پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں نے فروری 2022ء میں تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تو ایک حلقے کی جانب سے کہا جانے لگا کہ منتخب جمہوری حکومت کی مدت پوری ہونے میں ڈیڑھ سال کا قلیل عرصہ باقی رہ گیا ہے اس لیے جہاں ساڑھے تین سال گزر گئے ہیں وہاں یہ عرصہ بھی گزر جانے دیا جائے تاکہ جمہوری تسلسل میں تعطل نہ آئے۔ اس موقع پر اتحادی جماعتوں نے مؤقف اختیار کیا کہ تحریک عدم اعتماد آئینی راستہ ہے‘ آئین کے آرٹیکل 95کے تحت کسی منتخب وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ کچھ حلقے مارچ 2022ء میں لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھے لیکن چونکہ یہ اقدام آئین میں رہ کر اٹھایا جا رہا تھا اس لیے کہیں سے ردِعمل نہیں آیا۔ یوں دیکھا جائے تو اتحادی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد سے لے کر اب تک آئین کے اندر رہتے ہوئے اقدامات اٹھائے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے کیونکہ جمہوری نظام میں کوئی چیز آئین سے ماورا نہیں ہوتی۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد اتحادی جماعتوں نے انتخابات کرانے میں لیت و لعل سے کام لیا‘ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد مقررہ مدت میں انتخابات نہ کرانے میں سیاسی جماعتوں کے پاس سوائے معاشی بدحالی اور سکیورٹی چیلنجز کے کوئی دلیل نہ تھی۔ صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ نے متعدد احکامات جاری کیے اور سیاسی جماعتوں کو مہلت دی کہ وہ باہمی اتفاقِ رائے سے فیصلہ کر لیں‘ جب سیاسی جماعتیں کسی نتیجہ پر پہنچنے میں ناکام رہیں تو سپریم کورٹ نے 14مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے احکامات جاری کیے لیکن اس کے باوجود کہیں الیکشن کا ماحول دکھائی نہ دیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑ دیا جائے۔ عدالت عظمیٰ کی طرف سے دوبارہ سیاسی جماعتوں کو مہلت دی گئی کہ وہ آپس میں مشاورت سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر لیں لیکن سیاسی جماعتوں کا اتفاقِ رائے نہ ہو سکا۔ اسی اثنا میں نو مئی کو چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے ردِعمل میں حساس علاقوں میں پُرتشدد واقعات پیش آئے جس سے پی ٹی آئی بیک فٹ پر چلی گئی اور اتحادی جماعتوں کو فوری انتخابات کرانے کا چیلنج نہ رہا۔
نومئی سے پہلے تک اتحادی جماعتوں کو پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدالتوں سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا‘ تاہم نو مئی سے نواگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل تک اتحادی جماعتوں کی پوزیشن تبدیل ہو گئی۔ اب جبکہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے سے نگران سیٹ اَپ تشکیل پا چکا ہے تو آئین کی طے کردہ مدت میں الیکشن کا انعقاد ہونا چاہیے‘ کیونکہ الیکشن کا انعقاد محض پی ٹی آئی کی خواہش نہیں بلکہ یہ آئینی تقاضا ہے۔ نئی مردم شماری کے تحت عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو صرف حلقہ بندیوں کیلئے چار ماہ کا وقت درکار ہے‘ دسمبر میں یہ چار ماہ پورے ہوں گے اس کے بعد انتخابات کا شیڈول جاری ہو گا جو متوقع طور پر جنوری‘ فروری یا مارچ 2024ء میں ہو سکتا ہے۔21اگست تک اسلام آباد سمیت ہر صوبے کے لیے حلقہ بندیوں کی کمیٹیاں تشکیل دے دی جائیں گی۔آٹھ ستمبر سے سات اکتوبر تک کمیٹیاں ابتدائی حلقہ بندیاں کریں گی جس کے بعدنواکتوبر کو حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ شائع کی جائے گی۔دس اکتوبر سے آٹھ نومبر تک حلقہ بندیوں کے حوالے سے کسی بھی قسم کے اعتراضات کمیشن کے سامنے دائر کیے جا سکیں گے اور دس نومبر سے نودسمبر تک کمیشن ان اعتراضات پر سماعت کرے گا جس کے بعد چودہ دسمبر2023ء کو حتمی حلقہ بندیاں شائع کردی جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الیکشن کمیشن کو مارچ 2024ء تک کیلئے وقت چاہئے۔اگر الیکشن ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت ہونے ہیں تو اس کیلئے نئی حلقہ بندیاں ضروری ہیں‘ اس کے بغیر الیکشن ممکن نہیں ‘ اگر 2024ء کے اوائل میں بھی انتخابات ہو جائیں تو حلقہ بندیوں کو الیکشن میں تاخیر کے جواز کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے برعکس عام تاثر ہے کہ ایک سال تک الیکشن ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ جب سیاسی جماعتیں بروقت انتخابات کیلئے سنجیدہ ہیں تو پھر یہ تاثر کیسے قائم ہوا؟ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس تاثر کو ختم کریں کیونکہ بروقت انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے اور آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل ہی مسائل کا حل ہے۔ ماضی کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جب بھی آئین سے ہٹ کر بندوبست کیا گیا‘ اس نے جمہوری اقدار کو نقصان پہنچایا۔ بروقت انتخابات نہ کرانے کی صورت میں آئین کی خلاف ورزی پر سیاسی جماعتوں کے اندر سے اُٹھنے والی آوازوں کو کیسے روکا جا سکے گا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی اور شیری رحمان الیکشن کے التوا کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں۔پاکستان بار کونسل نے بھی نئی حلقہ بندیوں کو الیکشن میں تاخیری حربہ قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتحادی جماعتوں کی حکومت ختم ہو چکی ہے‘ وہ نو اگست سے پہلے کے معاملات کی ذمہ دار تھیں‘ اب نگران حکومت ہے جس کا اولین فریضہ شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ انتخابات کیلئے سازگار ماحول اور درکار وسائل فراہم کرنا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے۔الیکشن کمیشن کو بھی مکمل غیر جابنداری اور بروقت انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہو گا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر پر اتحادی جماعتوں میں اختلاف موجود ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی)کے اجلاس میں ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت انتخابات کی حمایت کی تھی کیونکہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ موجودہ نشستیں بدستور برقرار رہیں گی اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ انتخابات غیرضروری طور پر ملتوی نہ ہوں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق حلقہ بندیاں بھی تبدیل ہو جائیں گی اور نوے روز کے اندر انتخابات کا انعقاد بھی مشکل نظر آ رہا ہے تو اتحادی جماعتوں کے اختلافات سامنے آنے لگے ہیں۔
اسمبلیاں تحلیل ہونے کے باوجود انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ ہونا دراصل ان خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ طویل عرصے کیلئے انتخابات ملتوی رہیں گے۔ نگران حکومت‘ الیکشن کمیشن اور تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بروقت انتخابات کو یقینی بنا کر ان خدشات کا خاتمہ کریں۔ مارچ 2024ء میں سینیٹ الیکشن ہونے ہیں‘ اس سے پہلے صوبائی اسمبلیوں کا قیام ضروری ہے ورنہ سینیٹ انتخابات کیسے ممکن ہو پائیں گے؟ اس لیے یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ الیکشن بہر صورت ہونے ہیں‘ الیکشن کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے‘ طویل عرصے کیلئے الیکشن ملتوی ہوئے تو سوالات اٹھیں گے‘ سیاسی جماعتوں سمیت اداروں کے پاس الیکشن کی تاخیر کے جواز میں کہنے کیلئے کچھ نہیں ہو گا۔ میڈیا بھی سوال اٹھائے گا اور ستمبر میں آنے والے چیف جسٹس بھی آئین پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے احکامات جاری کریں گے‘ مزید کسی بحران کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے اس لیے آئینی تقاضے پورے کرنے میں ہی بہتری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved