تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     21-08-2023

جڑانوالہ سانحہ قوم کیلئے لمحۂ فکریہ

پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں‘ گھروں اور کاروباری مراکز پر ہجوم کے حملوں کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے لیکن فیصل آباد ڈویژن کے ضلع جڑانوالا میں چند روز پیشتر جس طرح اچانک اور وسیع پیمانے پر بلوے ہوئے‘ درجنوں گھروں میں لوٹ مار اور آگ لگانے کے واقعات ہوئے اور دو درجن سے زائدگرجا گھروں کو مسمار کر دیاگیا‘ اس کی حالیہ چند برسوں میں مثال نہیں ملتی۔ فسادات کی یہ آگ پوری جڑانوالہ تحصیل میں پھیل گئی اور متعدد مقامات پر گرجا گھروں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ ان فسادات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حملوں سے بچنے کے لیے مسیحی آبادی نے اپنے جن مکانوں کو عجلت میں خالی کیا ان سے تمام قیمتی اشیا لوٹ لی گئیں۔ کہاں گئی ریاست اور ریاست کی رِٹ‘ جسے نافذ کرنے کے لیے ایک وسیع انفراسٹرکچر قائم کیا گیا ہے؟ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس واقعہ سے صرف پانچ روز قبل پاکستان میں اقلیتوں کا قومی دن منایا گیا تھا۔ اس موقع پر حکومت اور حکومت سے باہر تمام سیاسی قوتوں نے پاکستان کی اقلیتوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ان کے مذہب‘ جان و مال اور عزت کے تحفظ کا یقین دلایا‘ مگر 16 اگست کو یہ تمام یقین دہانیاں ہوا میں اُڑ گئیں اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو بلوائیوں کے خوف کے مارے کھیتوں اور ویران جگہوں میں رات بسر کرنا پڑی۔
پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا تھا مگر قائد اعظم نئے ملک سے غیر مسلم آبادی کے انخلا کے خلاف تھے۔ اسی لیے انہوں نے 11 اگست 1947ء کو اپنی مشہور تقریر میں پاکستان کی تمام غیر مسلم آبادی کو برابر کے شہری‘ قانونی‘ سیاسی اور مذہبی حقوق کا یقین دلایا تھا‘ مگر ان کی وفات کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے حکمرانوں نے چند ایسے اقدامات کیے جن سے بد دل ہو کر انہوں نے اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر تے ہوئے ہمسایہ ملک میں منتقل ہونے کی ضرورت محسوس کی۔ پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں لکھا ہے کہ اگر 1949ء میں قائد اعظم زندہ ہوتے تو پاکستان کے غیر مسلم باشندوں کو اقلیت قرار دے کر دوسرے درجے کے شہری قرار دینا ممکن نہ تھا۔ پہلی دستور ساز اسمبلی میں جب وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت نے قراردادِ مقاصد پیش کی تو اس پر بحث کے دوران اسمبلی کے ہندو اور سکھ ممبران نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی مگر جب ان کے احتجاج کو نظر انداز کیا گیا تو بہت سے ہندو اور سکھ‘ جو پاکستان میں رہ کر نئے ملک کی تعمیر اور ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے تھے‘ بھارت منتقل ہونے پر مجبور ہو گئے۔
حسب روایت حکومت اور حکومت سے باہر تمام سیاسی پارٹیوں نے سانحہ جڑانوالہ کی مذمت کی ہے۔ پنجاب کی حکومت نے یقین دلایا ہے کہ چار دن کے اندر گرجا گھروں اور رہائشی مکانوں کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت کر کے انہیں بحال کر دیا جائے گا۔ اس واقعہ میں فرنٹ مین کا کردار ادا کرنے والے شر پسندوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد 150 تک پہنچ چکی ہے‘ تاہم ایک ہزار سے زیادہ افراد کی ویڈیوز کے ذریعے شناخت ہو چکی ہے جنہیں آئی جی پنجاب پولیس کے مطابق جلد گرفتار کیا جائے گا۔ جڑانوالہ سانحہ اتنا دل دہلا دینے والا واقعہ ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کی طرف سے اس کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے جڑانوالہ سانحہ سے متاثر ہونے والے لوگوں سے ہمدردی اور یکجہتی کے اظہار کے لیے جلوس نکالے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہمارے غیر مسلم بھائیوں میں خوف پایا جاتا ہے کہ مستقبل میں مزید کوئی ایسا واقعہ ہو سکتا ہے کیونکہ مشتعل ہجوم جب گھروں یا عبادت گاہوں پر حملہ آور ہوتا ہے تو پولیس موقع پر موجود نہیں ہوتی یا اس کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ ہجوم کو قابو میں لانا اس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ انہیں اس بات کا یقین دلانے کے لیے کہ آئندہ ایسی کسی بھی صورت میں انہیں ہجوم کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے بلکہ ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ ہجوم کے ہاتھوں سے بے گناہ اور معصوم شہریوں کو بچایا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے پولیس اور ضلعی انتظامیہ نہ تو وسائل کے اعتبار سے اور نہ ہی تربیت کے لحاظ سے کافی ہے۔
جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا وہ پُرتشدد انتہا پسندی کی بد ترین شکل ہے۔ گزشتہ تقریباً چار دہائیوں پر مشتمل عرصے کے دوران میں مذہبی جنونیت کے ہاتھوں قومی سطح پر جانی اور مالی نقصان کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان وسیع پیمانے پر اور بہت گہرائی تک سرایت کر چکا ہے۔ اس لیے جڑانوالہ جیسے واقعات کو آئندہ وقوع پذیر ہونے سے روکنے کے لیے جامع اور طویل المیعاد حکمت عملی اور عملی پلان کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا کہ اس قسم کے واقعات ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور پھر اس صوبے کے مرکزی حصوں میں ہی کیوں ہوتے ہیں؟ ایک ریسرچ ادارے کی تحقیق کے مطابق 1986ء تک توہین کے واقعات کی تعداد (1948ء سے 1985ء تک) 11 تھی مگر 1986ء کے بعد 1700 واقعات ہو گئے اور ان میں سے 70 فیصد واقعات پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔ کچھ سکالرز نے اس کی وجوہات بیان کی ہیں‘ جن کا اس کا کالم میں جگہ کی کمی کے باعث ذکر نہیں کیا جا سکتا تاہم پنجاب کی حکومت کو اس حقیقت کے پیش نظر عام پولیس سے ہٹ کر ایک ریپڈ ڈیپلائمنٹ فورس تیار کرنی چاہیے جسے اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے نہ صرف تربیت دی جائے بلکہ ضروری وسائل سے بھی آراستہ کیا جائے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ اس قسم کے واقعات سے ہمارے قومی مفادات پر بھی زد پڑتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان میں ایسے مائنڈ سیٹ کو تقویت ملی ہے جو پاکستان کے اس جمہوری اور پارلیمانی نظام کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کابینہ ارکان کے ہمراہ گزشتہ جڑانوالہ گئے‘نگران وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اس واقعہ سے قائداعظم کے پرامن پاکستان کا امیج خراب ہوا‘ دین اسلام نیاقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کادرس دیا ہے‘ ہم سب نے مل کرمسیحی برادری کے دکھوں کا مداوا کرنا ہے۔کچھ روز پہلے بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ سانحہ جڑانوالہ کے متاثرین کے نقصان کو تین سے چار روز کے اندر پورا کیا جائے گا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا لائحہ عمل بناتی ہے اور جڑانوالہ کے مسیحی خاندانوں کے مالی نقصان کا ازالہ کس طرح کیا جاتا ہے۔ شکر ہے کہ جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں کسی کی جان نہیں گئی‘ مگر جو ذہنی اور نفسیاتی نقصان لوگوں کا ہوا ہے وہ تو ناقابل تلافی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved