تحریر : محمد اعجاز الحق تاریخ اشاعت     17-08-2023

صدر ضیاء الحق اور سانحہ بہاولپور

صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور شہدائے بہاولپور کا آج 35واں یوم شہادت ہے۔ یہ ساڑھے تین عشروں کا وقت کیسے گزرا‘ اور کس کرب سے ہم دوچار رہے ہیں‘ یہ المیہ اس سانحہ سے بڑھ کر ہے کہ آج بھی ہم اور شہید صدر کے لاکھوں چاہنے والے ان حقائق کی تلاش میں ہے جو صدر ضیا کے طیارے C-130 کے حادثے کا سبب بنے۔ اس حادثے کو اگر ریاستی مفادات کے محافظ کے قتل سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ہر سال 17 اگست کو جب بھی شہید صدر کے چاہنے والوں سے ملاقات ہوتی ہے کہ تو مجھے ان کے یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ ریاستی مفادات کو گہری منصوبہ بندی کے ذریعے زک پہنچائی گئی اور ایک مکروہ سازش کو کامیاب بنایا گیا۔ پاکستان کی سرزمین ایک روز ضرور یہ راز اُگلے گی اور حقائق آشکار ہو جائیں گے، ابھی مرحوم صدر کے چاہنے والوں کے ضبط کا امتحان ختم نہیں ہوا۔
صدر محمد ضیاء الحق‘ پاک فوج کے بھی سربراہ رہے ہیں‘ جنہیں ملک کے دگرگوں ہوتے ہوئے غیر معمولی حالات میں ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا تھا‘ جب وہ اقتدار میں آئے تو اس وقت سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کو بمشکل چھ سال ہوئے تھے۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی مکروہ منصوبہ بندی یہیں پر ختم نہیں ہوئی تھی‘ ہمارے پڑوس میں افغانستان کے بگڑتے ہوئے حالات اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ مکروہ سازش کے ڈانڈے پاک سرزمین کی دہلیز پر آن پہنچے ہیں اور حکومت کو اس بات کی کوئی پروا ہی نہیں تھی بلکہ وہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے عمل کو بے مقصد انداز میں طول دیتی جا رہی تھی۔ ان حالات میں جنرل ضیا کو اپنے رفقائے کار کے مشورے پر اپنی بیرک سے نکل پر اسلام آباد آنا پڑا۔ پاکستان کے کونے کونے سے بھٹو حکومت کے ستائے عوام نے انہیں ایک نجات دہندہ کے طور پر قبول کیا۔ ضیا دور میں جب ایک جانب پاکستان پر بھارت کا دبائو تھا‘ افغانستان میں روس موجود تھا‘ ملک میں افغان مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد میں آمد جاری تھی اور بھٹو حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک کے باعث آئینی اور حکومتی مشینری کے کل پرزے ڈھیلے ہو چکے تھے‘ ان سب حالات کے باوجود انہوں نے جب نظم و نسق سنبھالا تو ملک میں امن و امان کی صورتحال اور مہنگائی‘ حکومتی مشینری کے کام کرنے کی وجہ سے درست ہونا شروع ہو گئی۔ چند ماہ کے بعد ملک میں عوام نے سکھ کا سانس لینا شروع کر دیا۔ امن قائم ہوا‘ ملک بھر میں پُرامن بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور کسی بھی امیدوار کو اس کے سیاسی نظریات اور وابستگی کے باعث نااہل نہیں کیا گیا۔
صدر ضیا کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر روز راولپنڈی‘ اسلام آباد سمیت ملک کے تمام اہم بڑے شہروں اور قصبوں تک کے حالات سے براہ راست واقفیت رکھنے اور معلومات لینے کے لیے انتظامی مشینری کے علاوہ عام آدمی تک کی سطح پر رابطے کیا کرتے تھے‘ اسی لیے ان کا دور لاقانونیت اور افراتفری سے پاک رہا۔ جنہوں نے بھٹو صاحب کا دور نہیں دیکھا‘ وہ ضیاء الحق کے ملک دوست اقدامات سے آشنائی کے لیے تاریخ کا مطالعہ ضرور کریں اور اس کے بعد اپنی رائے قائم کریں۔ ان کا دور واقعی ایک مثالی دور تھا‘ یہ صورتحال ریاست کے بدخواہوں کو بھلا کہاں قابلِ قبول ہو سکتی تھی لہٰذا انہوں نے مسلسل کوشش کی کہ انہیں راستے سے ہٹایا جائے۔ صدر ضیا کے اقتدار کے دوران متعدد بار ان پر قاتلانہ حملے ہوئے اور اللہ پاک کے فضل سے وہ محفوظ رہے لیکن17 اگست 1988ء کو یہ مکروہ سازش کامیاب ہو گئی‘ اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق اپنے 29 ساتھیوں سمیت طیارے کے حادثے میں شہید ہو گئے۔
تاریخی حقائق یہ ہیں کہ 1979ء میں افغانستان پر روسی جارحیت نے پاکستان کی سلامتی اور اس کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کر دیا تھا۔ جولائی 1977ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرکے طور پر جب اقتدار سنبھالا تو روسی جارحیت کے باعث پاکستان کے لیے انتہائی تشویشناک حالات تھے‘ بھارت پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف تھا‘ روسی جارحیت کے خلاف افغانستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں افغانوں کا ساتھ دے کر ضیاء الحق مرحوم نے بھارت کے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔ پاکستان کے نظریاتی دفاع کے لیے ضیاء الحق کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔صدر ضیا نے بطور سپہ سالار، ایک منجھے ہوئے سیاستدان، مدبر اور انسان دوست سربراہ کی حیثیت سے افغان جنگ کے مسلم دنیا پر اثرات کا مقدمہ نہایت کامیابی سے لڑا اور اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ بھارت کی کوشش تھی کہ پاکستان مالی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم ہوتا چلا جائے لیکن ضیاء الحق نے مضبوط دفاع کے لیے پاکستان کی ایٹمی قوت کو معراج تک پہنچایا۔ 1979ء میں جب اشتراکی افواج جب افغان عوام پر چڑھ دوڑیں تو ضیاء الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے خوب سوچ سمجھ کر یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام کی تحریک آزادی میں مدد کرنی چاہیے۔ ضیاء الحق مرحوم نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ مل کر جو پالیسی مرتب کی اس میں ہر لحاظ سے وطن عزیز کے حقیقی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا گیا اور پوری مسلم دنیا کو بھی اپنا ہمنوا بنایا گیا۔ مسلم ممالک کی سفارتی‘ اخلاقی اور سیاسی طاقت کو بہترین توازن کے ساتھ استعمال کیا گیا اور پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کو بھی رفتہ رفتہ آگے بڑھایا۔ ایسے میں کسی نے بھارت کی آہ و بکا، واویلے اور شور شرابے پر کان نہ دھرے اور وہ روتا پیٹتا اور شور مچاتا رہ گیا جبکہ جنرل ضیاء الحق پُروقار انداز میں پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتے رہے۔ صدر ضیا نے جس ہمت، جواں مردی اور حکمت عملی سے کئی برسوں تک روسی جارحیت کا مقابلہ کیا یہ ایک طرح سے کابل کا نہیں اسلام آباد کا دفاع تھا۔ اگر خدانخواستہ روس کابل کو فتح کرلیتا تو آج پاکستان کے حالات بھی مختلف ہوتے۔ جنرل ضیاء الحق، جنرل اختر عبدالرحمن اور ان کے قریبی رفقائے کار اور ہم خیال ساتھیوں کو ایک گہری سازش کے ذریعے فضائی حادثے میں شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کی اتنی بڑی عسکری قیادت کو منظر سے ہٹا دینا بہت بڑا قومی سانحہ تھا۔ جنرل اختر عبدالرحمن اور دیگر سینئر جنرلز کو ایک سازش کے تحت ہی اس بدنصیب طیارے میں سوار کرایا گیا تھا حالانکہ یہ ملٹری قواعد و ضوابط کے خلاف تھا۔
امریکی ترجمان چارلی ولسن صدر ضیاء الحق کو قومی ہیرو اور عظیم شخصیات میں شمار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق اب تک دنیا میں پیدا ہونے والے انسانوں میں بہادر ترین انسان تھے۔ انہوں نے روس کے شدید اور بے انتہا دبائو کی مزاحمت کی جو افغان مجاہدین کا ساتھ چھوڑنے کے لیے اُن پر ڈالا گیا۔ اُنہوں نے سوویت ریچھ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس حد تک اس کا مقابلہ کیا کہ اُس ریچھ کو آنکھ جھپکنا پڑی۔ سی آئی اے کا مشہور تجزیہ کار بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سویت یونین کو شکست دینے کے لیے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان نہیں گیا‘ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کو ئی اہلکار افغانستان میں زخمی ہوا یا اس جنگ میں مارا گیا کیونکہ ہم نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ سویت یونین کے خلاف یہ جنگ صرف مجاہدین کی جنگ نہیں تھی نہ یہ سی آئی اے کی جنگ تھی۔ یہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اُس آدمی کا نام محمد ضیاء الحق تھا۔ بروس ریڈل مزید لکھتا ہے کہ ضیاء الحق وہ رہنما تھے جنہوں نے اس جنگ کے بارے میں جو بھی فیصلہ کیا‘ وہی فیصلہ کن ثابت ہوا۔ اُنہوں نے مجاہدین کو اسلحہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا‘ انہیں منظم کیا‘ انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ کس وقت جنگ میں سٹنگر میزائلز کا استعمال کرنا ہے۔
افغان جہاد کو روس اور امریکہ کی جنگ قرار دینے والے حقائق آشنا نہیں ہیں۔ یہ دفاعِ پاکستان کی ایک ایسی جنگ تھی جس میں پاک فوج کا ایک جوان بھی شہید نہیں ہوا لیکن افغان جنگ کی فتح کا سہرا پاکستان کے سر سجا۔ افغان جہاد نے خالصتان کی تحریک کو بھی جلا بخشی۔ ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں بھی جنرل محمد ضیاء الحق کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ شہید صدر نے مسئلہ کشمیر کو بھی ہر عالمی فورم پر پوری جرأت اور شدت کے ساتھ اجاگر کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved