ذہن ہر دم کچھ نہ کچھ سوچتا اور طے کرتا رہتا ہے۔ ذہن سوچنے اور کچھ نہ کچھ طے کرتے رہنے ہی کے لیے ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ذہن میں وہ سب کچھ نہیں سماتا جو سمانا چاہیے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہمارے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ ماحول میں جو کچھ بھی پایا جاتا ہے وہ ذہن کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ یہ غیر محسوس عمل ہے۔ بیشتر معاملات میں جب تک انسان کو اس غیر معمولی عمل کی سنگینی کا اندازہ ہو پاتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اگر کوئی اپنے آپ کو ماحول سے تھوڑا سا دور رکھے تو کچھ بہتری کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ اگر ذہن کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو یہ ماحول سے ایسا بہت کچھ اخذ کرتا رہتا ہے جو ہمارے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ ذہن مقناطیس کی طرح ہوتا ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اِس کی طرف کھنچتا چلا آتا ہے۔ اگر ذہن کو قابو میں نہ رکھا جائے یعنی اِسے ماحول سے تھوڑا سا الگ رکھنے کی کوشش نہ کی جائے تو یہ بہت تیزی سے بھرتا چلا جاتا ہے۔ ذہن میں غیر متعلق باتوں کے جمع ہونے سے اِس کی تجزیہ کرنے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ہر دور کے انسان کو فیصلوں تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے اور اِس کا بنیادی سبب یہی رہا ہے کہ وہ کبھی ذہن کو غیر متعلق باتوں سے محفوظ رکھنے پر خاطر خواہ حد تک متوجہ نہیں رہا۔ اگر ذہن میں بہت کچھ بھرا ہو تو یکسُوئی متاثر ہوتی ہے یعنی انسان کسی خاص معاملے یا چند خاص معاملات پر توجہ مرکوز رکھنے ناکام رہتا ہے۔ کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرنے کے لیے انہماک ناگزیر ہے۔ انہماک ہی کی مدد سے انسان اپنی صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے قابل ہو پاتا ہے۔ انہماک نہ ہو تو ذہن بکھرا رہتا ہے اور جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے وہ بھی نہیں ہو پاتا۔
کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین افراد سب سے زیادہ زور اِس نکتے پر دیتے ہیں کہ انسان کو ایک خاص حد تک ہی سوچنا چاہیے اور اُس کے بعد میدانِ عمل میں قدم رکھنا چاہیے۔ نپولین بونا پارٹ کا مشہور مقولہ ہے کہ آپشنز یا امکانات کے بارے میں سو بار سوچئے مگر جب عمل کی گھڑی آ جائے تو سوچنا ترک کیجیے اور عمل کی راہ پر گامزن ہو جائیے۔ سوچ کی بھی اہمیت ہے مگر اُس سے کہیں زیادہ اہمیت عمل کی ہے۔ بہت سوچنے پر کچھ نہ کیا جائے تو انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ اِس کے برعکس زیادہ سوچے بغیر عمل کے محاذ پر کچھ کر دکھانے سے انسان کو کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوتا ہے۔ اِسی لیے تو کہا گیا ہے کہ ع
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
والٹ ڈِزنی کو ایک دنیا جانتی ہے۔ اُنہوں نے ایک شاندار تفریحی پارک کا خواب دیکھا اور دن رات ایک کرکے اُسے شرمندۂ تعبیر کیا۔ امریکہ میں قائم ڈِزنی لینڈ نے دنیا بھر کے تفریح پسند لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ ایک زمانے سے دنیا بھر کے لوگوں کا وتیرہ ہے کہ جب امریکہ جاتے ہیں تو کیلیفورنیا میں ڈِزنی لینڈ کی سیر ضرور کرتے ہیں۔ والٹ ڈِزنی نے ایک ایسی دنیا تیار کی ہے جس میں پہنچ کر لوگ باہر کی یعنی اصلی دنیا کو بھول جاتے ہیں۔ ڈِزنی لینڈ محض تفریحی پارک نہیں بلکہ خوابوں کا جہاں معلوم ہوتا ہے۔ تفریحی پارک کے نام پر ایک انوکھی دنیا کو معرضِ وجود میں لانے والے والٹ ڈِزنی نے کہا تھا ''عمل کے محاذ پر کچھ کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان بولنا چھوڑے اور کچھ کرنا شروع کرے‘‘۔
یہ دنیا عمل سے عبارت ہے۔ یہاں باتیں بنانے والے بھی ہیں یعنی جو باتیں بناتے رہتے ہیں وہ بھی زندہ رہتے ہیں، زندگی گزارتے رہتے ہیں مگر وہ کس حال میں زندہ رہتے ہیں یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ باتیں بگھارنے والے باتیں ہی بگھارتے رہ جاتے ہیں اور دنیا آگے نکل جاتی ہے۔
ہر انسان کے ذہن میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ یہی تو اصل مسئلہ ہے۔ یہ ''بہت کچھ‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔ ذہن کو کباڑ خانے میں تبدیل ہونے سے بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم لاپروائی کا مظاہرہ کریں تو ذہن دھیرے دھیرے فضول چیزوں سے بھرتا چلا جاتا ہے اور پھر کباڑ خانے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ذہن جب فضول باتوں سے بھرا ہوا تو فیصلے کی منزل تک آسانی سے نہیں پہنچ پاتا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذہن جب فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تب تک وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ہر فیصلہ صرف اِس بنیاد پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے کہ اُسے بروئے کار لانے کا وقت ہے یا نہیں۔
ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت بہت تیزی سے ابھر کر سامنے آتی ہے کہ لوگوں نے محض باتیں بنانے کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ دنیا بھر کی فضول باتیں ذہن میں بھرنے کے بعد لوگ اُن کی جگالی کرتے رہتے ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ زیادہ اور اچھا وہی بولتے ہیں جو ذہین ہوتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ ذہنوں میں یہ گِرہ پڑچکی ہے کہ جو زیادہ بولتے ہیں وہ ذہین ہیں۔ یہ بالکل بے بنیاد تصور ہے۔ بولنے یا زیادہ بولنے کا ذہانت سے کوئی خاص تعلق نہیں بلکہ زیادہ بولنا تو عارضے کے درجے میں ہے! جنہیں کچھ کرنا ہوتا ہے وہ خاموش رہتے ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔
محمد رفیع مرحوم سے کون واقف نہیں؟ برصغیر میں اُن سے بڑا گلوکار اب تک نہیں ہوا۔ اُن کی زندگی صرف کام کرتے گزری۔ اُنہوں نے کبھی فضول معاملات میں دلچسپی نہیں لی۔ ماحول میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس سے اُنہیں کچھ غرض نہ تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے کام میں ڈوبے رہتے تھے۔ اس وصف ہی کی بنیاد پر اُنہوں نے فلموں میں تقریباً چھ ہزار گانے گائے۔ ایک زمانہ تھا کہ پوری پوری فلم کے گانے وہ گایا کرتے تھے۔ بحث و تمحیص کو تو رہنے ہی دیجیے، لوگوں نے اُنہیں کبھی زیادہ باتیں کرتا بھی نہیں پایا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خاصے شرمیلے تھے اور بات کرنے سے گھبراتے‘ کتراتے تھے۔ اُنہیں انٹرویو دینا بھی پسند نہ تھا۔ جو لوگ اُن سے کچھ دیر گفتگو کرتے تھے اُنہیں یقین ہی نہیں آتا تھا کہ جو آدمی اِتنا شاندار گاتا ہے وہ بولنے کے معاملے میں اِتنا ''بے سُرا‘‘ ہے! سیدھی سی بات ہے، محمد رفیع اِس دنیا میں گانے کے لیے آئے تھے، باتیں بگھارنے کے لیے نہیں۔
باتیں بنانے کا فن بھی بُرا نہیں مگر یہ سب کے لیے نہیں۔ جن کی روزی ہی باتیں بنانے سے وابستہ ہو اُنہیں دن رات بولنے کی تربیت حاصل کرنی چاہیے اور مشق بھی جاری رکھنی چاہیے۔ اینکر پرسن کا کام بولنا ہے۔ تجزیہ کار کو بھی بولنے سے غرض ہے کیونکہ وہ اِسی کی تو روٹی کھاتے ہیں۔ عام آدمی بول بول کر اپنے آپ کو ضائع کرنے پر کیوں تُلا رہتا ہے؟ بولنا سب کے لیے لازم ہے نہ سُودمند۔
ہمارے ہاں ایک زمانے سے عمومی رجحان یہ ہے کہ لوگ ذرا سی فراغت میسر ہوتے ہی بولنے لگتے ہیں۔ بہت سوں نے تو یہ سمجھ لیا ہے کہ موقع ملنے پر بھی کچھ نہ کہنا محض حماقت نہیں بلکہ اپنے وجود سے غداری ہے! ڈرائنگ رومز کے علاوہ ہوٹلوں میں اور تھڑوں پر لوگ گھنٹوں بتیاتے رہتے ہیں۔ نئی نسل کا یہ حال ہے کہ رات بھر ہوٹلوں کی کرسیاں توڑتی رہتی ہے یعنی باتیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ خدا جانے وہ کیا باتیں ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں! کسی بھی انسان کے لیے پاس بولنے کے لیے کیا اور کتنا ہوسکتا ہے؟ ایک حد تو آ ہی جاتی ہے مگر یہاں کوئی حد دکھائی نہیں دیتی۔ لوگ روز چار چار‘ پانچ پانچ گھنٹے ملتے ہیں اور وہی باتیں کرتے رہتے ہیں جو روز کرتے ہیں!
ہر ترقی پذیر معاشرے کو کسی نہ کسی مرحلے پر انقلابی تبدیلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم بھی اُس منزل پہ پہنچ چکے ہیں۔ اب لازم ہوچکا ہے کہ باتیں بگھارنے کے رجحان کو خیرباد کہتے ہوئے کچھ کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ دنیا نے اِتنی ترقی محض باتوں سے نہیں کی۔ عمل ہی کے ذریعے کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ اگر ہمیں بھی کچھ کرنا ہے تو باتیں چھوڑ کر عمل کی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔ یہ مرحلہ مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved