سیموئل کی پہلی ناکامی کا احوال قارئین میرے پندرہ اگست کے کالم میں پڑھ چکے ہیں۔ جن احباب کی نظر سے یہ تحریر نہیں گزری ان کی اطلاع کے لیے مختصراً عرض ہے کہ سیموئل میرا ذاتی معاون ہے اور حیران کن صلاحیتوں کا مالک ہے۔ گھر کی مرمت سے لے کر‘ کپڑے استری کرنے تک اور جنات سے نمٹنے سے لے کر قسمت کا حال بتانے تک ہر کام کر سکتا ہے۔ ایک برخوردار جو کچھ عرصہ میری گاڑی کا کوچوان رہا‘ اچانک پریشان دکھائی دینے لگا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس کی بیوی پر کسی جن کا قبضہ ہے۔ اس جن کی وجہ سے وہ اپنے میاں سے بدسلوکی کرتی ہے‘ میاں کی ماں کو گھر سے نکالنا چاہتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا تو جن بچوں کو نقصان پہنچائے گا۔ یہ کیس سیموئل کو دیا گیا۔ اس نے عملیات اور مراقبے کے بعد یہ تشخیص کی کہ اصل میں جنات کا سایہ کوچوان کی ساس پر ہے۔ وہاں سے یہ سایہ سفر کرتے کرتے اس کی بیٹی‘ یعنی کوچوان کی بیوی پر پڑ گیا۔ علاج سیموئل نے یہ تجویز کیا کہ کوچوان کی ساس کو سات راتیں اندھیرے قبرستان میں گزارنا پڑیں گی اور سات دن صرف مسور کی دال اور ایک چپاتی پر گزارہ کرنا ہوگا۔ چائے اس اثنا میں منع ہو گی۔ جیسے ہی کوچوان کی بیوی کو معلوم ہوا کہ اس کی ماں کے لیے یہ علاج تجویز ہوا ہے‘ وہ فوراً تندرست ہو گئی۔ اب اس نے اپنی ساس کو اپنے پاس ہی رکھا ہوا ہے۔
پہلی ناکامی سیموئل کی یہ تھی کہ میں نے اسے کہا تھا کہ کسی طرح مجھے نگران وزیر اعظم لگوائے۔ یہ کام اس کی محیّر العقول صلاحیتوں کے سامنے کچھ بھی نہ تھا۔ کام تقریباً ہو بھی چکا تھا مگر یقینا قدرت نے مجھ سے کوئی کام اس سے بھی بڑا لینا ہو گا اس لیے سیموئل ناکام ہو گیا۔ ویسے عام طور پر ایسے ہوتا نہیں!
جلد ہی نگران کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ آگیا۔ مجھے احساس ہوا کہ اصل کام تو وزرا کرتے ہیں۔ وزیراعظم تو صرف نگرانی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے نگران وزیر بننا چاہیے۔ میں نے سیموئل کو طلب کیا۔ وہ میرے گھر کی چھت کی مرمت کروانے کے بعد‘ میرے ہی ایک کیس کے سلسلے میں چیف کمشنر صاحب کے پاس گیا ہوا تھا۔ ( اسے سینئر حکام کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ خوب آتا ہے!) ادھر میں اُس کا بے تابی سے انتظار کر رہا تھا‘ اُدھر چیف کمشنر صاحب اُس سے اپنے محکمہ جاتی مسائل ڈسکس کرنے لگ پڑے۔ وہ تو اسے ایک بار ترقیاتی ادارے کا ممبر (پلاننگ) تعینات کرنا چاہتے تھے مگر المیہ یہ ہوا کہ سیموئل کے پاس ڈگری صرف پانچ جماعتوں کی تھی۔ افسوس! ایک جوہرِقابل کی خدمت سے ملک اور قوم محروم رہ گئے صرف اس لیے کہ اس جینیس کے پاس کاغذ کی ڈگری نہیں تھی! میں نے سیموئل کو ڈانٹا کہ تمہارے پاس بڑی ڈگری کیوں نہیں۔ وہ حسبِ معمول ہنسا اور کہنے لگا: سر جی! شہنشاہ اکبر کے پاس کون سی ڈگری تھی؟ وہ تو پانچ بھی نہیں پڑھا ہوا تھا۔ اور وہ جو محمد تغلق بہت پڑھا لکھا تھا‘ اس کا نام تاریخ دانوں نے ''پڑھا لکھا بے وقوف‘‘ رکھا ہوا ہے! (تاریخ پر سیموئل کی گہری نظر ہے)۔
ہم موضوع سے دور جا رہے ہیں! میں نے اسے کہا: تمہارے لیے اپنی ساحری دکھانے کا ایک اور موقع ہے۔ تم مجھے نگران وزیراعظم نہ بنوا سکے‘ اس میں یقینا قدرت کی مصلحت تھی۔ اب جب نگران وزرا تلاش کیے جا رہے ہیں تو تم مجھے نگران وزیر لگوا دو۔ تم اگر صدقِ دل اور خلوصِ نیت سے کوشش کرو تو یہ کام تمہاری غیر معمولی اور ناقابلِ یقین صلاحیتوں کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ سیموئل ہنسا اور کہا: سر جی! گل ای کوئی نئیں! نگران وزیر آپ نہیں بنیں گے تو آخر کون بنے گا! پاکستانیوں ہی نے بننا ہے! اب امریکہ سے تو بندے آنے نہیں!
چار دن گزر گئے۔ پانچویں دن سیموئل آیا تو اس کا چہرا اُترا ہوا تھا۔ آنکھیں سرخ تھیں۔ لگتا تھا وہ رات کو سویا نہیں۔ اس ہنس مُکھ انسان کو اس دگرگوں حالت میں مَیں نے پہلی بار دیکھا۔ کہنے لگا: سر جی آپ کو یاد ہے؟ آج سے بیس سال پہلے میں نے آپ کو کیا مشورہ دیا تھا؟ میں نے کہا: نہیں! مجھے نہیں یاد! سیموئل کا لہجہ انتہائی درد ناک ہو رہا تھا۔ کہنے لگا: آپ بھول گئے۔ میں نے اصرار کیا تھا کہ آپ سارے کام چھوڑ کر اینکر بن جائیے۔ مگر آپ نے میرا مشورہ ہنسی میں اُڑا دیا۔ آپ کا کمنٹ یہ تھا کہ اینکر ہونے کی نسبت لکھنے پڑھنے کا کام زیادہ اہم ہے۔ کمپیئر نگ یا نظامت تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ بات کیا ہے؟ کہنے لگا: نگران وزیر کے لیے انہوں نے جو مختلف معیار رکھے ہیں ان میں سے کسی پر بھی آپ پورے نہیں اُترتے۔ ایک معیار یہ ہے کہ آپ کسی گزشتہ حکومت کا حصہ رہے ہوں اور نکال دیے گئے ہوں۔ ایک معیار یہ ہے کہ آپ کسی گزشتہ حکومت کا حصہ رہے ہوں اور ناکام رہے ہوں۔ ایک معیار یہ ہے کہ آپ اینکر ہوں اور اینکر ہونے کی وجہ سے آپ مشہور ہوں! میں نے اسے تسلی دی کہ وہ اپنی پریشانی دور کرے اور حواس مجتمع کرے! نگران وزیر بننے کے لیے جو معیار فکس کیا گیا ہے اگر میں اس پر پورا نہیں اُتر رہا تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ رہی! میں نے اس کے لیے ٹھنڈا پانی اور پھر چائے منگوائی! کہنے لگا: میں نے اصحابِ قضا و قدر سے باقاعدہ پوچھا کہ ایک مرد یا خاتون اگر اینکر ہونے کی وجہ مشہور ہے اور اگر اس کا چہرا جانا پہچانا ہے تو اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلتا ہے کہ وہ وزارت بھی چلا لے گا‘ وہ بیورو کریسی کو بھی سنبھال لے گا اور کارو بارِ مملکت کو بھی سمجھتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے عوام کو خوش کرنا ہے۔ جن صورتوں سے وہ آشنا ہیں انہیں کابینہ میں دیکھ کر انہیں ایک قسم کا اطمینان ہو گا۔
میں نے سیموئل سے پوچھا کہ کچھ افراد کو ایڈوائزر بھی تو لگایا گیا ہے۔ یہ تقریباً ہر حکومت میں ایڈوائزر رہے ہیں۔ اس پر سیموئل کی پرانی ہنسی لوٹ آئی۔ کہنے لگا: میرا ایک دوست ایسے ہی ایک ایڈوائزر سے ملانے مجھے لے گیا۔ مجھے جہاں بٹھایا گیا وہاں سے میں ایڈوائزر کو دفتر جانے کی تیاری کرتے دیکھ سکتا تھا۔ اس کے تین چار ملازم اسے تیار کر رہے تھے۔ پہلے اسے مصنوعی بازو لگائے گئے۔ پھر ٹانگیں۔ اب یہ نہیں معلوم کہ یہ بازو اور ٹانگیں پلاسٹک کے تھے یا لکڑی کے یا ہارڈ بورڈ کے۔ پھر اس کے دونوں کانوں میں آلہ ہائے سماعت نصب کیے گئے۔ پھر ان کی آنکھوں پر بہت بھاری عینکیں لگائی گئیں۔ پھر یہ سارے ملازم اسے سہارا دے کر گاڑی تک لے گئے۔ میں نے سیموئل کی سرزنش کی کہ اسے اس طرح چھپ کر نہیں دیکھنا چاہیے تھا اور بزرگ خواہ اس صدی کے ہوں یا بیسویں صدی کے یا انیسویں یا اٹھارہویں صدی کے‘ ہم پر ان کا احترام لازم ہے۔ سیموئل خاموشی سے میری بات سنتا رہا۔ جاتے ہوئے کہنے لگا: سر جی! ایک بات ضرور کہوں گا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا میں نے بہت سنجیدگی سے اور تنبیہ کے انداز میں اسے کہا کہ نگران کابینہ کے بارے میں اسے کوئی منفی بات نہیں کرنی چاہیے۔ یہ سب قابل لوگ ہیں۔ ان میں سے کچھ میرے ذاتی دوست بھی ہیں۔ ہمیں ہمیشہ نئے چہروں کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ ان کی کامرانی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ اگر نگران کابینہ دیانتداری سے ڈِلیور کرتی ہے تو ہمیں اور کیا چاہیے! سیموئل مسکرایا اور اپنا سدا بہار فقرہ ''سر جی گل ای کوئی نئیں‘‘ کہہ کر چلا گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved