بعض باتیں بظاہر عام فہم ہوتی ہیں لیکن کبھی سمجھ میں نہیں آتیں۔ تمام سیاسی اور مذہبی قیادت جڑانوالہ حادثے کی مذمت کر رہی ہے۔ شاید ہی کوئی طبقہ ہو جو خاموش ہو۔ سمجھ میں یہ آتا ہے کہ کوئی اس سے خوش نہیں۔ جو سمجھ میں نہیں آتا وہ یہ ہے کہ جب سب مذمت کر رہے ہیں تو پھر اس سانحے کا ذمہ دار کون ہے؟ نہ میں ہوں‘ نہ آپ ہیں۔ نہ مذہبی طبقات ہیں‘ نہ سیاسی جماعتیں تو پھر یہ کون لوگ ہیں؟ کیا فی الواقع ہم میں سے کوئی انہیں نہیں جانتا؟ کچھ سوالا ت اور بھی ہیں جو جواب طلب ہیں۔
پہلا سوال: اکثریت کے نزدیک پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اس کا نظریہ 'اسلام‘ ہے۔ اس کا بدیہی مطلب یہ ہے کہ جو اس نظریے کو مانتا ہے اور جو نہیں مانتا‘ وہ دونوں ایک نہیں ہو سکتے۔ یہ نتیجہ میں نے برآمد نہیں کیا۔ 'اسلامی ریاست‘ کو جن اہلِ علم نے موضوع بنایا ہے اور جو اس کے علمبردار ہیں‘ سب یہی رائے رکھتے ہیں۔ اسی اصول پر یہ اہلِ علم اس بات کو درست نہیں سمجھتے کہ غیرمسلم کو کسی کلیدی منصب پر بٹھایا جائے۔ دوسری طرف پاکستان کی تشکیل قومی ریاست کے ماڈل پر کی گئی ہے۔ قومی ریاست شہریوں میں رنگ و نسل اور مذہب و عقیدے کی بنیاد پر کسی تقسیم کی قائل نہیں۔ ہمارے اہلِ مذہب نے ہمارا جو قومی مزاج بنایا ہے‘ وہ اس ماڈل کو قبول نہیں کرتا۔ وہ غیر مسلموں کوسماجی اعتبار سے اور ملکی شہری کے طور پر اپنا ہم سر نہیں مانتا۔ کیا ہماری اس نظریاتی ساخت کا کوئی تعلق جڑانوالہ واقعہ کے ساتھ ہے؟
دوسرا سوال: یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ سیالکوٹ کا حادثہ ہماری یاد سے ابھی محو نہیں ہوا۔ اُس وقت بھی اسی طرح پوری قوم نے مذمت کی تھی۔ جس نوجوان نے مقتول کو بچانے کی کوشش کی‘ اسے قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وزیراعظم نے بلا کر تحسین کی۔ ہم سب سراپا احتجاج تھے۔ اس کے باوجود جڑانوالہ کا حادثہ ہوا اور پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ۔ یہ مذمت ہمارے رویے میں کسی تبدیلی کا سبب کیوں نہیں بنی؟
تیسرا سوال: ہمارے مذہبی طبقات‘ بلا استثنا ان لوگوں کو ہیرو مانتے ہیں جو اسلام کی عصبیت میں قانون کو ہاتھ میں لیتے اور دوسروں کے جان و مال کو مباح سمجھتے ہیں۔ کوئی ان کی مذمت نہیں کرتا۔ مثالوں کی ضرورت نہیں کہ ایسے ہیروز کے ناموں سے ہم سب واقف ہیں۔ یہ معاملہ صرف مذہبی لوگوں تک محدود نہیں‘ کالم نگار ان کی مدح میں قلم اٹھاتے اور اہلِ گفتار شعلہ بیانی فرماتے ہیں۔ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب فضاؤں میں بکھر جاتا اور انسانی ذہنوں میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں کرتا؟
چوتھا سوال: ہمارے محترم علما ہمیں سیرتِ پاک کے واقعات سناتے ہیں کہ کیسے اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کیا۔ نجران کے مسیحیوں سے کیا معاملہ کیا۔ معاہد کے جان ومال کے بارے میں کیا ہدایات دیں۔ خلفائے راشدین‘ بالخصوص سیدنا عمرؓ کے اسلوبِ حکمرانی کے تذکرے میں فخرکے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اہلِ قدس کے ساتھ بے مثل رواداری کا مظاہرہ کیا اور مذہبی آزادی کو ایک قدر کے طور پرمتعارف کرایا۔ آپﷺ کے اسوۂ حسنہ اور خلفائے راشدین کی اس روایت کو مستحکم کرنے میں ہم نے کیا کردار ادا کیا؟ کیا یہ دینی ادارے کے نصاب کا حصہ ہیں؟ کیا یہ جمعہ کے خطبات کا موضوع ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو کیوں؟
پانچواں سوال: مذہبی سیاست کرنے والے سیاسی و مذہبی معاملات پر احتجاجی تحریکیں چلاتے ہیں۔ جلوس برآمد کیے جاتے ہیں۔ دو دن ہوئے مولانا فضل الرحمن اور مولانا تقی عثمانی جیسے اکابر کی قیادت میں علما جمع ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اپنی جانوں سے زیادہ دینی مدارس کا تحفظ کریں گے۔ جماعت اسلامی مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ کیا کبھی کسی سیاسی اور مذہبی جماعت نے یہ اعلان بھی کیا کہ ہم اپنی جانوں سے بڑھ کر اقلیتوں کے جان و مال کا تحفظ کریں گے؟ کیا سانحہ سیالکوٹ پر کسی مذہبی جماعت نے کوئی احتجاجی جلسہ کیا؟ جڑانوالہ کے حادثے پر کسی نے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا؟ مذہبی آزادیوں اور اقلیتوں کے حقوق کا مسئلہ ہماری قیادت کی نظروں سے اوجھل کیوں ہے؟
چھٹا سوال: ہم جس دور میں جی رہے ہیں‘ یہ انسانی آزادی کا دور ہے۔ انسان کے سیاسی و مذہبی خیالات پرکوئی قدغن گوارا نہیں کی جاتی۔ بالخصوص اقلیتوں کا معاملہ بہت حساس ہے۔ اس معاملے پر امریکہ میں مودی جیسے آدمی کا داخلہ بند کر دیا گیا۔ ہم ہر بین الاقوامی فورم پر اس کے لیے جواب دہ ٹھہرائے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاسی اور معاشی مفادات براہِ راست اس سے وابستہ ہیں۔ ریاست نے اس معاملے کی حساسیت کو کتنا محسوس کیا ہے؟ اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی آزادی کے لیے کون سا بڑا قدم اٹھایا ہے؟ فسادیوں سے ملک کو پاک کرنے کے لیے کیا کیا ہے؟
ساتواں سوال: ہم سب جانتے ہیں کہ یہ واقعات اصلاً انتہا پسندی کا نتیجہ ہیں۔ انتہا پسندی ایک سماجی رویہ ہے۔ مذہبی معاملات میں جب اس کا ظہور ہوتا ہے تو جڑانوالہ جیسے حادثات جنم لیتے ہیں۔ سماجی معاملات میں ہوتا ہے تو گاڑی کی پارکنگ پر قتل ہو جاتے ہیں۔ اس معاشرے میں ہر رائے ساز‘ اِلا ماشا اللہ‘ دانستہ یا نا دانستہ انتہا پسندی پھیلانے میں شب و روز مصروف ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس سماج کو تیزاب سے غسل دینا چاہیے تو اس سے کیا مزاج بنتا ہے؟ جب ہم کہتے کہ ملک کے پانچ سو افراد کو پھانسی چڑھا دینا چاہیے تو اس سے کیا سوچ پیدا ہوتی ہے؟ کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا؟ کیا ہم نے سوچا کہ جذبات نگاری کے ان مظاہر نے سماج کو انتہا پسند بنانے میں کتنا کردار ادا کیا ہے؟
آٹھواں سوال: پاکستان مسلم اکثریتی ملک ہے اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنا ہے لیکن ہم نے قیامِ پاکستان کے موقع پر غیرمسلموں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اس ملک کے شہری بنیں گے تو ان کے حقوق کسی طرح ایک مسلمان سے کم نہیں ہوں گے۔ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے باضابطہ اعلان سے تین دن پہلے 11اگست کو دستور ساز اسمبلی میں اس کا اعلان کیا۔ ہم بطور قوم اس وعدے کے پابند ہیں۔ اگر ہم اس سے انحراف کریں گے تو خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ ہمارے نظامِ تعلیم نے اپنے شہریوں میں اس کا شعور پیدا کرنے کی کتنی کوشش کی؟
نواں سوال: سات سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا جب ہم نے 'پیغامِ پاکستان‘ کی صورت میں ایک میثاق پر دستخط کیے تھے۔ یہ میثاق مگر ایک ایسی گھٹا ثابت ہوئی جسے اٹھتے ہوئے تو ہم نے دیکھا‘ برستے نہیں دیکھا۔ جڑانوالہ واقعہ معمولی نہیں ہے۔ بیس عباد ت گاہوں کا جل جانا کھیل تماشا نہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سماج کی بُنت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ پیغام عام آدمی تک نہیں پہنچا۔ جنہوں نے پہنچانا تھا انہوں نے سچی بات یہ ہے کہ کبھی اسے موضوع ہی نہیں بنایا۔ ان کا کل اثاثہ چند مذمتی بیانات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی مہم بے نتیجہ کیوں رہی؟
دسواں سوال: مسیحی اس حادثے کا شکار اور اس واقعے کے مدعی ہیں۔ کیا اُن کو ان واقعات کی تحقیقات میں شامل کیا گیا ہے؟ مذہبی بیانات کی گرد میں یہ سوالات ہمیشہ دبے رہے۔ ہم نے انہیں کبھی موضوع نہیں بنایا۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ‘ آخری واقعہ نہیں ہوتا۔ ہر حادثے کے جلو میں بے شمار حادثات چلے آتے ہیں۔ پاکستان بطور سماج اور ملک ان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مسائل سے ہماری گردن جھکی جا رہی ہے۔ ہم ہیں کہ اس کے بوجھ میں اضافہ ہی کرتے جا رہے ہیں۔ کاش یہ قوم بیدار ہو اور اپنے حقیقی مسائل کا ادراک کرے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved