مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر دنیا کے ذہین ترین آدمی کو بھی چیلنج کیا جائے کہ وہ مسئلہ کشمیر کا کوئی ایسا حل پیش کر دے جو اس سے پہلے پیش نہ ہوا ہو تو وہ شخص اپنی شکست تسلیم کر لے گا۔ مسئلہ کشمیر پر ایسے سو سے زائد تفصیلی فامولے اور حل ہیں جو مختلف پلیٹ فارمز اور فورمز پر پیش ہو چکے ہیں۔ ان میں درجنوں فارمولے اقوام متحدہ کے مختلف فورمز پر پیش ہوئے۔ ان میں سکیورٹی کونسل سے لے کر اقوامِ متحدہ کا کمیشن برائے انڈیا پاکستان شامل ہیں۔ کئی سنجیدہ فارمولے ان شخصیات نے پیش کیے ہیں جنہیں اقوامِ متحدہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے باقاعدہ ثالث مقرر کیا گیا تھا۔ یہ انتہائی کامیاب‘ ذہین اور باصلاحیت لوگ تھے۔ خود پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری سطح پر درجنوں فارمولے اور حل ڈِسکس ہوئے۔ سیاسی پارٹیوں‘ غیر سرکاری تنظیموں‘ انسان حقوق کے اداروں سمیت کئی دوسرے فورمز ایسے ہیں جن پر بے شمار حل تجویز اور ڈسکس ہوتے رہے۔
اقوامِ متحدہ کے اندر مختلف فورمز پر جن تجاویز یا فارمولوں کو بطور حل سنجیدگی سے لیا گیا‘ ان میں میک ناٹن تجاویز یا فارمولا بھی شامل ہے۔ میک ناٹن ایک کینیڈین سیاستدان‘ جنرل اور سفارت کار تھا۔ وہ کینیڈا کے وزیر دفاع سے لے کر اقوامِ متحدہ میں کینیڈا کے سفیر تک مختلف اہم عہدوں پر فائز رہ چکا تھا۔ غیرمعمولی صلاحیتوں کا حامل یہ شخص سیاست‘ سفارت اور عسکری محاذ کا وسیع تجربہ رکھتا تھا۔ میک ناٹن کی پاکستان اور بھارت کے لیے بطور ثالث تقرری کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 21اپریل 1948ء کو اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کشمیر پر ایک قرارداد پاس کی۔ اس قرارداد کے ذریعے کونسل نے یو این کمیشن برائے انڈیا و پاکستان کے ممبران کی تعداد کو تین سے بڑھا کر پانچ کر دیا اور ان ممبران کو ہدایت کی کہ وہ برصغیر میں جائیں اور قیامِ امن کے لیے پاکستان اور بھارت کی مدد کریں۔ کونسل نے کمیشن سے یہ بھی کہا کہ وہ کشمیری عوام کے مستقبل کے تعین کے لیے استصوابِ رائے کے لیے راہ ہموار کریں۔ اقوام متحدہ کی اس قرار داد میں تین مراحل پر مشتمل حل تجویز کیا گیا تھا۔
پہلے مرحلے میں یہ تجویز کیا گیا کہ پاکستان اپنے ان تمام شہریوں کو ریاست جموں و کشمیر سے نکالے جو لڑائی کے ارادے سے ریاست میں داخل ہوئے ہیں۔ دوسرے مراحلے میں انڈیا بتدریج اپنی فوجیں نکالنے کا عمل شروع کرے اور اپنی فوجوں کی تعداد کو کم ازکم سطح پر لائے اور تیسرے مرحلے میں انڈیا اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد کردہ ایڈمنسٹریٹر کا باقاعدہ تقرر کرے جو آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کرائے۔ انڈیا اور پاکستان دونوں نے اس حل پر شدید اعتراض کیا مگر اس کے باوجود دونوں ملکوں نے کمیشن کی ثالثی قبول کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ کمیشن اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تنازعۂ کشمیر کے حل اور خطے میں قیامِ امن کے لیے بر صغیر پہنچ گیا۔ طویل سفارتی کوششوں اور پاک بھارت کے حکام کے ساتھ کئی ایک اجلاسوں کے بعد بالآخر دسمبر 1949ء میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں اپنی ناکامی کا باضابطہ طور پر اعتراف کیا۔ انہوں نے اپنی تحریری رپورٹ میں کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعۂ کشمیر حل کروانے میں ناکام رہے ہیں اور تجویز کیا کہ اس سلسلے میں کمیشن مقرر کرنے کے بجائے کسی ایک مؤثر اور معتبر عالمی شخصیت کو ثالث مقرر کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ کو یک رکنی ثالث کا آئیڈیا پسند آیا جو یکسوئی سے جنوبی ایشیا کے ان دو نو آزاد ممالک کے درمیان تنازع کا کوئی قابلِ قبول حل نکال سکے؛ چنانچہ سکیورٹی کونسل نے انڈریو میک ناٹن کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث مقرر کر دیا۔ باقاعدہ آفیشل سطح پر دسمبر 1949ء میں یو این سکیورٹی کونسل نے میک ناٹن سے درخواست کی کہ وہ تنازع کو حل کرنے کے لیے دونوں ریاستوں کی معاونت کریں۔ میک ناٹن نے 22 دسمبر کو اپنی تجاویز کے ساتھ دونوں ریاستوں سے رابطہ کیا اور سکیورٹی کونسل کے صدر کے طور پر اپنی مدت ختم ہونے سے دو دن پہلے یعنی 29دسمبر کو سکیورٹی کونسل کو رپورٹ پیش کردی لیکن کونسل نے اسے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی اجازت دینے کے بجائے اپنی ثالثی جاری رکھنے کو کہا۔ اس نے توسیع قبول کرتے ہوئے 3فروری 1950ء کو اپنی حتمی رپورٹ اور تجاویز پیش کر دیں۔
میک ناٹن کی تجویز میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک تفصیلی سکیم شامل تھی۔ اس سکیم کے تحت پاکستان اور ہندوستان سے کہا گیا تھا کہ دونوں بیک وقت اپنی باقاعدہ افواج کو کشمیر سے واپس بلا لیں‘ ان ہندوستانی افواج کو چھوڑ کر جو سکیورٹی مقاصد کے لیے یہاں درکار ہیں۔ دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر کی افواج اور جموں و کشمیر سٹیٹ فورسز سمیت دیگر ہر قسم کے ملیشیا کو غیر فعال کر دیا جائے۔ تیسرا یہ کہ شمالی علاقہ جات کا بندوبست اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں مقامی حکام کے حوالے کیا جائے اور چوتھا یہ کہ پورے کشمیر میں استصوابِ رائے کے ذریعے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔ میک ناٹن کی ان تجاویز میں بھارت اور پاکستان کو تنازع میں برابر کا شریک قرار دیا گیا تھا جو بھارت کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا۔ بھارت کی طرف سے دیے گئے دلائل کے مطابق وہ اقوامِ متحدہ میں تنازعۂ کشمیر لے کر گیا تھا اور اس مقدمے کا مدعی تھا جسے مدعا علیہ کے برابر نہیں کھڑا کیا جا سکتا۔ وہ اس تنازع میں درخواست گزار ہے اور کشمیر میں اس کی موجودگی مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست کا نتیجہ ہے لیکن دوسری طرف میک ناٹن تجاویز سکیورٹی کونسل میں کافی مقبول ہوئیں اور ان تجاویز کو لے کر بھارت پر عالمی دباؤ بڑھ گیا‘ خصوصاً امریکہ نے بھارت کو متنبہ کیا کہ سلامتی کونسل کے کسی بھی فیصلے پر عمل کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا کیونکہ بھارت کی طرف سے یو این او میں مسئلے کے حل کی تجاویز کو مسترد کرنے کا یہ مسلسل تیسرا موقع ہوگا۔ امریکہ کے اس سخت مؤقف کے پیش نظر پنڈت جواہر لال نہرو نے امریکہ پر ان کی حکومت پر ناجائز دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا۔ بھارت کی طرف سے میک ناٹن کی تجاویز کو مسترد کرنے کو امریکی پالیسی سازوں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ وکٹوریہ شیفلڈ نے اپنی کتاب ''Kashmir in Conflict: India, Pakistan and the Unending War‘‘ میں پاکستان اور بھارت کے رویے اور میک ناٹن تجاویز پر ان کے ردِ عمل کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان نے میک ناٹن تجاویز کو تسلیم کر لیا جبکہ بھارت نے ان تجاویز کو ماننے سے انکار کر دیا۔ جیوتی بھاسن داس گپتا نے بھی اپنی کتاب ''جموں و کشمیر‘‘ میں لکھا کہ بھارت نے ان تجاویز کو مسترد کر دیا اورکشمیر سے فوجیں ہٹانے کی مختلف تجاویز پر بھارت کے رویے پر سخت تنقید کی۔
آگے چل کر میک ناٹن کی تجاویز پر سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں دونوں ریاستوں کوکشمیر سے فوجیں نکالنے کے لیے پانچ ماہ کا وقت دیا گیا جس پر عمل نہیں ہوا۔ ہاورڈ سکافر نے اپنی کتاب ''کشمیر میں امریکی کردار‘‘ میں پاکستان اور بھارت کے اس ردِعمل کا جائزہ لیا ہے اور امریکہ کی برصغیر میں دلچسپی اور اثرو نفوذ کے استعمال پر تفصیلی بات کی ہے۔ بہرحال یو این سکیورٹی کونسل نے آگے چل کر میک ناٹن کی تجاویز پر عمل درآمد کے لیے اوون ڈکسن کو اقوامِ متحدہ کی طرف سے نمائندہ مقرر کیا۔ اوون ڈکسن کون تھا؟ وہ کیا فارمولا لے کر آیا اور اس نے مسئلہ کشمیر کا کیا حل پیش کیا‘ اس کا جائزہ آئندہ کسی کالم میں لیا جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved