الطاف احمد اعظمی صاحب سے میرا پہلا تعارف ان کی کتاب ''احیائے ملت اور دینی جماعتیں‘‘ سے ہوا۔
دینی تحریکیں ابتدا ہی سے میری دلچسپی کا موضوع ہیں۔ اس کتاب کا عنوان‘ لازم تھا کہ اپنی طرف متوجہ کرتا۔ یہ ضخیم کتاب جماعت اسلامی‘ تبلیغی جماعت اور جمعیت علمائے ہند کا تنقیدی مطالعہ ہے۔ یہ تینوں تحریکیں برصغیر کی مسلم روایت کا مشترکہ ورثہ ہیں۔ اس لیے اس باب میں بھارت میں کچھ لکھا جائے یا پاکستان میں‘ سرحد کے دونوں طرف بسنے والے مسلمان کے لیے یکساں دلچسپی کا حامل ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اور پہلے‘ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے ہند کی حکمتِ عملی میں واضح فرق ہے۔ اس کا سبب دونوں کا سیاست سے تعلق ہے۔ تقسیم کے بعد یہ ممکن نہیں تھا کہ پہلے کی حکمتِ عملی کو جاری رکھا جاتا۔ جماعت اسلامی اگرچہ اسی نام سے دونوں ممالک میں کام کرتی رہی لیکن جمعیت علمائے ہند‘ پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام کے نام سے متحرک ہوئی۔
تبلیغی جماعت نے چونکہ دعوت کو اپنا میدان بنایا اور سیاست سے گریز کیا‘ اس لیے اسے اپنی حکمتِ عملی میں کسی جوہری تبدیلی کی ضرورت نہیں پڑی۔ ان کا ایک عالمگیر نظم تھا جو قائم رہا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے ہند کی آئیڈیالوجی وہی رہی جو پہلے تھی۔ جمعیت علمائے اسلام کے تمام دھڑے اپنا فکری اور نظریاتی تعلق جمعیت علمائے ہند ہی کے ساتھ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے بھارت سے تعلق رکھنے کے باوصف‘ اعظمی صاحب کا یہ مطالعہ ہمارے لیے بھی اسی طرح دلچسپی کا باعث ہے جس طرح کسی بھارتی مسلمان کے لیے۔
الطاف احمد اعظمی صاحب مدرسۃ الاصلاح‘ سرائے میر‘ اعظم گڑھ کے فارغ التحصیل تھے۔ طبیب بھی تھے۔ جامعہ ہمدرد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ مدرسۃ الاصلاح کو اس خطے کے جلیل القدر عالم امام حمید الدین فراہی کے ساتھ نسبت ہے۔ یہ خطہ اس پر ہمیشہ ناز کرے گا کہ گزشتہ کئی صدیوں میں قرآن مجید کے سب سے بڑے عالم نے اس سرزمین پر جنم لیا۔ امام فراہی ایک مخفی خزانے کا نام تھا۔ ان کے شاگرد امام امین احسن اصلاحی نے‘ جو خود بھی قرآن مجید کے ایک بڑے عالم تھے‘ اس خزانے سے صحیح معنوں میں دنیا کو متعارف کرایا جب ان کی تفسیر 'تدبرِ قرآن‘ منصہ شہود پر آئی۔
یہ کہنا تو مشکل ہے کہ مولانا اصلاحی جیسا‘ امام فراہی کے علم کا کوئی وارث پیدا ہوا لیکن اس میں شبہ نہیں کہ ان کے علم و فضل سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد اب کم نہیں ہے۔ بہت سے ذی علم ہیں جنہوں نے حسبِ توفیق ان کے علم سے اپنا دامن بھرا اور پھر اس کا ابلاغِ عام کیا۔ مولانا شبلی نعمانی‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ سید سلیمان ندوی‘ مولانا عبید اللہ فراہی‘ مولانا سلطان احمد اصلاحی‘ ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی جیسے کئی معتبر علمی نام ہیں جو اس چشمۂ فیض سے سیراب ہوئے۔ان لوگوں نے روایت کے ساتھ تعلق کو نبھاتے ہوئے‘ تفہیمِ دین اور فکرِ اسلامی کے باب میں نئی راہیں دریافت کیں‘ تاہم امام فراہی نے تدبرِ قرآن کی جو روایت قائم کی‘ اس کے حقیقی وارث دو ہی ہیں: مولانا امین احسن اصلاحی اور جناب جاوید احمد غامدی۔ یہ شرف پاکستان کے حصے میں آیا کہ امام فراہی کی دکھائی راہ پر چلتے ہوئے ان حضرات نے فہمِ قرآن کی اس منفرد روایت کو ایک مکتبِ فکر میں بدل دیا۔ اب یہ روایت اس مقام پر کھڑی ہے کہ علومِ دین اور فہمِ دین کے باب میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب دے سکتی ہے۔
الطاف احمد اعظمی صاحب نے اس روایت کو اپنے تئیں آگے بڑھایا جس کا ایک مظہر وہ کتاب ہے جس کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا۔ جماعت اسلامی کے بارے میں ان کا نتیجۂ فکر وہی ہے جو مولانا وحید الدین خاں کا ہے۔ مولانا مودودی نے حکومتِ الہیہ کے قیام کو جس طرح ایک دینی فریضہ قرار دیا ہے‘ وہ اسے درست نہیں سمجھتے۔ تبلیغی جماعت پر ان کا تبصرہ ہے ''مولانا محمد الیاس کی دعوت بعض نقائص کے باوجود اصولی اعتبار سے بالکل درست اور قرآن و سنت کے مطابق تھی۔ لیکن اس مردِ مومن کے انتقال کے بعد تبلیغی جماعت مولانا محمد زکریا کے زیرِ اثر آگئی اور یہیں سے جماعت کا فکری اور عملی زوال شروع ہوا‘‘۔
جمعیت علمائے ہند کے بارے میں اعظمی صاحب کا کہنا ہے کہ ''اس کا سیاسی نصب العین ملک کی مکمل آزادی اور مذہبی نصب العین اسلام کے انفرادی اور اجتماعی احکام کی تنفیذ تھا‘‘۔ انگریزوں کے جانے کے بعد سیاسی نصب العین ختم ہو گیا اور مذہبی بھی تبدیل ہو گیا۔ اعظمی صاحب اس باب میں ایک اہم بات کہتے ہیں: ''آزادی کے بعد مولانا آزاد نے لکھنؤ میں مسلمانوں کے اصحاب الرائے کی جو کانفرنس منعقد کی‘ اس میں دیگر امور کے علاوہ یہ بھی طے پایا کہ مسلمانوں کی تمام سیاسی جماعتیں تحلیل کر دی جائیں۔ اس فیصلے کے مطابق جمعیت العلما کا سیاسی وجود ختم ہو گیا۔ اس کے ذمہ داروں نے اعلان کیا کہ اب جمعیت العلما کا دائرہ کار مسلمانوں کے مذہبی اور تعلیمی امور تک محدود رہے گا لیکن عملاً اس نے اس فیصلے کی پابندی نہیں کی اور برابر الیکشن کے موقع پر کانگرس کی حمایت میں سرگرمی دکھائی اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے‘‘۔ یہ کتاب ایک ایسے صاحبِ نظر عالم کا تجزیہ ہے جو بھارتی مسلمان ہے اور اُس سرزمین پر مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے۔
''وحدت الوجود: ایک غیر اسلامی نظریہ‘‘ اعظمی صاحب کی دوسری کتاب ہے جو میری نظر سے گزری۔ فراہی مکتبِ فکر نے تصوف کو جس طرح موضوع بنایا‘ وہ بھی بہت اہم ہے۔ چونکہ اس مکتبِ فکر میں قرآن مجید اور سنت ہی کو اصل دین سمجھا جاتا ہے‘ اس لیے اس اصول پر تفسیر‘ علمِ حدیث‘ کلام‘ فقہ اور تصوف سمیت مسلم علمی روایت کے ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اردو زبان میں تصوف پر ڈاکٹر غلام قادر لون کی ''مطالعہ تصوف؛ قرآن وسنت کی روشنی میں‘‘ سے بہتر کتاب نہیں لکھی گئی۔ تصوف کی امہات الکتب سے براہِ راست استفادے کے بعد لکھی گئی یہ کتاب اس کو علمی اعتبار سے وقیع بنا دیتی ہے۔ اس کا مقدمہ مولانا سلطان احمد اصلاحی نے لکھا ہے۔ اعظمی صاحب کی کتاب اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ اعظمی صاحب کی یہ کتاب محققانہ ہے مگر اسے پڑھتے ہوئے میں ایک عقدہ حل نہیں کر سکا۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے شیخ احمد سرہندی کے نام کیا۔ ان کے بارے میں انہوں نے کتاب میں شاہ ولی اللہ کی یہ رائے بھی نقل کی کہ شیخ کا تصور وحدت الشہود‘ جوہری اعتبار سے وحدت الوجود ہی ہے۔ یہ محض ایک لفظی نزاع ہے۔ اس کے باوصف اعظمی صاحب کا خیال ہے کہ شیخ احمد نے وجودی تصوف کے سامنے بند باندھا ہے۔ ان دو باتوں میں تطبیق مشکل ہے۔ ان دونوں بزرگوں کے تصوف پر سب سے اچھا تبصرہ مولانا مودودی نے 'تجدید و احیائے دین‘ میں کرد یا ہے۔ اعظمی صاحب معلوم ہوتا ہے کہ اس سے متفق نہیں۔
الطاف اعظمی صاحب نے خطباتِ اقبال کا تنقیدی مطالعہ بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید سے علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں جو استدلال کیا ہے‘ وہ درست نہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے 'تسہیلِ خطبات‘ میں اس تنقید کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر ایوب صابر مرحوم نے اس کا جواب لکھا ہے۔ اعظمی صاحب نے ''میزان القرآن‘‘ کے عنوان سے قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی جو میری نظر سے نہیں گزری۔ ان کی جن کتابوں کا میں نے ذکر کیاہے‘ وہ پاکستان میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی لکھی کتب کی فہرست طویل ہے۔ ہماری علمی روایات کو اپنے علمی کمالات سے مالامال کرنے والے یہ بڑے عالم‘ 12اگست کو دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت سے نوازے اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved