالات اس قدر تنزلی اور خرابی کی حدتک پہنچ چکے ہیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ باقی ملک میں کیا حال ہوگا۔ ملتان شہر سے دونوں ایم این اے تحریک انصاف سے ہیں۔ پنجاب میں وہ اقتدار میں نہیں ہیں لہٰذا ان کے بارے میں بات کرنا فی الوقت فضول اور بے فائدہ ہے۔ اگر وہ طاقت میں ہوتے تو ان پر بات کی جاتی۔ فی الحال وہ ’’پھرتے ہیں میرؔخوارکوئی پوچھتا نہیں۔‘‘ کی تصویر ہیں۔ سکندر بوسن نے یہ کام نہ پہلے کیا ہے اور نہ ہی اب ایسی کوئی شکایت ہے؛ البتہ ایم پی اے حضرات کی خوب چاندی ہے اور ایک ایم این اے جو خود کو ’’فاتح مخدومین‘‘ سمجھتا ہے ہر طرح کا موج میلا کررہا ہے۔ پہلے موصوف کی پہنچ بس اڈے سے بھتہ وصولی تک محدود تھی‘ اب اسے خاص فروغ ملا ہے‘ اب بڑے ٹھسے سے پلاٹوں پر ،متنازع زمینوں پر اور جائیداد پر قبضوں میں مصروف ہے۔ ایک ایم پی اے کے قریبی آدمی نے عمرے پر گئے ہوئے پٹواری کو فون کرکے کہا کہ آپ نے اگر موجودہ موضع میں فرائض سرانجام دینے ہیں تو ایم پی اے صاحب کو دولاکھ ماہانہ دینا ہوں گے ۔ پٹواری نے جو اب خود اونچی گیم میں ہے اور پراپرٹی کے بڑے سودوں میں رائج الوقت کمیشن پر کام کررہا ہے‘ جواب دیا کہ میں عمرہ کرنے آیا ہوں اور سارے معاملات سے توبہ تائب ہوچکا ہوں‘ اب دولاکھ تو کجا دوروپے دے کر بھی اپنی پوسٹنگ بچانے پر تیار نہیں ہوں۔ پٹواری صاحب واپس آئے تو موضع سے فارغ ہوچکے تھے اور دوسرا پٹواری وہاں اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ پتا چلا کہ موصوف نے ایم پی اے کی حسب خواہش ماہانہ ادا کرنے کی ہامی بھرلی تھی‘ لیکن معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ موصوف ایم پی اے اس موضع میں بڑے بڑے سودوں پر براہ راست پیسہ لے رہا ہے۔ پٹواری بادشاہ پریشان ہے کہ جن سودوں سے میں نے کمائی کرکے دولاکھ روپے ماہانہ کی ادائیگی کرنی تھی ان کو براہ راست ایم پی اے ڈیل کررہا ہے تو پھر میں کیا کروں؟ ایک زمین ایسی تھی جس پر حکم امتناعی تھا۔ ایم پی اے نے دوسری پارٹی سے پٹواری کے نام پر چھ لاکھ روپے لے کر پٹواری سے زبردستی انتقال کروادیا۔ ادائیگی کرنے والی پارٹی کا کہنا ہے کہ انہوں نے پٹواری کے نام پر ایم پی اے کو ادائیگی کی ہے اور پٹواری دھاڑیں مارکر رورہا ہے کہ مجھے ایک پیسہ وصول نہیں ہوا‘ میرا صرف نام استعمال ہوا ہے۔ ہمیشہ سنا تھا کہ پٹواری لوگوں کی چیخیں نکلواتے ہیں‘ اپنی نصف صدی سے زیادہ کی عمر میں پہلی بار سنا ہے کہ پٹواری بادشاہ کی اپنی چیخیں نکل گئی ہیں۔ پٹواری رورہا ہے کہ میں دولاکھ ماہانہ بھی دے رہا ہوں اور جن سودوں سے میں نے وصولی کرکے ادائیگی کرنی تھی وہ سودے بھی دھکے سے مفت کروائے جارہے ہیں اور ان کا معاوضہ براہ راست ایم پی اے خود لے رہا ہے۔ انگریز کے دور سے لے کر اب تک پٹواری خود ’’نائب فی الارض‘‘ ہوتا تھا‘ اب پہلی مرتبہ یہ سنا اور دیکھا ہے کہ پٹواری روتا پھر رہا ہے۔ یہ صرف ایک پٹواری کا قصہ نہیں ہے‘ سبھی پٹواری اسی مرحلے سے گزرہے ہیں۔ میں اس ایم پی اے اور اس طرح کے تمام منتخب نمائندوں کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے پٹواریوں کے بھی کڑاکے نکال دیے ہیں اورسلام پیش کرتا ہوں خادم اعلیٰ کی گڈگورننس کو کہ ان کی براہ راست رعایا یعنی ممبران صوبائی اسمبلی نے پٹواری جیسے فرعون صفت عہدیدار کو بلبلانے پر مجبور کردیا ہے ۔ لیکن ان ساری فتوحات میں مفتوح عوام کا کوئی والی وارث نہیں کہ پٹواری ماہانہ ادائیگی کا سارا بوجھ لاوارث اور بے وسیلہ سائلوں سے وصول کررہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved