حکایت ہے کہ کسی ملک میں بادشاہ کا انتقال ہو گیا‘ صبح صادق کے وقت شہر کے صدر دروازے سے داخل ہونے والے پہلے شخص کو بادشاہ بنائے جانے کا اعلان ہوا۔ لوگوں کی نظریں دروازے پر جم گئیں۔ صبح جو پہلا شخص صدر دروازے سے داخل ہوا وہ ایک درویش صفت مسافر تھا۔ اسے تیار کر کے تخت نشین کر دیا گیا۔ سب سے پہلا حکم اس نے یہ جاری کیا کہ حلوہ پکایا جائے۔ حلوے کی ایک بڑی دیگ چڑھا دی گئی اور سب نے خوب سیر ہو کر حلوہ کھایا۔ چند ہفتوں بعد مملکت کے شاہی مخبروں نے اطلاع دی کہ سرحدوں پر معاملات خراب ہو رہے ہیں، سپاہ میں بے چینی پائی جاتی ہے، وزرا اپنے کام کاج میں دھیان نہیں دے رہے، انتظامی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، ریاست کے معاملات درست سمت میں نہیں جا رہے مگر اس کے جواب میں درویش بادشاہ نے حلوہ پکوایا، خود بھی خوب کھایا اور دوسروں کو بھی کھلایا۔ حلوے پکتے رہے‘ افسران بادشاہ کو اپنی اپنی وزارتوں اور محکموں کی کامیابی کی داستانیں سناتے رہے۔ پھر ایک دن رپورٹ ملی کہ بادشاہ سلامت کے تخت کو خطرہ ہے‘ کئی عاقبت نااندیش بادشاہ کو تخت سے اتارنا چاہتے ہیں، یہ سن کر درویش بادشاہ نے آنکھ اٹھائی اور دوبارہ حلوہ پکانے کا حکم جاری کر دیا۔ غرض بادشاہ کو جب کبھی کوئی اچھی‘ بری خبر ملتی وہ یہی حکم جاری کرتا کہ حلوہ پکاؤ۔ ایک دن خدام خلوت میں گھبرائے گھبرائے آئے اور عرض کی کہ حضور محل پر قبضہ ہونے جا رہا ہے‘ پڑوسی ریاست کے بادشاہ نے چڑھائی کر دی ہے اور وہ اپنے ساز و سامان اور لشکر کے ساتھ کچھ ہی دیر میں دارالحکومت پہنچ جائے گا، بادشاہ نے حکم دیا کہ حلوہ پکاؤ اور ہر خاص و عام میں تقسیم کرو۔ ادھر حلوے کی دیگ ابھی چولھے پر ہی چڑھی ہوئی تھی کہ مخالف لشکر محل میں داخل ہو گیا اور تخت پر قبضہ کر لیا۔ درویش نے اپنی کپڑوں کی پوٹلی اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہو گیا کہ ریاست، مملکت اور انتظام و انصرام سے مجھے کیا سروکار، مجھے تو حلوے سے مطلب ہے، اب اس کا بندوبست میں کسی اور جگہ کر لوں گا۔
ملکِ خداداد کو بھی ایک ایسے ہی سولہ ماہی دور سے واسطہ پڑا۔ ان سولہ ماہ میں مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی اور غریب کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا محال ہو گیا۔ ویسے تو درویشوں کے اس ٹولے نے مہنگائی کم کرنے اور رعوام کو ریلیف دینے کے نام پر حکومت سنبھالی تھی مگر ان کے حکومت سنبھالنے سے حکومت چھوڑنے تک‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک طوفان بستی پر سے گزرا ہے جو پیچھے تباہی کی داستان چھوڑ گیا ہے۔ چینی اپریل 2022ء میں 86 روپے فی کلو تھی جو اب 170 کو چھو رہی ہے۔ بیس کلو آٹے کا تھیلا 1400 سے بڑھ کر 3000 روپے سے بھی اوپر جا چکا ہے۔ ہو چکا ہے۔ پٹرول 150 روپے سے 290روپے اور ڈیزل 150 روپے سے 293روپے فی لیٹر ہو چکا ہے۔ ڈالر جو 182 روپے کا تھا‘ اب تین سو روپے سے بھی اوپر جا چکا ہے، بلکہ مارکیٹ میں سرے سے ناپید ہو چکا ہے۔ گھی 450 روپے سے 600 روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے۔ مہنگائی کی شرح 13 فیصد سے بڑھ کر 29 فیصد پر چلی گئی ہے۔ شرحِ سود نے 12 فیصد سے 22 فیصد تک کا سفر طے کیا ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر سے کم ہوکر ساڑھے تیرہ ارب ڈالر کے قریب ہیں جن میں سے تین‘ چار ارب ڈالر دوست ملکوں نے امانتاً رکھوائے ہوئے ہیں۔ ملک کے کل قرضے 44 ہزارارب سے بڑھ کر 58 ہزار ارب سے بھی زائد ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف، سعودی عرب اور یواے ای سے آنے والے نئے قرضے اس فہرست میں شامل نہیں۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت تو ناقابلِ بیان اور ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے۔ جنہیں پہلے چار‘ پانچ ہزار روپے ماہانہ بل آتا تھا وہ اب ساٹھ‘ ستر ہزار روپے محض بجلی کے بل کی مد میں ادا کر نے پر مجبور ہیں۔ حالیہ چند دنوں میں غربت، مکان کے کرائے اور بچوں کی فیسیں نہ دے سکنے کے باعث خود کشی کے اتنے واقعات کی خبریں سننے کو ملی ہیں کہ اس سے قبل تلخ سے تلخ حالات میں بھی یہ سب نہیں دیکھا۔ سب سے بڑھ کر مایوسی اور ناامیدی‘ جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی‘ وہ اس وقت ملکی منظرنامے پر پوری طرح سے چھائی ہوئی ہے۔ جس گروہِ درویشاں سے عوام اپنی مشکلات کے حل کی امیدیں لگائے ہوئے تھے وہ سولہ ماہ کے دوران ''بل پاس کرو، مقدمات ختم کرو‘‘ کی روش پر گامزن رہا اور اب سب کی نظریں دوبارہ شہر کے صدر دروازے پر ٹکی ہوئی ہیں۔
76 برس پیچھے کیوں جائیں‘ اتنے طویل عرصے کی باتیں اور واقعات رہنے دیجئے‘ گزشتہ تیس‘ پینتیس برس کی سیا ست پر نظر ڈال لیں۔ اپنوں اور غیروں کے عمل دخل سے جیسے ہی کبھی ہلچل مچی تو آسمانِ سیاست پر زمین سے اٹھنے والے سیاہ کالے بادلوں اور کڑکتی چمکتی اور دل دہلا دینے والی گرج چمک والے طوفان میں جمہوریت اور استحکام کی کشتی جیسے ہی ہچکولے کھانا شروع ہوتی تو سب کی نظریں بے ساختہ کسی کرشمے، کسی مسیحا کی تلاش میں اٹھ جاتیں۔ جس طرح فیصل آباد کے آٹھ بازاروں کے ہجوم میں پھنس کر راستہ بھول جانے والے لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح گھنٹہ گھر کے اونچے برج یا اس پر لگے کلاک پر نظر پڑ جائے تاکہ اس کے ذریعے وہ اپنی کھوئی ہوئی منزل کا تعین کر لیں‘ اسی طرح ہر ایک کے دل میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے کی وجہ سے جب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے رہا ہو‘کاروبارِ حیات چلنا مشکل تر ہونے لگے تو گھنٹہ گھر کو دیکھ لیا جائے کلاک کے رخ سے منزل کا تعین آسان ہو جائے۔
گزشتہ سال جب ایک حکومت کو رخصت کر کے گھر بھیجنے کی تیاریاں تھیں‘ اس وقت عوام کیا‘ خواص بھی اٹھتے بیٹھتے ایک ہی بات کرتے کہ حکومت کرنا بڑے تجربے، مہارت، بصیرت اور بڑے دل گردے کا کام ہوتا ہے اور یہ تمام صفات ایک شخص میں کماحقہٗ موجود ہیں‘ اس لیے اس کی خدمات حاصل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ پچھلے کپتان کو نکال باہر کرنے کے بعد نئے کپتان کو ڈوبتی اور ہچکولے کھاتی کشتی سونپ دی گئی اور اس کی مہارت اور بہترین ایڈمنسٹریشن کے فوائد سمیٹنے کیلئے اسے اضافی طاقت بھی دی گئی، یعنی راستے کی ہر کچی پکی دیوار گرا کر تمام پتھر‘ اینٹ اور روڑے اٹھا کر‘ ان کو ہموار کرکے راستہ تراشا گیا اور مارکیٹ میں موجود سبھی گھوڑوں کو اس کی بگھی میں جوت کر اسے آرام دہ اور محفوظ ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا کر ہر طرف منادی کرا دی گئی کہ یہی وہ مسیحا ہے تم سب کو جس کا کئی دہائیوں سے انتظار تھا۔ اور پھر دن گزرتے چلے گئے، ماہ در ماہ بیتنے لگے لیکن درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ پہلے تو آنکھوں کو یقین ہی نہ آیا لیکن جب ایک ایک کر کے سب کچھ صاف ا ور شفاف دکھائی دینا شروع ہوا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ یہ کیا ہوا ہے۔ وہ پکوان‘ جو اتنے جتن اور اتنی چاہت سے تیار کیا گیا تھا‘ اسے کیا ہوا کہ کوئی بھی اسے کھانا تو دور‘ چکھنے کو بھی تیار نہیں۔ وہ بصیرت اور وہ صلاحیتیں جن سے متعلق کہا جا رہا تھا کہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں‘ وہ تمام پوشیدہ کی پوشیدہ ہی رہیں۔ وہ ذہانت‘ جس کے قصے سنائے جاتے تھے‘ وہ ایڈمنسٹریشن‘ جس کے چہار جانب چرچے تھے‘ سولہ ماہ تک نہ تو کہیں دیکھنے کو مل سکیں اور نہ ہی دنیا کے کسی کونے سے کوئی نمایاں کامیابی ہاتھ آ سکی۔ وہ نظام جس کو نجانے کتنے اربوں‘ کھربوں کی پالش لگا کر لشکایا، چمکایا گیا تھا‘ ایسا اُکھڑا کہ اس کے در و دیوار کو دیکھتے ہوئے لگنے لگا ہے کہ کسی آسیب کا سایہ پڑ چکا ہے۔ بستی کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ چاروں جانب بھوک، بے بسی، غربت، مہنگائی اور لاقانونیت کے بھوت ناچ رہے ہیں۔ وہ بازار جو ہر وقت چکا چوند کیے رکھتے تھے‘ وہ فیکٹریاں اور کارخانے جن کی چمنیوں سے ہمہ وقت دھواں نکلتا رہتا تھا‘ ہانپنا کانپنا شروع ہو گئے ہیں۔ ملکی معیشت کا پہاڑ مسلسل لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں ہے۔ چھ فیصد کی گروتھ والی معیشت صرف سولہ ماہ میں ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنا شروع ہو چکی ہے۔ دیارِ غیر سے 'امپورٹ‘ کیے گئے معیشت دان‘ جن سے بہت امیدیں وابستہ تھیں کہ ڈالر کو لگام ڈالیں گے‘ جنہیں تمام راہیں آسان بنانے کے بعد لندن سے بلایا گیا تھا‘ جن کی آمد کا سنتے ہی ڈالر دس روپے گر گیا تھا‘ جن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر قدم رکھتے ہی ہر طرف شادیانے بجنے لگے تھے کہ ''کس شیر کی آمد ہے کہ ڈالر کانپ رہا ہے‘‘ وہ ڈالر کو 300 کی بلندی پر چڑھا کر واپس روانہ ہو چکے ہیں اور لوگ ایک بار پھر آٹھ بازاروں میں کھو کر راستہ تلاش کرنے کی خاطر گھنٹہ گھر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved