تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     29-09-2013

کنفیوژن سے نکلنا ضروری ہے

خارجہ پالیسی کے نئے اور واضح خدوخال ترتیب دینااس وقت اتنا ہی ضروری ہے جتنا ملک کے اندرونی معاملات کی رفوگری کرنا، اس لیے کہ وطن عزیز دہشت اور وحشت کے جس بدترین دور سے گزررہا ہے اس میں تمام تراندرونی مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب تک ہم گھر کی دہلیز کے باہر امڈتے ہوئے طوفانوں کا مقابلہ کرنا نہ سیکھیں۔ اس وقت ملک کو درپیش سب سے بڑا اور اہم مسئلہ دہشت گردی ہے جس نے میرے وطن کے امن وسکون کو آکٹوپس کی طرح اپنے منحوس پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب دہشت گردی کا کوئی بڑا سانحہ قومی منظر نامے کو لہولہان نہیں کرتا۔جولوگ اس قتل وغارت میں براہ راست اپنے عزیزاور گھربار کھودیتے ہیں، ان کا نقصان تو پوری عمر پورا نہیں ہوتا جبکہ ایسی کسی واردات میں بچ جانے والے بھی ذہنی اور روحانی طورپر لہولہان ہوجاتے ہیں۔ اس طرح پورا ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی اس مسئلے کا صحیح ادراک کیا ۔انہوں نے درست کہاکہ جب تک دہشت گردحملوں کو نہ روکا گیا‘ ملک کی کسی بھی محاذ پر ترقی ناممکن ہے ۔معیشت کے محاذ پر بھی اس وقت تک پسپائی ہوتی رہے گی جب تک وطن عزیز میں مکمل امن وسکون کی صورت حال پیدا نہیں ہوجاتی۔ بیرونی سرمایہ کاری کو جب تک تحفظ نہیں ملے گا سرمایہ کار یہاں نہیں آئے گا ۔اب تو صورت حال یہ ہے کہ بھتہ خوروں کی دہشت گردی کے شکار کئی کاروباری خاندان کراچی سے بیرون ملک ہجرت کرچکے ہیں۔ صورت حال بلاشبہ گمبھیر ہے۔ نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے دہشت گردی کے ایشو پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تمام سیاسی جماعتوں کا کسی ایک نقطے پر متفق ہونا باقی ہے ۔ طالبان کے معاملے پر ابھی تک کنفیوژن موجود ہے ۔چند مذہبی جماعتیں طالبان کے لیے ’’نرم گوشتہ‘‘ رکھتی ہیں،ان کی طرف سے خودکش حملوں کے خلاف ٹھوس اور سخت موقف سامنے آنا چاہیے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ طالبان جوکچھ اسلام اور شریعت کے نام پر کررہے ،وہ اسلام اور شریعت کے خلاف ہے۔ ایسا کرنے والوں کے اسلام سے تعلق کا تعین ہونا چاہیے۔ جو دہشت گرد مسجد میں نماز پڑھتے نمازیوں پر حملے کریں، چرچ میں عبادت کرنے والے پرامن عیسائی بھائیوں کو خون میں نہلا دیں‘ ان کا اسلام سے کیا تعلق ہوسکتا ہے ؟ جو ہسپتالوں میں بیماروں پر خودکش حملے کریں ، وہ کس طرح کے مسلمان ہیں ؟یہ حدیث پاک پیش نظر رہنی چاہیے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ بے گناہ مردوں، نہتی عورتوں ،معصوم بچوں کا خون بہانے والا کس طرح مسلمان کہلانے کا حق دار ہوسکتا ہے ؟ ریاست کے آئین کو مدنظر رکھیں تو بھی ملک میں کسی ایسے گروہ کی گنجائش موجود نہیں ہے جو ریاست کے آئین کو پامال کرتے ہوئے ہتھیار اٹھالے۔ طالبان نے تو ملک میں وحشت اورقتل وخون کا بازار گرم کررکھا ہے۔ وہ فوج ، پولیس اور عام شہریوں کو بم سے اڑانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں ۔ایسے گروہ سے مذاکرات اس وقت تک نہیں ہونے چاہئیں جب تک وہ ہتھیار پھینک نہ دیں۔شاید طالبان جیسے شدت پسندوں سے اس بات کی توقع کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔ اس الجھے ہوئے ایشو کو ہراس راستے سے حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے جو اس کے سلجھائو کی طرف جاتا ہو۔ایک راستہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خدوخال امریکہ کے زیر اثر نہ ہوں ۔ ڈرون حملوں سے پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کو گہرے گھائو لگتے ہیں، ان حملوں سے قبائلی علاقوں میں بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔ جنازوں سے لے کر شادی بیاہ کی تقریبات پر امریکی ڈرون گرے اور تباہی مچائی۔ ان حملوں کے خلاف صرف متاثرہ خاندانوں میں غم وغصہ موجود نہیں بلکہ ہرسچا پاکستانی انہیں پاکستان کی سلامتی پر حملہ سمجھتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں ڈرون کے ایشوز کو بھی اٹھایا اور واضح پیغام دیا کہ امریکہ ڈرون حملے بند کرے۔ڈرون حملوں کے خلاف امریکہ میں بھی ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو اسے وارکرائم کا درجہ دیتی ہیں۔ وزیراعظم نے نرم لہجے میں اپنا موقف بیان کیا ؛حالانکہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے بہتر انداز میں بھی اس معاملے کی سنگینی بیان کرسکتے تھے۔ وہ بتا سکتے تھے کہ کس طرح کسی ایک بستی پر گرنے والا ڈرون اس بستی کے تمام لوگوں کی نفسیات بدل کر رکھ دیتا ہے۔ عدم تحفظ، جنگ اور موت کا خوف تمام عمر ایسے افراد کا پیچھا کرتا ہے۔ ان کی زندگیوں کو اذیت اور تکلیف سے دوچار کرنے والوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنا ضروری ہے۔ عالمی طاقتوں کے سامنے اپنے ملک کی حالت زار بیان کرتے ہوئے وزیراعظم کا لہجہ زیادہ محکم ہونا چاہیے تھا۔یہ معاملہ نرم لہجے اور شیریں گفتاری کا ہرگز متقاضی نہیں۔ طالبان کی دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑپھینکنے کے لیے ان کے ساتھ کھلی جنگ ایک اہم آپشن ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ اس سے بات چیت کے ذریعے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت تمام اہم چھوٹی بڑی اسلامی جماعتوں کو یک زبان ہوکر اعلان کرنا چاہیے کہ ایسے لوگوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا جو بے گناہوں کا خون بہائیں۔ ایسے لوگوں کو طالبان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ لفظ طالبان تو طالب علم سے نکلا ہے یعنی علم کی خواہش اور طلب رکھنے والا۔ علم روشنی ہے مگر یہ شرپسند بدامنی، موت اور خوف کے اندھیرے پھیلاتے ہیں اور اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔ اس معاملے پر کنفیوژن سے نکل کر صاف صاف اور دوٹوک موقف اختیار کرنا بے حدضروری ہے۔ اسی سے ہم خارجہ محاذ پر سراٹھا کر جی سکیں گے اور اندرونی معاملات کی صحیح رفوگری بھی کرنے کے قابل ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved