تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     30-09-2013

حالیہ عالمی واقعات اور ہم

چند ہفتوں میں حالات میں کتنی ڈرامائی تبدیلی آسکتی ہے۔۔۔ کہاںتو ایک طرف امریکی جنگی جہاز شام پر میزائل برسانے کے لیے بحیرہ روم میں تیار کھڑے تھے اور کہاں ایران کے صدر روحانی اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام سے پیدا ہونے والے بحران کا پر امن حل تلاش کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔نیروبی میں دہشت گردوں کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ چار دن جاری رہنے والی لڑائی کی خبریں عالمی پریس میں نمایا ں جگہ پاتی رہیں جبکہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں آنے والے زلزلے سے بھی انسانی المیے نے جنم لیا۔ ان تمام واقعات کا اختتام کہیں سکون، کہیں خوف اور کہیںمایوسی پر ہوا ۔ پے در پے رونما ہونے والے ان تمام واقعات کی وجہ سے مصر کا بحران نظروں سے اوجھل ہو گیا؛ تاہم اگر یہ عالمی پریس کی توجہ کا مرکز نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ یہاں معاملات میں بہتری آنا شروع ہو گئی ہے۔ ایسا ہر گزنہیں‘ بلکہ سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور فوج کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کے نتیجے میں لگنے والے زخم رِس رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ مصربھی ایک طرح کا الجیریا بننے جارہا ہے۔ یہ واقعات اپنی جگہ لیکن حالیہ دنوں میں امریکہ اور ایران کے درمیان بات چیت کا آغاز ایک ناقابل ِ یقین پیش رفت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے امریکہ اور روس کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی وجہ سے خطے سے کشیدگی کا خاتمہ ممکن دکھائی دیتا ہے۔ شام کو ہتھیار اور حمایت فراہم کرنے والے ممالک میں روس اور ایران سر ِ فہرست ہیں۔ اگر یہ دونوں ممالک امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہوں گے تو شام میں جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا؛ تاہم یہ معاملہ اس وقت پیچیدہ ہوجاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیںکہ کچھ مسلمان ممالک شام میں باغی دستوں کی حمایت کررہے ہیں اور وہ بھی امریکہ کے اتحادی ہیں۔ یہ ممالک بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ اس کا مقصد ایران کو زچ کرنے کے سوااور کچھ نہیں۔ چنانچہ اس خطے میں رونما ہونے والے واقعات پر فرقہ واریت کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔۔۔کچھ ممالک مل کر ایران کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اس کوشش میں امریکہ کا بھی مفاد وابستہ ہے کیونکہ اس طرح حزب اﷲ کو جسے ایران اور شام کی پشت پناہی حاصل رہتی ہے، کمزور کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل ان تمام واقعات کو دیکھتے ہوئے اپنی خوشی چھپانے سے قاصر ہے۔۔۔ مصر میں مرسی کا تختہ الٹ دیا گیا، اخوان المسلمین کی سیاسی قوت کو توڑ دیا گیا ، مصری فوج نے غزہ کا بارڈر مکمل طور پر بند کر دیا اور ایسا کرتے ہوئے وہاں محصو ر فلسطینی باشندوں کی زندگی مزید دشوار کر دی ہے۔ شام بھی لہو لہان ہے اور یہاں گرنے والا خون کا ہر قطرہ (چاہے وہ حکومتی افواج کا ہو یا اس کے مخالف گروہوں کا ) اسرائیل کو ہی تقویت دے گا کیونکہ شام کی کمزوری میں ہی اسرائیل کی بہتری ہے؛ چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اگر اسرائیلی وزیر ِ اعظم نتن یاہو نے غضب ناک لہجے میں صدرروحانی کی مذمت کی اور امریکہ کو خبر دار کیا کہ ان کی طرف سے امن کے لیے بڑھایا جانے والا ہاتھ دراصل محض دکھاوا ہے اور یہ کہ ایران اس کی آڑ میں وقت حاصل کرکے اپنے جوہری پروگرام کو مزید مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ یقینا تہران اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والا ہر معاہدہ تل ابیب کے لیے بری خبر ثابت ہوگا؛ چنانچہ یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ جو چیز اسرائیل کے لیے بری ہے وہ اس خطے میں امن کے لیے اچھی ہے۔ اگر ایران کے آیت اﷲ این پی ٹی (ایٹمی عدم پھیلائو کا معاہدہ) کے تحت یورینیم کی افزودگی روک دیتے ہیں تو امریکہ اور اسرائیل کے پاس ایرانی تنصیبات پر حملے (جس کی اسرائیل متعدد بار دھمکی دے چکا ہے) کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ اس سے ایران پر عائد پابندیاں بھی ختم ہوجائیںگی اور ایرانی عوام کو معاشی خوشحالی کا منہ دیکھنا نصیب ہوگا۔ خطے کا ایک اور ملک اس پیش رفت سے ناخوش ہے، کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے کہ ایران کو کمزور کرنے کے لیے کی گئی سیاسی اور مالی سرمایہ کاری رائیگاں جارہی ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر یہ خدشہ محسوس ہو رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہو جائے جس میں تہران کوملوث کر دیا جائے اور اس کو جواز بنا کر مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کر دیا جائے۔ اسرائیل نے واشنگٹن میں اپنی لابی کو متحرک کر دیا ہے تاکہ امریکی انتظامیہ کو ایران کے ساتھ بات چیت کرنے سے روکا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران پر عائد بہت سی پابندیاں امریکی کانگرس کی طرف سے لگائی گئی ہیں اور ان کو ختم کرنے لیے بھی کانگرس کی ہی منظوری درکار ہے؛ چنانچہ اسرائیلی لابی کانگر س کو قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ ایران کی ’’چالبازی ‘‘ کو سمجھا جائے۔ گزرے دنوں پر نگاہ دوڑائیں تو یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ امن کے یہ امکانات صرف اس لیے پیدا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اپنے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر روس نے دمشق کو راضی کرلیا ۔ماسکو کی بروقت مداخلت سے ہی شام پر امریکی حملے کا خطرہ ٹلا۔ ان تمام معاملات میں ناقدین کو صدر اوباما کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن دکھائی دے رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے رویے میںلچک دکھاتے ہوئے اُنھوںنے اپنے مقاصد بھی حاصل کرلیے، جن میں سے ایک شام کے کیمیائی ہتھیار ختم کرکرنا تھا‘ اور امریکہ کو ایک جنگ میں کودنے سے بھی بچالیا۔ میرا نہیں خیال کہ جارج بش کے پاس پلان A( جو ہمیشہ جنگ کے بارے میں ہوتا تھا) کے بعد کوئی پلان B (پرامن بات چیت) بھی ہوتا تھا۔ اگر اس وقت وائٹ ہائوس میں صدر بش ہوتے تو امریکہ شام پر چڑھائی کر چکا ہوتا۔ تاہم کیا یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ اب یہ دنیا ایک محفوظ مقام بننے جارہی ہے ؟اس میںکوئی شک نہیں کہ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان کوئی معاہدہ طے پاجاتا ہے اور شام اپنے ہتھیار تلف کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو خطے میں امن قائم ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو دلی اطمینان دے گا کہ اس کے دو بدترین دشمن اپنے خوفناک ہتھیاروںسے محروم ہونے جارہے ہیں۔ اگر شام کے معاملے پر ایران اور روس کے درمیان کوئی معاملہ طے پاجاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ بشار الاسد کو اقتدار چھوڑ کر کوئی نگران حکومت قائم کرنے پر راضی کر لیں۔ ایسی صورت میں وہ باغی سخت مایوس ہوں گے جو اس ملک میں عدم استحکام پیدا کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ بشار الاسد کی روانگی ان کے لیے دیگر ممالک کی طرف سے ملنے والی امداد کے امکانات کو بھی ختم کر دے گی۔ پُر امید مستقبل کے راستے میں ابھی بہت سی دشواریاں حائل ہیں لیکن حالیہ واقعات کے نتیجے میں اس کے امکانات پیدا ہو چلے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جنگ کے خطرے کا ٹل جانا ہی بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں تشدد پسند گروہوں کو دنیا کے دیگر ممالک میں کارروائیاں کرنے کا جواز مل جاتا ہے؛ چنانچہ ہم پاکستان کے شہری اوباما، پیوٹن اور روحانی کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ اگر چہ اُنھوںنے اپنے لیے بہترین راہ کا انتخاب کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم پر بھی کم مہربانی نہیںکی ہے۔ افسوس،جس وقت یہ اہم عالمی معاملات طے پارہے ہیں، ہمارے ہاں ایسا کوئی رہنمانہیں‘ جو ان واقعات کے دائرے میں پاکستان کو شامل کرتے ہوئے اس خطے کو درپیش خطرات کا بھی تدارک کرے۔ نواز شریف نے یواین میں اپنے خطاب میں ڈرون حملوںکی تو مذمت کی ہے لیکن اُنھوںنے ان کا متبادل پیش نہیںکیا کہ پھر انتہا پسندوں کا تدارک کیسے کیا جائے؟ کیا ہمارے ہاں کوئی دانائے راز نہیںہے؟ ہم اس قحط الرجال سے کب چھٹکارا پائیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved