تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-09-2013

انوکھا لاڈلا کھیلنکو مانگے چاند

پاکستان کمزور ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ کیوں ؟ ایسے میں دشمن ہمیں کیوں معاف کرے! اب ان کے بارے میں کیا کہیے ، جو حریف سے ہمدردی کی امید رکھتے ہوں ۔ امن و امان، معیشت اور سیاسی نظام کو مضبوط کیے بغیر ، نواز شریف اس معرکے میں کیونکر سرخرو ہو سکتے ہیں؟انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند! تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات تاریخ حادثات سے بنتی ہے مگر چونکا دینے والے واقعات کے پیچھے بھی اسباب و عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔ قدرت کے قوانین جو کبھی نہیں بدلتے ۔ پھر حادثات کیوں رونما ہوتے ہیں ؟ اس لیے کہ زندگی کو کائنات اور انسان کے خالق نے خیرہ کن تنوع میں پیدا کیا ہے اور انسانی ذہن تمام امکانات کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہ وہ اپنی خواہشات سے مغلوب ہو جاتا ہے ۔ چاہتاہے کہ زندگی اس کے مطلوب سانچوں میں ڈھل جائے ،مگر کیسے ڈھلے ؟ پروردگار کافرمان یہ ہے کہ ایک پتہ بھی اس کے حکم کے بغیر ہلتا نہیں ۔ فرمایا: نظر اٹھا کر دیکھو ، وہ تھک کر پلٹ آئے گی ۔ رحمٰن کی کائنات میں تم کوئی خلل نہ پائو گے ۔ تدبیر کنند بندہ ، تقدیر زند خندہ! سرکارؐ نے فرمایا کہ ہر صدی میں ایک مجدّد پیداہو گا۔ راسخون فی العلم میں سے ایک نے بتایا تھا: مجدّد وہ ہوتاہے ، جو ماضی کا ادراک رکھتا ہو ، حال پہ جس کی پوری طرح نظر ہو اور مستقبل کے لیے اشارات چھوڑ جائے۔ مدعی بہت لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ چودھویں صدی کا مجدّد صرف اقبالؔ تھا تو بعض کو ناگوار گزرتا ہے۔ کیا اقبالؔ نے یہ نہ کہا تھا کہ وہ مسلم برصغیر کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں دو مسلمان ریاستیں دیکھتے ہیں ؟ درویش کاخیال یہ ہے کہ بیسویں صدی میں کارِ تجدید دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ۔بعض جہات خواجہ مہر علی شاہ کو سونپ دی گئیں ۔ ایک خط میں اقبالؔ نے انہیں لکھا تھا : ہندوستان میں آپ کے سوا کوئی شخص نظر نہیں آتا ، جو میری رہنمائی کر سکے ۔ خیر اس موضوع پر پھر کبھی کہ یہ غیر معمولی تحقیق اوراحتیاط کا متقاضی ہے ، آج عنوان دوسرا ہے ۔ پاک بھارت تعلقات! من موہن نواز شریف ملاقات۔ کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا۔ اقوام کے مراسم کی نوعیت ان کی تاریخ طے کرتی ہے اور مفادات کی نوعیت ۔ ان کا مجموعی مزاج اور ان کی افتادِ طبع ہی ان کی تقدیر ہوتی ہے ۔ مسلم برصغیر میںہیجان بہت ہے ۔ تعجیل، تفاخر، مہم جوئی مگر کشادہ دلی۔برہمن کا اندازِ فکر دوسرا ہے۔ بخل، سازش، منصوبہ بندی، سلیقہ مندی اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد میں انتقام کی آرزو۔ میاں محمد نواز شریف کے لیے بہترین راستہ یہ تھا کہ وہ ایک ایک زینہ طے کرتے ہوئے چھت پر پہنچتے مگر کسی فلمی کردار کی طرح انہوںنے جست لگانے کی کوشش کی ۔ وہ ہندوستان کے حالات کا ادراک نہیں رکھتے ۔ مشیر ناقص، مطالعہ محدود بلکہ معدوم ! الیکشن کا سال ہے ۔ بھارت کی دونوںبڑی پارٹیوں کو عوامی احساسات ملحوظ رکھنا ہیں ۔ ایک ایسی قوم کے جذبات کو، تین سوبرس سے نفرت پہ جس کی پرورش ہے ۔ جس کی فوج کے سابق سربراہ نے ہندوستان ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ پاکستان میں تخریب کاری کے لیے انہوںنے ایک خصوصی سیل بنایا تھا ۔ جس کے موجودہ چیف سرحدوں کے دورے کرکے اشتعال پھیلاتے رہے ۔ پاکستان کے اجتماعی مزاج میں تبدیلی کا عمل برپا ہے ۔ افواج سخت گیر گروہوں سے دور ہٹتی جار ہی ہیں اور خفیہ ایجنسیاں بھی۔ تلخ تجربات نے چند مذہبی گروہوں کے سوا، جو جذبات کے اسیر ہیں ، تقریباً پوری قوم میں امن ؛چنانچہ تحمل کی آرزو کو جنم دیا ہے ۔ بالکل برعکس بھارت نفرت کی آگ میں جل رہا ہے۔ صرف افغانستان میں وہ اب تک دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا… بخیل بنیا اور دو ارب ڈالر؟ حامد کرزئی ہمیشہ بھارت کے آلۂ کار بننے پر آمادہ رہتے ہیں، جن سے جناب آصف علی زرداری کو انس تھا اور نواز شریف جنہیں گوارا کرتے ہیں ۔ دو ارب ڈالر کی یہ رقم ترقیاتی منصوبوں ، خاص طور پر سڑکوں پہ صرف کی گئی ۔ سوویت یونین کی حکمتِ عملی بھی یہی تھی اور امریکیوں نے بھی یہی راہ اختیار کی ۔ ایک مقصد یہ ہے کہ گوادر کو بروئے کار نہ آنے دیا جائے ۔ اگر یہ ہو سکا تو وسطی ایشیا سے سمندر تک فاصلہ 16گھنٹے کم ہو جائے گا۔ اسی لیے بھارت بلوچستان میں بغاوت کی آگ بھڑکانے پہ برسوں سے سرمایہ لٹا رہا ہے ۔ دل آرام ، زرنج شاہراہ کی لمبائی 215کلومیٹر ہے ۔ 339انجینئرز کو یہ سڑک تعمیر کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ ان میں سے اکثر ’’را‘‘ کے ایجنٹ تھے ۔ وہی ’’را‘‘ جس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں مرکزی کردار ادا کیا اور جس کے ردّعمل نے پاکستانی عسکری قیادت کو آئی ایس آئی جیسا ادارہ تعمیر کرنے پرآمادہ کیا۔ ایک کے بعد دوسری فوجی اور سول حکومت نے جسے برباد کیا‘ وگرنہ ایک زمانے میں وہ \"را\"سے بدرجہا بہتر تھی ۔ دل آرام زرنج شاہراہ کے لیے بارود کے ڈھیر افغانستان پہنچائے گئے کہ پہاڑ توڑے جا سکیں ۔ علاقہ صحرائی ہے۔ سفارت خانے اور دو عدد قونصل خانوں کے علاوہ 2400 کلومیٹر لمبی پاک افغان سرحد پر بھارت کے تیرہ عدد فرنٹ آفس قائم ہیں ، جو ویزے جاری کرتے ہیں ۔ ممبئی حادثے کے چند دن بعد کراچی میں فسادات پھوٹ پڑے ، جو پچاس زندگیاں چاٹ گئے۔ بھارتی اخبارات صاف صاف کہتے ہیں : K for K۔ کشمیر کے بدلے کراچی ۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں کم از کم دو سو دہشت گرد متحرک ہیں ، جن کی تربیت بھار ت میں ہوئی ۔ طالبان لیڈروں کے ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی کے روابط کی ناقابلِ تردید شہادتیں موجود ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات میں بھی اس کا کردار ہے۔ پاکستان کے فعال طبقات میں ایسے کتنے ہی لوگ ہیں ، بظاہر جو امریکہ نواز ہیں لیکن بھارت کے لیے بھی وہ کام کرتے ہیں۔ بھارت اور امریکہ تزویراتی رفیق ہیں ۔ دیوار کیا گری مرے کچّے مکان کی لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے برسوں کی کوششوں اور متعدد رعایتوں کے بعد، حکومتِ افغانستان نے خطرناک دہشت گرد مولوی فقیر اللہ کو پاکستان کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ۔ مولوی فضل اللہ ، بونیر سے آگے نورستان کے دشوار گزار علاقوں میں آسودہ ہے ۔ کیا پینٹاگان اور کابل انتظامیہ کی مرضی کے بغیر ہی؟ قدیم یونانیوں کا وہ گروہ ، جن کا ایک حصہ پاکستان کے علاقے کافرستان میں آباد ہے ۔ 2300برس ہوتے ہیں ، سکندرِ اعظم کی واپسی کے بعد چندر گپت موریا نے، چانکیہ کوٹلیا جس کا مشیر تھا، باقی ماندہ یونا نیوں کو مار بھگایا تھا۔ وہ ان مشکل وادیوں میں جا چھپے تھے ۔ وہ جو افغانستان میں تھے ، امیر عبد الرحمٰن کے عہد میں مسلمان ہو گئے۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ایک دن امان اللہ خان سرجھکائے گولڑہ شریف آئے اور خواجہ مہر علی شاہ سے دعاکی درخواست کی ۔ غالباً امیر عبد الرحمٰن کا حوالہ دے کر درویش نے کہا: ایک فقیر بیک وقت دو بادشاہوں کو دعا کیسے دے سکتا ہے ؟ نواز شریف نے بالآخر درست فیصلہ کیا۔ کانگرس کو اگر الیکشن کے لیے بھارتی جذبات کی آسودگی منظور ہے تو وہ اپنی قوم کو کیوں ناراض کریں ؟ اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ ملاقات بے نتیجہ رہے گی ۔ اب وہ دونوں زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ دونوں کی اقوام کو اب ان پر زیادہ اعتماد ہے۔ سیاست میں اداکاری کا عنصر بھی ہوتاہے ۔ وکی لیکس کا مطالعہ کیا یہ نہیں بتاتا کہ لیڈر لوگ کہتے کچھ ہیں ، کرتے کچھ اور ہیں ۔ ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا ایک ہزار برس کے بعد بھارتیوں کو آزادی اور خوشحالی میسر آئی ہے۔ اگر وہ تکبّر اور رعونت کا مظاہرہ نہ کریں تو اور کیا کریں ۔ چار سو برس کے بعد ایک مفتوح قوم کو انتقام کا موقعہ ملا ہے ۔ کیا وہ اپنی جبلّت سے انحراف کرے گی اور فیاضی کا مظاہرہ فرمائے گی؟ پاکستان کمزور ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ کیوں ؟ ایسے میں دشمن ہمیں کیوں معاف کرے ۔ اب ان کے بارے میں کیا کہیے ، جو حریف سے ہمدردی کی امید رکھتے ہوں ۔ امن و امان، معیشت اور سیاسی نظام کو مضبوط کیے بغیر ، نواز شریف اس معرکے میں کیونکر سرخرو ہو سکتے ہیں؟انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند! تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved