بھارتی فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ کے سنسنی خیز انکشافات نے ریاست جموں وکشمیر کی سیاست میں زبردست ہلچل پیدا کردی ہے اور خاص طور پر اس خطے کی مین سٹریم یعنی بھارت نواز سیاست اور سیاست دانوں کے اعتبار کو مجروح کیا ہے۔ اْن کا یہ انکشاف کہ 1947ء سے جموں وکشمیر کے مین سٹریم لیڈران کو فوج کی جانب سے مختلف کاموں کے لیے پیسہ ملتا رہا ہے، ایک ایسا الزا م ہے جس نے ریاست، خاص طور پر کشمیرمیں ان سیاست دانوں کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ گوکہ ہمیشہ یہ تاثر موجود رہا ہے کہ کشمیری لیڈران خفیہ ایجنسیوں اور فوج کے تنخواہ دار ہیں تاہم آج تک اس تاثر کے حق میں ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے تھے۔ لیکن اب چونکہ خود فوج کے سابق سربراہ نے عوام کے اس تاثر کوتقویت پہنچائی ہے تو اس سے یقینی طور پر ریاست کے اندرموجود جمہوری سسٹم پر شکوک و شبہات کے سائے مزید گہرے ہو جائیں گے۔ بین الاقوامی اور سفارتی سطح پر بھارت ہمیشہ منتخب حکومت اور اراکین اسمبلی کو کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں کے روپ میں پیش کرتا آیا ہے۔ ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ایک سینئر لیڈر اور سابق نائب وزیراعلیٰ مظفر حسین بیگ کے بقول جنرل سنگھ نے مین سٹریم سیاستدانوں کی ساکھ مجروح کرکے انہیں عوامی عدالت میں مجرموں کی طرح لاکر کھڑا کیا ہے۔ ان انکشافات نے بھارتی فوج کی تصویر کو بھی داغدار کیا ہے۔ یہ کہنا اب مبالغہ نہ ہوگا کہ فوج شورش زدہ علاقوں میں سیاسی معاملات میں روپے پیسے کا بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ چند سال قبل وکی لیکس کے ذریعہ حاصل کی گئی کیبلز میں اس وقت دہلی میں مقیم امریکی سفیر ڈیوڈ ،سی،ملفورڈ نے بھی کچھ اسی طرح کے انکشافات کئے تھے۔ 2004ء اور 2009ء کے درمیانی عرصے میں امریکی وزارت خارجہ کو بھیجے گئے مکتوبات میں ملفورڈ لکھتے ہیں ــکہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کے وارث موجودہ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور ان کے والد مرکزی وزیر فاروق عبداللہ پر بھارتی نوازشوں کی بارش ہوتی ہے۔ ’’یہ لوگ سرینگر میں عالیشان مکانوں میں رہتے ہیں، قیمتی پینرائی گھڑیاں پہنتے ہیں، مہمانوں کی تواضع اعلیٰ بلیو لیبل شراب سے کرتے ہیں اور بھارت کے خرچ پر دنیا بھر گھومتے رہتے ہیں۔‘‘ بھارت کی خفیہ ایجنسی کے ایک ریٹائرڈ افسر نے راقم کو بتایا کہ کشمیر میں پیسوں کا یہ کھیل عسکریت اور علیحدگی پسندی کے خلاف جنگ کا ایک جز ہے۔ خفیہ اطلاعات کے حصول کیلئے پیسہ خرچ کرنا ایک لازمی بات ہے۔ اس افسر کے بقول‘ جو 90ء کی دہائی کے اوائل میں کشمیر میں مقیم تھا‘ خطے میں بھارتی مفادات کو ناقابلِ یقین حد تک نقصان پہنچا تھااور اکثر افسران تو یقین کر بیٹھے تھے کہ کشمیر اب بھارت کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ خفیہ اطلاعات کے حصول کے تمام ذرائع مسدود ہوگئے تھے۔ دوسری طرف عوام میں بھارت کے خلاف نفرت عروج پر تھی۔اس افسر کے بقول 1989ء اور 1996ء کے بھارتی پارلیمانی انتخابات کیلئے امیدوار ہی نہیں مل رہے تھے۔ایسے جنگی حالات میں فوجی آپریشنز کے علاوہ پیسہ ایک کارگر وسیلہ ہوتا ہے۔ بھارت کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو کے سابق نائب سربراہ ایم ، کے، دھر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 90ء کے اوائل میں جب انٹیلی جنس کے منبعے خشک ہوچکے تھے، انہیں 6ماہ کے قلیل وقفہ کیلئے کشمیر ڈیسک کا انچارج بنایا گیا اور خفیہ اطلاعات کے سسٹم کو ازسر نو استوار کرنے کیلئے انہوں نے پرانی دہلی کے ایک عزت دار مسلم خاندان کی خاتون کو کشمیر میں جاسوسی کیلئے آمادہ کیا۔ اس خاتون نے بعد میں کئی کشمیری نوجوانوں سے تعلقات بنائے اور انہیں معلومات لانے کیلئے لائن آف کنٹرول پار کرائی جاتی تھی۔ یقینا اس طرح کا آپریشن پیسہ خرچ کئے بنا ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ بھارت کے ایک دفاعی تحقیقی ادارے کے مطابق پاکستان ہر ماہ 25تا 30کروڑ روپیہ علیحدگی پسند اور عسکری لیڈروں کو فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے کے بقول پاکستانی امداد میں اگرچہ30سے50فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ مگر آگ کو سلگائے رکھنے کیلئے کافی ہے۔ اور اس کا توڑکرنے اور بھارت نواز سیاستدانوں کوپرعزم رکھنے کے لیے پیسہ اہم ہتھیار ہے۔ سابق امریکی سفیر کے مکتوبات نے تو علیحدگی یا آزادی پسند راہنمائوں کو بھی کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ ان کے بقول اس خیمے کے ایک چوٹی کے راہنما نے خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے دوبئی میں خاصی جائیداد حاصل کی ہے۔ ایک اور لیڈر نے ایجنسیوں کی شہ پر درپردہ الیکشن میںایک امیدوار کی حمایت کی اور ایک خطیر رقم وصول کی۔ ملفورڈ کا کہنا ہے کہ احتساب سے بالاتر پیسوں کی یہ گنگا کشمیر کے حل کے سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پیسہ لینے والے طبقہ کو خدشہ ہے کی کسی حل کی صورت میں ان کے مفادات متاثر ہوں گے۔ اسی لیے جب بھی مسئلہ کے سلسلے میں کوئی پیشرفت ہوتی ہے، کوئی نادیدہ ہاتھ اسے زک پہنچاکر روک دیتا ہے۔ بہر حال جنرل سنگھ کی جانب سے لگائے گئے الزامات سے فی الوقت ریاست کا جمہوری نظام اور مین سٹریم زبردست کرائسز کا شکار ہے اور یہ تاثر تقویت پاگیا ہے کہ کشمیر کا نظام عوامی نمائندے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ فوج اور سکیورٹی اداروں کی مرضی کے مطابق چلاتے ہیں۔مزاحمتی خیمہ کایہ موقف تقویت اختیار کر گیا ہے کہ ریاست کے مین سٹریم سیاستدان دلّی کے اشاروں پر ناچتے رہتے ہیں اور یہاں الیکشن سے لے کر حکومت کی تشکیل اور کام کاج تک پورا جمہوری نظام دلّی کے تابع ہے۔ خود وزیراعلیٰ نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ جنرل کے بیان نے ان کی حکومت کی اعتباریت کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت ہند کو اس مسئلہ پر صفائی پیش کرنی چاہیے بصورت دیگر تمام مین سٹریم پارٹیوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔ اپوزیشن لیڈر محبوبہ مفتی کا بھی کہنا ہے کہ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ بھارت کے لیے وہی افراد قابل اعتبار ہیں جو ایجنسیوں کے تنخواہ دار ہیں۔دوسری طرف جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد یاسین ملک کہتے ہیں کہ ہندنواز جماعتیں اور سیاست کار خوا وہ کامیاب امیدوار ہوں یا ناکام ، چھوٹے ہوں یا بڑے،بھارتی فوج اور ایجنسیوں کے پے رول پرکام کرنے والے لوگ ہیں۔ حدیہ ہے کہ بھارتی قومی جماعتوں نے بھی‘ جن کا جموں و کشمیر میں کوئی وجود تک نہیں‘ کشمیر کے اندردفاتر کھول رکھے ہیں اور وہ یہاں ہونے والے الیکشن ڈرامے میں حصہ لیتی رہتی ہیں۔ ایسا یہ لوگ اس لیے کرتے ہیں کہ بھارتی ریاست اور اس کی ایجنسیوں کے ذریعے اس کام کے لیے بانٹی جانے والی رشوت اور رقومات میں اپنا حصہ لے سکیں۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کام انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکا ہے اور بھارتی ریاست کے اہم ادارے اور ایجنسیاں بشمول فوج ناجائز تسلط کو دوام بخشنے کے لیے رشوت کا یہ بازار گرم کررہے ہیں۔ تاہم جنرل(ر) وی کے سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’جموں و کشمیر میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ملک کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، ہمارا بھی ایک کام ہے،وہ کام ہے ملک کو جوڑے رکھنا، اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہم ملک کی وحدت کو برقرار رکھنے میں مدد کرسکتے ہیںتو فوج میدان میں آجاتی ہے‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved