''رات کے دس بجے ایک ملازم نے دروازہ کھٹکھٹایا اور بتایا کہ کچھ جرنیل ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے فوراً ڈریسنگ گاؤن پہنا اور کمرے سے باہر نکلا۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ باغ اور برآمدوں میں بہت سے فوجی سٹین گنیں اور ریوالور لیے گھوم رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔ میں گراؤنڈ فلور پر گیا تو وہاں تین جرنیل کھڑے تھے۔ شیخ‘ اعظم خان اور برکی۔ میجر جنرل شیر بہادر بھی موجود تھا۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ایک نازک مسئلے پر بات کرنے آئے ہیں اور یہ کہ مجھے پاکستان چھوڑنا ہوگا۔ میں نے پوچھا کیوں؟ ان کا جواب تھا کہ یہی ملک کے مفاد میں ہے۔ ان کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ دوسرے دن کے اخبارات میں دو خبریں چھپیں۔ ایک یہ کہ نئی کابینہ میں جنرل ایوب خان نے وزیراعظم کا منصب قبول کر لیا ہے۔ دوسری یہ کہ میں مستعفی ہو گیا ہوں اور صدارت کا عہدہ جنرل ایوب خان نے سنبھال لیا ہے۔ اس تضاد سے دنیا والوں نے نہ جانے کیا نتیجہ نکالا ہو گا۔ بندوق کی نوک پر میرا استعفیٰ لینے کے بعد جرنیل چلے گئے اور باقی کا گندا کام شیر بہادر کے سپرد کر گئے جو بہت بداخلاق تھا۔ اس نے ایوانِ صدر ہم سے خالی کرانے کے لیے افراتفری مچا دی۔ میری اہلیہ کو ڈرانے کے لیے اسلحہ کی خوب نمائش کی گئی مگر وہ بالکل خوفزدہ نہ ہوئی۔ ہم نے ایک گھنٹے کے اندر اندر سامان باندھ لیا۔ فوجی گاڑیوں کا ایک قافلہ ہمیں ایئر پورٹ لے گیا۔ وہاں میری ملاقات امریکی سفیر مسٹر لانگ لے سے ہوئی جو میرے ذاتی دوست تھے۔ وہ پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ ایئر کموڈور اصغر خان بھی موجود تھے اور دکھی دکھائی دے رہے تھے۔ ایک ٹرانسپورٹ طیارے کے ذریعے ہمیں کوئٹہ پہنچایا گیا جہاں ہمیں مقامی انتظامیہ کے سربراہ کے گھر رکھا گیا۔ وہاں ہمارا قیام پانچ یا چھ دن کے لیے تھا۔ آخر کار ہمیں بتایا گیا کہ اگلے دن یعنی دو نومبر کو‘ ہم کراچی سے انگلینڈ کے لیے روانہ ہوں گے۔ کوئٹہ سے روانہ ہونے سے پہلے میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ دو افراد مجھے کراچی ایئر پورٹ پر ملیں۔ میرا داماد محمود مرزا اور حسن اصفہانی۔ میری اس خواہش کی انہوں نے کوئی پروا نہ کی‘ تاہم خوش قسمتی سے انگلینڈ روانگی سے پہلے دونوں سے ہماری ملاقات ہو گئی۔ میرا داماد پی آئی اے میں ملازم تھا اور اُس وقت ڈیوٹی کے لیے ایئر پورٹ پر تھا جبکہ اصفہانی اور ان کی بیگم اپنی بیٹی کے استقبال کے لیے آئے ہوئے تھے جو لندن سے آرہی تھی۔ ہمیں ایئرپورٹ پر سات گھنٹے انتظار کرنا پڑا کیونکہ بی او اے سی کے طیارے کے انجن میں کوئی مسئلہ تھا۔ بالآخر ہم کے ایل ایم کے طیارے میں سوار ہوئے جس نے ہمیں ایمسٹرڈیم پہنچایا۔ ایمسٹرڈیم سے ہم لندن آئے۔ مناسب گھر تلاش کرنے تک ہمیں کچھ دن ہوٹل میں ٹھہرنا پڑا۔ اگر ہمارے دوست ہماری مدد نہ کرتے تو ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ پاکستان چھوڑنے سے پہلے ہمارے پاس جو کچھ تھا‘ روپیہ پیسہ اور دیگر قیمتی اشیا سب کچھ ضبط کر لیا گیا۔ میرے ذاتی کاغذات اور ڈائریاں بھی چھین لی گئیں۔ سو اس طرح میرے ملک کے لیے میری خدمات کا خاتمہ کیا گیا یعنی جلاوطنی کسی وارننگ کے بغیر!‘‘۔
یہ اقتباس پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کی خود نوشت سے ہے جو Honour-bound to Pakistan in Duty, Destiny & Death, Iskander Mirza's Memoirs from Exileکے عنوان سے حال ہی میں کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ اس خود نوشت کے دیباچے میں سید خاور مہدی نے لکھا ہے کہ وفات سے ایک سال پہلے اسکندر مرزا نے جنرل یحییٰ خان سے درخواست کی تھی کہ انہیں پاکستان واپس آنے کی اجازت دی جائے مگر یحییٰ خان نے انکار کر دیا۔ بعد میں اسکندر مرزا کی بیٹی تاج امام نے بھی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئی۔ اسکندر مرزا کی تدفین تہران میں ہوئی جہاں شاہِ ایران کی حکومت نے پورے ملٹری پروٹوکول کے ساتھ سرکاری سطح پر تدفین کی۔
یہ خود نوشت جو اس سال (2023ء) میں شائع ہوئی ہے‘ نصف صدی سے زیادہ عرصہ اخفا میں رہی۔ یوں یہ جتنی پرانی ہے‘ اتنی ہی نئی ہے۔ تاریخِ پاکستان کے طالب علموں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے کیونکہ اسکندر مرزا کے خلاف زیادہ تر یکطرفہ پروپیگنڈا ہی پیش منظر پر رہا۔ اسکندر مرزا کو نکالنے والے جنرل ایوب خان ایک عشرے تک سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ اُس دور میں اسکندر مرزا کی بات کون سنتا؟ اب جب اسکندر مرزا کا مؤقف تفصیل سے سامنے آیا ہے تو غیر جانبدار مؤرخین کا فرض ہے کہ تاریخ کا یہ افسوسناک باب از سر نو لکھیں!
کتاب میں اسکندر مرزا نے اپنی پیدائش سے لے کر جلاوطنی تک کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ مارشل لا لگانے کے ذمہ دار وہ خود تھے۔ وہ لکھتے ہیں ''مارشل لا لگانے کے لیے مجھ پر آرمی کی طرف سے کوئی دباؤ نہ تھا۔ مارشل لا کا اعلامیہ میں نے اپنے ہاتھ سے کسی کی مدد کے بغیر لکھا۔ اسے جاری ہونے سے چند گھنٹے پہلے ہی ٹائپ کیا گیا‘‘۔ اس کے بعد اسکندر مرزا نے پورا اعلامیہ نقل کیا ہے جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔ اعلامیہ کا آخری حصہ یوں ہے:
اے۔ 23مارچ 1956ء کا آئین منسوخ کیا جاتا ہے۔
بی۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں فی الفور بر طرف کی جاتی ہیں۔
سی۔ قومی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی جاتی ہیں۔
ڈی۔ تمام سیاسی جماعتیں ختم کی جاتی ہیں۔
ای۔ جب تک متبادل انتظامات نہیں کر دیے جاتے‘ پاکستان میں مارشل لا نافذ رہے گا۔ میں جنرل محمد ایوب خان کمانڈر انچیف پاکستان آرمی کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کرتا ہوں اور پاکستان کی تمام مسلح افواج کو اس کی کمانڈ میں دیتا ہوں۔
اسکندر مرزا نے اپنی ان یادداشتوں میں لیاقت علی خان کی تعریف کی ہے مگر ان کی لائی ہوئی قراردادِ مقاصد پر تنقید کی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اس سے مذہبی طبقات طاقتور ہوئے۔ ون یونٹ کے بارے میں لکھتے ہیں ''ہر کسی پر یہ بات ظاہر تھی کہ ون یونٹ سے سب سے زیادہ فائدہ پنجابیوں نے اٹھایا۔ ان کا دارالحکومت لاہور‘ سیاسی مرکز بن گیا۔ اسمبلی پر ان کا غلبہ تھا اور سول سروسز پر بھی! پٹھان اپنی آزاد طبیعت کے سبب اس نئے سیٹ اَپ سے سمجھوتہ نہ کر سکے۔ عبد الغفار خان نے سندھی لیڈر جی ایم سید کے ساتھ ایکا کر لیا تاکہ ون یونٹ کو ختم کر نے کے لیے عوامی تحریک چلائی جا سکے۔ اسکندر مرزا نے کچھ ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جو آج شاید ہضم نہ کی جا سکیں مگر یہ باتیں غور و فکر کو دعوت دیتی ہیں۔ آج ہم جس انتہا پسندی کا سامنا کر رہے ہیں اس کی ابتدا کب ہوئی اور کن کے ہاتھوں ہوئی؟ اس کا کچھ سراغ اس خود نوشت میں ملتا ہے۔ اسکندر مرزا فرشتہ تھے نہ جنرل ایوب خان! مگر ایک مستحکم پاکستان کے لیے لازم ہے کہ تاریخ کا تجزیہ بے لاگ اور سفاک غیر جانبداری کے ساتھ کیا جائے۔ تاریخ میں اہمیت شخصیات کی نہیں‘ ان کے کاموں اور رویوں کی ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved