علامہ اقبال نے دنیا کی عارضی زندگی اور آخرت کی دائمی حیات کا موازنہ اپنے ایک شعر میں یوں کیا ہے ؎
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
یہ دنیا فانی ہے، یہاں جو بھی آیا ہے اسے اپنے وقت پر چلے جانا ہے۔ بقا صرف خالقِ کائنات کو ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۔ وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ۔ (الرحمن: 26 تا 27) ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے ربّ کی جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔
اس فانی مخلوق کو جب دوبارہ زندگی ملے گی تو وہ دائمی ہو گی۔ پھر نہ کسی کی موت ہو گی نہ کوئی نئی مخلوق وجود میں آئے گی۔ جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں ہمیشہ کیلئے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور دنیا کی اس زندگی میں آخرت کی تیاری کے لیے فکر عطا فرما دے۔ جب تک دنیا میں انسان موجود ہے غم بھی اور خوشی بھی اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ خوشی کو لوگ بھول جاتے ہیں اور غم کو یاد رکھتے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا ؎
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
اللہ کے ہر فیصلے پر سرتسلیم خم کرنا بندۂ مومن کا فرض ہے اور یہی ایمان کا حُسن اور مومن کی خوبی ہے۔ پوری کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب آقائے دو جہاں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ آپﷺ کی پیدائش سے قبل آپ کی آزمائشیں شروع ہو گئی تھیں اور زندگی کے آخری لمحے تک آپﷺ کو مسلسل ان آزمائشوں سے گزارا گیا۔ جب کسی بندۂ مومن پر آزمائش آئے تو آنحضورﷺ کی زندگی کے واقعات اسے حوصلہ بخشتے ہیں۔
اتفاق کی بات ہے کہ پچھلے ڈھائی سال میں میرے خاندان پر مسلسل آزمائشیں آتی رہیں۔ سب سے پہلے میری بڑی ہمشیرہ جو ہم سب بہن بھائیوں کے لیے والدہ مرحومہ کی وفات کے بعد ماں کا درجہ رکھتی تھیں، ا للہ کو پیاری ہو گئیں۔ دنیاوی اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی عمر گزار چکی تھیں پھر بھی یوں محسوس ہوا کہ جیسے دعائوں کا ایک خزانہ ہم سے چھن گیا ہے۔ ان کے بعد میرا انتہائی وفادار اور قابل، جواں سال بیٹا ڈاکٹر پروفیسر ہارون ادریس کورونا کی بیماری میں مبتلا ہو کر داغِ مفارقت دے گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے سب سے چھوٹی ہمشیرہ ان کے بعد ان سے بڑی ہمشیرہ، میری اہلیہ اور اس کے پندرہ دن بعد جواں سال بھانجا ذوالکفل بھی خلد بریں کو روانہ ہو گئے۔ ذوالکفل کی وفات کے دس دن بعد میرے چھوٹے بھائی میاں محمد یوسف کا دس سالہ پوتا یحییٰ بھی وفات پا گیا۔
عزیزم حافظ ذوالکفل کی وفات پورے خاندان کے لیے بڑا صدمہ تھا۔ وہ 14 جولائی کو 33 سال کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گیا۔ معصوم بچہ محمد زکریا (عمر ڈیڑھ سال) بیوی امِ زکریا اور عمر رسیدہ باپ میاں عبدالماجد کے ساتھ جملہ اہلِ خاندان، اہل و عیال اور احباب کی کثیر تعداد غم سے نڈھال ہو گئی۔ مرزا غالبؔ کا بھتیجا عارف جسے مرزا نے اپنا بیٹا بنا لیا تھا‘ جوانی میں وفات پا گیا تو غالبؔ نے ایک دردناک مرثیہ لکھا۔ جس کے ایک شعر میں یوں شکوہ کیا:
ہاں اے فلکِ پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
دل کی کیفیت تو ایسی ہی ہو جاتی ہے جیسی اس شعر میں مرزا غالبؔ نے بیان کی ہے، مگر ہمارا شیوہ شکوہ شکایت نہیں۔ ہم غم کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ ذوالکفل میری سب سے چھوٹی بہن زہرہ بی بی مرحومہ کا تیسرا بیٹا تھا۔ میری ہمشیرہ کی شادی میرے ماموں زاد میاں عبدالماجد کے ساتھ 1973ء میں ہوئی۔ چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے عزیزہ زہرہ بی بی پورے خاندان کو سب سے زیادہ پیاری تھیں۔ اللہ کی قدرت کہ شادی کے بعد نو سال تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ فطری بات ہے کہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے والدین اور اعزہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یقین تھا کہ وہ ذات باری اپنی رحمت سے محروم نہیں رکھے گی۔ پھر بھی دیگر اہلِ خاندان کی طرح مجھے بھی اپنی بہن کا گھر بچوں سے خالی دیکھ کر بہت افسردگی ہو جاتی تھی۔
عزیزہ بہن کے لیے دعائیں کرتے کرتے میری والدہ محترمہ 1978ء میں اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں۔ 1981ء میں والدِ گرامی حج کے لیے مکہ معظمہ گئے۔ میں نے پہلے (1977ء میں) حج کیا ہوا تھا۔ اس سال والدہ مرحومہ کی طرف سے حج بدل کرنے کے لیے کینیا سے مکہ مکرمہ آیا اور والد صاحب کے ساتھ حج کیا۔ والد صاحب ہمیشہ قرآنی و مسنون، جامع دعائیں مانگا کرتے تھے۔ ہمیں بھی بچپن ہی سے ان کی زبان سے سن سن کر مسنون دعائیں یاد ہو گئی تھیں۔ وہ راتوں کو کبھی بلند آواز سے کبھی دھیمے لہجے میں یہ دعائیں پڑھتے تو عجیب سماں بندھ جاتا۔
والد مرحوم نے حج کے دوران حرمین الشریفین میں اپنی بیٹی زہرہ کے لیے خصوصی طور پر رو رو کر دعائیں مانگیں۔ ایک روز وہ کہہ رہے تھے ''رب ذوالجلال! تو اگر بیٹا نہیں دینا چاہتا تو میری لخت جگر کو بیٹی ہی عطا فرما دے!‘‘۔ میں نے بعد میں عرض کیا ''میاں جی!اللہ تبارک و تعالیٰ بیٹے اور بیٹیاں سب اپنی مرضی کے مطابق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کیا مشکل ہے کہ وہ بیٹا نہ دے سکے۔بہرحال آپ کی دعا ان شاء اللہ ضرور قبول ہو گی اور ربّ رحمان و رحیم اولاد صالح سے نوازے گا‘‘۔ والد گرامی نے ترآنکھوں سے میری طرف دیکھا اور فرمایا ''اللہ تیری زبان مبارک کرے!‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے دعائیں قبول کرتے ہوئے 27 ستمبر 1983ء کو میری ہمشیرہ کو پہلا بچہ عطا فرمایا تو وہ ایک خوب صورت اور صحت مند و توانا بیٹا تھا۔ اس کا نام ضیغم عبدالماجد رکھا گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے اللہ نے تین مزید صاحبزادے سعد عبدالماجد 1988ء، ذوالکفل عبدالماجد 1990ء، ذوالنون عبدالماجد 1992ء میں اس گھرانے کو عطا کر دیے۔ بڑی خوشی کی بات یہ تھی کہ سبھی بچے تندرست اور توانا تھے۔ بیٹی کی رحمت سے اللہ تعالیٰ نے نہ نوازا۔ زہرہ کہا کرتی تھیں کہ میں اپنے گھر میں ان شاء اللہ وقتِ مقررہ پر چار بیٹیاں لے آئوں گی۔
عزیزم حافظ ذوالکفل کی وفات کے بعد مرحوم کے والد، میرے ماموں زاد بھائی میاں عبدالماجد اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''میں بغرض ملازمت ابوظہبی (متحدہ عرب امارات) میں مقیم تھا۔ حج کا ارادہ ہوا۔ فیملی کو حج کی نیت سے بلوایا۔ دو بچوں حافظ ضیغم اور حافظ سعد کی پیدائش پاکستان کی تھی۔ تیسرا بیٹا اللہ تعالیٰ نے 4 جولائی 1990ء کو العین (ابوظہبی) میں عطا کیا جس کا نام ذوالکفل رکھا گیا۔ الحمد للہ وزن اور صحت غیر معمولی تھی۔ ہسپتال میں دیگر بچوں کی مائیں حافظ ذوالکفل کی والدہ سے استفسار کرتیں کہ بہن بچے کی صحت کا راز کیا ہے، تو وہ مسکرا کر جواب دیتی کہ میں ایک دیہاتی خاتون ہوں‘ میں کیا بتا سکتی ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی ہے کہ اس نے صحت مند بچہ عطا کیا ہے۔ کچھ ہی عرصہ بعد پاکستان میں میری والدہ کی طبیعت خراب ہوئی تو اہلیہ بچوں سمیت واپس پاکستان چلی گئیں‘‘۔
جیسا کہ میاں عبدالماجد صاحب نے لکھا‘ ذوالکفل بہت تیز، مستعد اور ہوشیار بچہ تھا۔ میں نے اسے پاکستان اور متحدہ عرب امارات دونوں جگہوں پر کھیل کود کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ دور اور منظر عزیزم ذوالکفل کی وفات کے بعد بار بار آنکھوں کے سامنے تازہ ہو جاتا ہے۔ ہر جانے والا اپنی یادیں چھوڑ جاتا ہے اور ہر ایک کی یادیں اپنی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ جب بھی کوئی مرحوم یاد آئے تو اس کے لیے اور تمام اہلِ ایمان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرنا سنت نبوی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرا یہ مستقل معمول ہے کہ جب بھی کوئی مرحوم جس سے کبھی آشنائی رہی ہو، یاد آئے تو بے ساختہ اس کے لیے دعائے مغفرت زبان پر آ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایمان کے ساتھ زندہ رکھے اور ایمان ہی کے ساتھ اپنے پاس بلا لے۔ جانے والے چلے گئے اب ہمارا بلاوا آنے والا ہے۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
مجھے جماعتی ذمہ داریوں کے دوران دنیا کے مختلف ممالک کے سفردرپیش رہتے تھے۔ جب میاں عبدالماجد اور ان کی فیملی یو اے ای میں مقیم تھی تو متحدہ امارات کے دورے کے دوران دو مرتبہ ان کے پاس العین میں گیا اور فیملی کے سب چھوٹے بڑوں کو بہت اچھی حالت میں پایا۔میرے وہاں جانے پر میری ہمشیرہ اور ان کے میاں تو خوش ہوئے ہی تھے مگر چھوٹے بچوں کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ ہر سفر میں چند دنوں کے قیام کے بعد جب میں وہاں سے رخصتی کے لیے رخت سفر باندھتا تو بچے ضد کرتے کہ ماموں جان آپ نہ جائیں، آپ ہمارے پاس رہیں۔ جب یہ بچے پاکستان آ گئے تو پہلی مرتبہ گائوں میں مقیم ہوئے، دوسری مرتبہ واپسی پر منصورہ میں ہمارے پاس ہی قیام کیا۔ ان کا گھر بھی منصورہ میں زیرتعمیر تھا جو ایک سال میں مکمل ہو گیا۔ پھر وہ اپنے مکان میں منتقل ہوگئے۔ عبدالماجد صاحب کے بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے مجھے ان کی دیکھ بھال اور معاملات کو دیکھنے کی سعادت ملی۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved