علامہ محمد اقبالؒ کو اللہ نے جو بصیرت عطا فرمائی تھی اس کا ماخذ صرف اور صرف قرآن حکیم تھا جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے اس فارسی شعر میں کیا ہے ؎ گر دلم آئینۂ بے جوہر است گر بحرفم غیرِ قرآں مضمر است ’’اگر میرے دل کے آئینے میں کوئی خوبی نہیں ہے، اگر اس میں قرآن کے سوا کوئی حرف بھی چھپا ہوا ہے‘‘، اس دعوے کے بعد وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ میری عزت و ناموس کا پردہ چاک کردے اور مجھے روزِمحشر رسوا کر دے۔ یہ دعویٰ یقیناً اقبال کے کلام میں غوطہ زن ہونے کے بعد ہی سچا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقبال نے مغربی تہذیب اور موجودہ دور کے سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی نظام کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھا اور پھر اسے کھوٹا، جعلی اور انسانیت کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا۔ اقبال جس زمانے میں امت مسلمہ کو بیدار کررہے تھے اس دور میں یہ نظام اپنی جڑیں پکڑ رہا تھا۔ مسلمانوں کی مرکزیت کی علامت ’خلافت‘ منہدم کی جا چکی تھی اور اس کی جگہ پوری دنیا کو سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ سود‘ جو کبھی ایک انفرادی معاملہ ہوتا تھا‘ کو بینکوں کے ایک وسیع تر نظام، جعلی کاغذ کے نوٹ اور حکومتی قرضوں کے ذریعے مستحکم کردیا گیا تھا۔ پوری دنیا میں خواتین کے حقوق کے نام پر عورتوں کی ایک عالمگیر تحریک نے جنم لے لیا تھا۔ اللہ کی حاکمیت کی جگہ عوام اور پارلیمنٹ کی حاکمیت پر مبنی جمہوری نظام ایک میٹھے زہر کی طرح پھیل چکا تھا۔ اقبال کی نگاہِ تیز سمجھتی تھی کہ یہ سب کچھ ا چانک نہیں ہورہا بلکہ یہ ایک مکمل نظام کے نفاذکی مربوط شکلیں ہیں۔ یہ پورا نظام جو سود کی لعنت اور مصنوعی کرنسی سے حاصل کی گئی دولت کے گرد گھومتا ہے، اسے اقبال نے جب قرآن کی کسوٹی پر پرکھا تو انہوں نے اس نظام کے ہر تصور یعنی جمہوریت، بینکاری، قومی ریاستیں، اور نسوانی نمائش کے مکروہ جال کا ردّ کیا۔ یہ نظام کس کا ہے۔ اقبال جب قرآن کی سورت الانبیاء کی آیات نمبر 96,95 میں بیان کردہ حقیقت کو دیکھتے ہیں تو یہ شعر تخلیق کرتے ہیں ؎ کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام چشمِ مسلم دیکھ لے تفسیر حرفِ ’’ینسلون‘‘ یہ آیات یوں ہیں ’’اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا ہو پھر وہ وہاں پلٹ آئیں، یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں۔‘‘ یہ یاجوج اور ماجوج کون ہیں؟ پوری امت مسلمہ اس سوال پر گنگ ہے۔ لیکن قرآن تو واضح ہے۔ ان کی نشانی بتاتے ہوئے اللہ سورہ کہف میں فرماتا ہے۔ ’’ اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج اس زمین میں فساد پھیلانے والے لوگ ہیں (کہف۔94)۔ چونکہ یاجوج اور ماجوج نے زمانۂ آخر میں فساد پھیلانا تھا اس لیے ذوالقرنین نے ان پر ’’آرمی ایکشن‘‘ نہیں کیا بلکہ دو پہاڑوں کے درمیان درے میں تانبے اور لوہے کی ایک دیوار بنا دی اور فرمایا کہ یہ اسے اس وقت تک عبور نہیں کرسکتے جب تک اللہ اس کا اذن نہ دے۔ اب قرآن پاک کی سورۃ الانبیاء کی آیات میں دی گئی قوم کو تاریخ کے حوالوں سے دیکھیں کہ یہ کون سی قوم ہے جو اپنے علاقے میں واپس آچکی ہے۔ بنی اسرائیل پر اللہ اپنے عذاب کا ذکر بہت تفصیل سے فرماتا ہے اور واضح کرتا ہے۔ ’’اور ہم نے دنیا میں ان کو مختلف جماعتوں میں بانٹ دیا‘‘۔ یہ وہ واحد قوم ہے جن کی بستی ایسے تباہ نہیں کی گئی کہ کوئی بھی زندہ نہ بچے‘ جیسے عاد و ثمود، بلکہ انہیں بخت نصر نے حملہ کرکے تباہ و برباد کردیا اور یہ پوری دنیا میں پھیل گئے اور دو ہزار سال تک مختلف ملکوں کی خاک چھانتے رہے۔ یہ بستی مقدس یروشلم ہے‘ جس کے اردگرد یہودی پہلی جنگ عظم کے بعد 1920ء کے آس پاس واپس آ کر آباد ہونا شروع ہوئے۔ اس آباد کاری میںان کے ساتھ عالمی طاقتوں نے بالفور معاہدہ کیا تھا۔ یہ قرآن کی بتائی گئی بستی میں واپس آگئے ہیں تو پھر یاجوج اور ماجوج کو تو پوری دنیا پر چھا جانا چاہیے تھا۔ بلندیوں سے انہیں دنیا میں گھس آنا چاہیے تھا۔یہ یاجوج اورماجوج کون ہیں؟ یہ ہے وہ سوال جسے اقبال نے اپنے اس شعر میں حل کیا ہے اور چشمِ مسلم کو کہا ہے کہ قرآن کے لفظ ’’ینسلون‘‘ کی ‘تفسیر دیکھ لے۔ یہ کون ہیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اللہ نے بنی آدم کو دس حصوں میں تقسیم کیا۔ ان میں نو حصے یا جوج ماجوج بنائے اور ایک حصہ باقی سارے لوگ‘‘ (مستدرکِ حاکم)۔ یعنی یہ بنی آدم میں سے ہیں، پھر فرمایا ’’اگر انہیں کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ لوگوں پر ان کے معاش میں فساد پھیلائیں (طبرانی)‘ یعنی اس دنیا کا سودی نظام، کارپوریٹ کلچر اور کمیونسٹ معیشت سب ان کے فساد کی علامتیں ہیں۔ یہ کب سے آزاد ہونا شروع ہوئے؟ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ روایت کے مطابق سیدہ زینبؓ بنت جحش فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ان کے پاس گھبرائے ہوئے آئے اور فرمایا ’’عربوں کی خرابی ہے اس شر سے جو قریب آگیا ہے‘‘۔ پھر انگلی اور انگوٹھے کا ا شارہ کرتے فرمایا ’’آج اس کے برابر یاجوج اور ماجوج نے دیوار میں سوراخ کرلیا ہے‘‘۔ تاریخ یہاں ایک واقعے کا ذکر کرتی ہے کہ کوہ قاف کے دامن‘ جہاں ذوالقرنین نے دیوار بنائی تھی‘ میں آباد ایک قبیلے نے انہی دنوں یہودیت کو مذہب کے طور پر اختیار کرلیا۔ آج ان یورپی یہودیوں کی نسل اس قدر بڑھ چکی ہے کہ تمام دنیا کے یہودیوں میں اصل بنی اسرائیل ایک فیصد ہیں اور یہ ننانوے فیصد۔ یہی وہ یہودی ہیں جنہوں نے 1896ء میں صیہونیت کی بنیاد رکھی اور مشہورِ عالم پروٹوکول (Protocols) تحریر کیے جس کے بعد انہوں نے تین معاملات میں ترقی کرنے اور ان پر قبضہ کرنے کا عزم کیا۔ (1) معاشی ادارے (2) سائنس اور ٹیکنالوجی اور(3) میڈیا۔ اس کے بعد دنیا بھر کے مفکرین، سائنسدان، میڈیا کے مالکان‘ بینکوں کے ماہر اور کارپوریٹ کلچر کے کرتا دھرتا، سب کے سب انہیں میں سے آئے۔ صرف نوبل انعامات کی فہرست، میڈیا مالکان کے نام، بینکوں کے کرتا دھرتا اور کارپوریٹ کمپنیوں کے مالکان کی فہرستیں اٹھا لیں ‘آپ کو ثبوت مل جائے گا۔ انہوں نے وہی کیا جو رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا‘ ’’اگر انہیں کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ لوگوں کے معاش میں فساد پھیلائیں گے۔‘‘ قرآن بھی انہیں فساد پھیلانے والے یعنی مفسدین کے نام سے یاد کرتا ہے۔ فساد پھیلانے والوں کی تعریف اللہ کریم نے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں کھول کر فرما دی۔ ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ مچائو تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘ (البقرہ۔11) جنگ عظیم اول، دوم بھی امن قائم کرنے اور فسطائی نظریات کے لیے ہوئیں‘ ویت نام، جنوبی امریکہ کے دو درجن ممالک، عراق، افغانستان ہر جگہ یہ لوگ امن قائم کرنے کے نام پر چڑھ دوڑے۔ یہ لوگ صرف چند لاکھ یہودی نہیں بلکہ وہ پورا عالمی نظام ہے جو اس پوری دنیا میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔ چونکہ یاجوج اور ماجوج دجاّل کی آمد سے پہلے اس کے پورے نظام کومضبوط کرنے کے لیے نکالے گئے ہیں‘ اس لیے انہوں نے پوری دنیا کو اپنے نظام کا اسی طرح غلام بنا لیا ہے جیسے رسول اللہﷺ نے فرمایا‘ ’’آدمی صبح کافر ہوگا اور شام کو مسلمان۔‘‘ (مسند احمد) صبح وہ سود کے بینکاری نظام کو سجدہ کرتا ہے اور رات کو اللہ کے حضور۔ رات کو ٹیکنالوجی کو خدا مانتا ہے اور صبح اللہ کو۔ پارلیمنٹ میں بیٹھتا ہے تو اسے سپریم اور بالاتر سمجھتا ہے، اسے قانون کا ماخذ بتاتا ہے اور قرآن پڑھتے ہوئے اللہ کوسپریم کہتا ہے اور قرآن کو قانون کا ماخذ بتاتا ہے۔ ریاست اقتدار اعلیٰ کی علامت ہے جبکہ اللہ نے اقتدار اعلیٰ کو اپنے لیے خاص کرتے ہوئے اپنے آپ کو’’ الملک‘‘ کہا ہے۔ یاجوج اور ماجوج سے ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ رسول اللہﷺ نے یہ بتائی ۔ بخاری اور مسلم کی سیدہ زینبؓ والی حدیث کے آخر میں انہوں نے پوچھا ’’یارسول اللہ کیاہم ہلاک ہوجائیں گے؟ حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہیں‘‘، آپؐ نے فرمایا،’’ اس وقت جب فسق و فجور کی زیادتی ہوگی۔‘‘ اس پورے نظام کی تان فحاشی و عریانی پر ٹوٹتی ہے جسے اس پورے نظام کے استحکام کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ فیشن انڈسٹری سے لے کر عریانیت‘ تک ایک سیلاب ہے اور دنیا کی سیاحت کے کسی بھی کتابچے کونکال لیں آپ کو ’’نائٹ لائف‘‘ کے نام پر ترغیبات ملیں گی۔ سب سے اہم بات قرآن کی آیت میں لفظ ’’حَدَب‘‘ یعنی بلندیوں سے حملہ آور ہوں گے۔ یہ اس فضائی برتری یا خلا سے سٹیلائٹ کے ذریعے جنگ کرنے کی صلاحیت ہے جیسے ڈرون اور دیگر آلات حرب۔ ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہم یاجوج ماجوج کے دجالی نظام میں اپنی عافیت تصور کرتے ہیں۔ امت کو اکٹھا کرکے خلافت قائم کرنے کی آواز بلند کرنے والے کو غدار کہا جاتا ہے اور قومی ریاست کے تحفظ کی قسم اٹھاتے ہیں۔ ہمارے علمائے کرام سود کے عالمی بینکاری نظام میں اپنا مصلیٰ بچھا کر اسے حلال قرار دیتے ہیں۔ کلچر، ثقافت، حقوقِ نسواں، سیاحت کی ترقی اور آزادیٔ اظہار کے نام پر فحاشی کو عام کرتے ہیں۔ ہمیں خبر تک نہیں کہ وہ وقت کتنا قریب آن پہنچا ہے۔ ہم جو قرآن کو اس کے عالمی اور ابدی تناظر کی بجائے عرب کے مخصوص حالات اور علامتوں سے سمجھتے رہے۔ خطرہ ہمارے سروں پر منڈلانے لگا ہے اور شاید یہی میرے اللہ کی منشا بھی تھی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاتھا کہ دجاّل کا خروج اس وقت ہوگا جب مساجد میں اس کا ذکر ختم ہوجائے گا۔ (رواہ عبداللہ بن الامام احمد۔ قال الہیثمی) وہ گھڑی جس سے رسول اللہﷺ پوری امت کو ڈراتے رہے‘ وہ فتنہ جس سے پناہ کی دعا اکثر تشہد میں کرتے رہے‘ ہم اس سے کس قدر غافل اور بے پروا ہیں!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved