19اگست کو یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ صدرِ مملکت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے ہیں۔ میڈیا پر چلنے والی ان خبروں سے اندازہ ہوا کہ بل پر صدرِ مملکت نے واقعی دستخط کر دیے ہیں اور یہ بل اب قانون بن چکے ہیں لیکن 20اگست کو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی تردیدی ٹویٹ نے نیا محاذ کھول دیا۔ صدرِ مملکت نے کہا کہ خدا گواہ ہے میں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023ء اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023ء پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں۔ ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انہیں غیر مؤثر بنایا جا سکے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا کہ میں نے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ دستخط کے بغیر واپس بھجوائے جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ واپس بھجوائے جا چکے ہیں‘ تاہم مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اللہ سب جانتا ہے‘ وہ ان شاء اللہ معاف کر دے گا لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ٹویٹ سامنے آنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنا دامن بچا لیا ہے لیکن کیا یہ معاملہ واقعی ایک ٹویٹ سے حل ہونے والا ہے؟
ابہام کہاں ہے‘ حقیقت کیا ہے اور یہ کہ صدرِ مملکت کے پاس بل کے حوالے سے کتنے آپشن موجود تھے‘ اس حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے اور قانونی ماہرین کی آرا منقسم ہیں۔ نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے صدرِ مملکت کے حالیہ ٹویٹ پر کہا ہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل27جولائی 2023ء کو سینیٹ سے پاس ہوا‘ ایوانِ صدر کو یہ بل دو اگست کو موصول ہوا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل یکم اگست کو قومی اسمبلی نے منظور کرکے سینیٹ کو بھجوایا۔ سینیٹ نے اس بل پر کچھ آبزرویشنز لگا کر قومی اسمبلی کو واپس بھیجا۔ قومی اسمبلی نے اس بل کو سات اگست کو منظور کیا اور بل اگلے روز ایوانِ صدر کو موصول ہو گیا۔ پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل دو اگست اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل ایوان صدر کو آٹھ اگست کو موصول ہوا۔ جب کوئی بل صدر کو بھیجا جاتا ہے تو صدر کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں‘ پہلا یہ کہ صدر صاحب اس بل کی منظوری دے دیں۔ دوسرا اختیار یہ کہ صدر کی اس بل کے حوالے سے اگر کوئی آبزرویشنز ہیں تو وہ تحریری انداز میں بھجوائی جائیں۔ آئین کے آرٹیکل 75کے تحت اس حوالے سے صدرِ مملکت کو کوئی تیسرا اختیار حاصل نہیں۔ یہ دونوں اختیارات استعمال کرنے کے لیے 10دن کا وقت آئین میں متعین کیا گیا ہے۔ یوں صدرِ مملکت کے پاس 10دن کا وقت تھا اور دس دن کا وقت گزرنے کے بعد اب مذکورہ بل ایکٹ بن چکے ہیں۔ آئین کی اسی شق کی بنا پر کہا جا رہا ہے کہ اگر صدرِ مملکت کو بل پر کوئی اعتراض تھا تو مقررہ مدت کے دوران تحریری طور پر اس اعتراض سے آگاہ کیا جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا اور وقت گزرنے کے بعد محض ایک ٹویٹ کے ذریعے خود کو بری الزمہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ آئین کے مطابق صدرِ مملکت کو بل پر کوئی اعتراض ہو یا ان کے خیال میں وہ آئین سے متصادم ہو تو وہ 10دنوں کے اندر بل واپس اسمبلی کو بھیج سکتے ہیں۔ یہ بل واپس اسمبلی جائے گا اور اگر اسمبلی اپنے مشترکہ اجلاس میں اسے دوبارہ منظور کر دے تو وہ بل پھر صدرِ مملکت کے پاس آئے گا۔ اس بار صدرِ مملکت دستخط کریں یا نہ کریں‘ دس دنوں کے اندر وہ لازمی طور قانون بن جاتا ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں۔ صدرِ مملکت اپنے تئیں جو بل اسمبلی کو واپس بھیجوا چکے ہیں‘ وہ نئی اسمبلی ہی آ کر دیکھے گی۔ نئی اسمبلی آنے میں کم از کم چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے‘ تب تک یہ بل منظوری کے منتظر رہیں گے۔ یہاں بھی قانونی ماہرین کی آرا تقسیم ہیں۔ بعض ماہرینِ قانون کے مطابق صدرِ مملکت کی طرف سے دونوں بلز پر کوئی قانونی راستہ اختیار نہ کرنے کی وجہ سے اب یہ دونوں ترمیمی بلز قانون بن گئے ہیں جبکہ بعض ماہر ینِ قانون کے مطابق اگر صدرِ مملکت کوئی قانونی راستہ اختیار نہ کریں تو بھی یہ بل قانون نہیں بن جاتا جب تک کہ اسے دوبارہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے سامنے پیش نہ کیا جائے۔ بعض حلقوں کو دس دن پورے ہونے پر بھی تشویش ہے کہ جب قومی اسمبلی سے بل سات اگست کو پاس ہوا‘ سپیکر قومی اسمبلی نے بل وزیراعظم ہاؤس کو بھیجا اور آٹھ اگست کو ایوانِ صدر میں موصول ہوا تو 18اگست کو دس دن پورے ہونے پر بھی اس بل کا گزٹ 19اگست کو شائع کرنا چاہئے تھے‘ لیکن 18اگست کو ہی گزٹ شائع کر دیے گئے۔ نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دس دنوں کی مدت کے حوالے سے شکوک و شبہات کا خاتمہ کرے۔ ہماری دانست میں صدرِ مملکت نے بلوں کے حوالے سے ٹویٹ میں جس لاعلمی کا اظہار کیا ہے‘ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وہ بخوبی آگاہ تھے کہ بلوں کو واپس کر کے کس قسم کی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ شاید اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے نگران وزیر قانون نے کہا ہے کہ صدرِ مملکت نے ماضی قریب اور ماضی بعید میں بہت سے قوانین میں اختیارات کو استعمال کیا‘ وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔ یہ تشویشناک امر ہے کہ صدرِ مملکت نے اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا۔ صدرِ مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ نو مئی کے پُرتشدد واقعات کے بعد آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ان ترامیم پر کس فریق کو تحفظات ہیں‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے کے باوجود وہ فریق کیوں ان بلوں کی منظوری کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ ان سوالات کے جوابات جاننے سے پہلے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو سمجھنا ضروری ہے۔ درحقیقت آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل دو الگ بل ہیں۔ 1952ء میں بننے والے آرمی ایکٹ میں اس سے قبل 2015ء میں ہونے والی 21ویں ترمیم کے تحت سول و عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جا سکتی ہے۔ یہ شقیں پہلے سے موجود ہیں۔ اب کی بار 2023ء میں آرمی ایکٹ میں 18ترامیم تجویز کی گئی ہیں‘ اگر بل کی منظوری کر درست تسلیم کر لیا جائے تو آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ‘ استعفے یا برطرفی کے دو سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا جبکہ حساس ڈیوٹی پر تعینات فوجی اہلکار یا افسر ملازمت ختم ہونے کے پانچ سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔ آرمی ترمیمی ایکٹ کے مطابق خلاف ورزی کرنے والے اہلکار کو دو سال تک قید بامشقت کی سزا ہو گی جبکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ برطانوی دور میں 1923ء میں بنایا گیا تھا جو قومی رازوں‘ خفیہ مقامات اور دستاویزات کی حفاظت سے متعلق ہے۔
تحریک انصاف کو لگتا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے ذریعے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا‘ اس لیے وہ مذکورہ بلوں کی مخالفت کر رہی ہے۔ اس پس منظر کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ معاملہ ایسا نہیں ہے جیسے فریقین پیش کر رہے ہیں۔ ابہام کے خاتمہ کیلئے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا اور وہاں جو بھی فیصلہ ہو گا‘ اس کے قانونی سے زیادہ سیاسی اثرات ہوں گے۔ ان سطور کی تحریر کے وقت اسلام آباد میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سپیشل عدالت کا قیام عمل میں آ چکا ہے اور گزشتہ روز شاہ محمود قریشی کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظو ر کیا گیا۔ ان اقدامات سے لگتا ہے کہ ریاستی ادارے کسی تردد میں پڑے بغیر اپنا کام جاری رکھیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved