لاہور کی تیرہ سالہ یاسمین کی حالت دیکھ کر اُس کے والدین کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ اُن کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ یکایک بچی نے آنکھیں کیوں موند لی ہیں‘ وہ کسی بات کا جواب کیوں نہیں دے رہی اور اُس پر بے ہوشی کی سی کیفیت کیوں طاری ہوگئی ہے۔ والدین اُسے لے کر بھاگم بھاگ ایک مقامی ڈاکٹر کے پاس پہنچے جس نے تفصیلی معائنے کے بعد اُنہیں کہا کہ بچی کو فوراً دل والے ہسپتال (پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی) میں لے جائیں۔ بچی کا والد اُسے لے کر پی آئی سی پہنچ گیا جہاں ایمرجنسی طبی امداد ملنے کے بعد بچی کی حالت میں کسی قدر بہتری آگئی۔ اب ڈاکٹروں نے بچی کے والدین کو بتایا کہ یہاں صرف بڑوں کا علاج ہوتا ہے اِس لیے آپ بچی کو لے کر چلڈرن ہسپتال چلے جائیں۔ والدین بچی کو لے کر واپس آتے ہیں‘ کچھ پیسوں کا بندوبست کرنے کے بعد چلڈرن ہسپتال چلے جاتے ہیں۔ کئی روز تک چکر لگانے کے بعد بالآخر ایک بڑے ڈاکٹر صاحب بچی کو چیک کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بچی کو پیدائشی طور پر دل کا مسئلہ ہے اور فوری طور پر آپریشن کرنا ناگزیر ہے۔ پوچھا گیا کہ یہ آپریشن کب تک ہو جائے گا تو کندھے اُچکاتے ہوئے جواب ملا کہ کم از کم چار‘ پانچ ماہ لگ جائیں گے۔ پوچھا گیا کہ آپ توکہہ رہے ہیں کہ بچی کا فوری طور پر آپریشن کرنا ناگزیر ہے لیکن چار‘ پانچ ماہ بعد؟اس پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اور بھی بہت سے معاملات دیکھنا پڑتے ہیں اور یوں بھی کافی بچے پہلے ہی قطار میں لگے ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب اِس بچی کی باری آئے گی تبھی اِس کا آپریشن کیا جائے گا۔ بچی کے والدین کے لیے یہ مرحلہ بہت مشکل تھا کہ ان کی بیٹی کی حالت انتہائی تشویش ناک تھی لیکن ڈاکٹر صاحبان چار‘ پانچ ماہ سے پہلے کوئی وقت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اُنہوں نے ڈاکٹروں کو قائل کرنے کی کافی کوشش کی لیکن بات بن نہ سکی۔ یوں بھی اَن پڑھ والدین کے لیے ''بڑے ڈاکٹر‘‘ سے زیادہ بحث کرنا اُن کے لیے کافی مسائل پیدا کرسکتا تھا۔ سو وہ واپس گھر آ گئے اور کوئی دوسری سبیل سوچنے لگے۔ اِس دوران متعدد مرتبہ بچی کی طبیعت خراب ہوتی رہی اوروالدین اُسے بے بسی سے دیکھنے کے علاوہ کچھ کر نہیں پا رہے تھے۔
اِسی دوران اُنہیں کسی نے بتایا کہ فیروزپور روڈ پر ایک ہسپتال میں ایک بہت قابل ڈاکٹر بیٹھتا ہے‘ وہاں چلے جاؤ۔ والدین اپنی بچی کو لے کر اُس ہسپتال میں جا پہنچے لیکن اُنہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ ایک پرائیویٹ ہسپتال ہے۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب نے اپنی فیس وصول کرنے کے بعد اُنہیں بتایا کہ بچی کو دل کا عارضہ لاحق ہے اور آپریشن بھی فوری ہونا چاہیے‘ آپ بچی کو فلاں خیراتی ہسپتال میں لے جائیں‘ وہاں بچی کا صحت کارڈ پر علاج ہوجائے گا۔ یہ بتاتا چلوں کہ بچی کا باپ حجام ہے اور اُس کی چھوٹی سی ایک دکان ہے۔ جب بھی وہ بچی کو ہسپتال لے کر جاتا تو اِس دوران اُسے اپنی دکان بند رکھنا پڑتی۔ بہرحال وہ مذکورہ ہسپتال میں پہنچا اور ڈاکٹروں نے بچی کو چیک کرنے کے بعد بتایا کہ یہاں صحت کارڈ پر بچی کا علاج ہو جائے گا۔ والدین خوش ہوگئے کہ اب اُن کی بچی صحت یاب ہو جائے گی۔ شومیٔ قسمت کہ اِسی دوران اُنہیں بتایا جاتا ہے کہ صحت کارڈ بند ہوگیا ہے لہٰذا آپریشن کے لیے چھ لاکھ روپے کا انتظام کریں۔ اب والدین کے لیے کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ بچی کو لے کر گھر بیٹھ جائیں؛ تاہم بچی کی حالت اُنہیں کسی طور چین سے نہیں بیٹھنے دے رہی تھی۔ وہ دونوں اسے لے کر ایک مرتبہ پھر پہلے والے ڈاکٹر کے پاس گئے اور اُس کی منت سماجت کی۔ اُس نے کہا کہ میں ہفتے میں دوروز راولپنڈی ایک سرکاری ہسپتال میں بیٹھتا ہوں‘آپ لوگ ایسا کریں کہ بچی کو لے کر 18اگست کو پنڈی کے اُس ہسپتال میں پہنچ جائیں۔ بچی کے والد نے کسی سے بیس ہزار روپے اُدھار لیے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنی بیٹی کو لے کر پنڈی پہنچ گیا۔ وہاں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے ایک لیڈی ڈاکٹر سے کہا کہ اِن سے تمام تفصیلات حاصل کر لیں۔ لیڈی ڈاکٹر صاحبہ نے سوال و جواب کرنے اور میڈیکل ہسٹری دیکھنے کے بعد کہا کہ آپ آٹھ نومبر کو دوبارہ آجائیں‘ بچی کا علاج ہوجائے گا۔ بچی کے والدین ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگتے ہیں کہ اگر یہی کہنا تھا تو اِس کے لیے اُنہیں لاہور سے راولپنڈی بلانے کی کیاضرورت تھی؟ بچی کا علاج بھی نہ ہوا اور اُدھار لی گئی رقم بھی ضائع گئی۔
یہ سب کرتے کراتے پانچ ماہ کا وقت گزر چکا ہے۔ اِ س دوران بچی کے والد کویہ مشورہ بھی دیا گیا کہ اپنا ایک گردہ بیچ کر بچی کا آپریشن کسی پرائیویٹ ہسپتال سے کرا لو۔ مجبور والد اِس بات پر بھی راضی ہوگیا لیکن بعد میں مذکورہ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ بات میں نے مذا ق میں کہی تھی۔ اندازہ کریں کہ ہمارے ملک میں کیسے کیسے ''مذاق‘‘ ہوتے ہیں۔ ایک موقع پر جب بچی کے والد نے ایک ڈاکٹر سے کہا کہ میری بیٹی کی حالت بہت خراب ہے اور آپ آپریشن کے لیے مہینوں بعد کا وقت دے رہے ہیں‘ اِس دوران اسے کچھ ہوگیا تو...؟ جس پر ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا: جو اللہ کا حکم!
اب عالم یہ ہے کہ یاسمین کے والدین اُسے بے بسی سے دیکھتے رہتے ہیں یا پھر یہ دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ خدا اُن کے لیے کوئی مسیحا بھیج دے اور کسی طرح اس کا علاج ہوجائے۔یہ اُن کوششوں کا مختصر سا احوال ہے جو مجبور والدین نے اپنی بیٹی کا علاج کرانے کے لیے کی ہیں‘ اِن کوششوں کی تفصیل بہت طویل ہے۔ یہ سب کچھ کرتے کراتے ایک غریب شخص خاصا مقروض ہوچکا ہے لیکن اِس کے باوجود کوئی بات بنتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ہمارے ملک میں یہ مجبور والدین کوئی واحد مثال نہیں ہیں۔ یہاں مجبوریوں کی ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ سن کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف دعوے اتنے بڑے بڑے کہ جیسے صحت کی سہولتوں کے حوالے سے ہمارا ملک دنیامیں نمبر ون ہے۔اگر آج یہ غریب باپ کہیں سے پانچ‘ سات لاکھ روپے کا انتظام کرلے تو اگلے ہی دن آپریشن ہوجائے گا، مگر اتنے پیسے وہ کہاں سے لائے؟ اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں کہ بیمار شخص کے لیے خدا کے بعد ڈاکٹر ہی سب سے بڑی اُمید ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے میں بڑی تعداد صرف پیسہ کمانے کی دھن میں مگن ہے۔ بظاہر اب اُس غریب حجام کے لیے یہی ایک راستہ رہ گیا ہے کہ وہ اپنی بچی کو اُٹھائے ایک سے دوسرے ہسپتال کے چکر لگاتا رہے‘ اِس اُمید پر کہ شاید کوئی طبی ادارہ اُس کی مدد کر دے۔
ایک طرف مجبور والدین اپنے بچوں کا علاج تک کرانے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے کھیل تماشے ہی ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ ریاست بچانے کے لیے آنے والے معیشت کو طوفان کے حوالے کر کے دوبارہ بیرونِ ملک جا چکے ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں بیرونی ممالک میں علاج کی بہترین سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں۔بڑے لوگوں کو کمر میں درد ہوجائے تو بھی وہ علاج کے لیے لندن سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔ بے شمار اُمرا سالانہ طبی معائنے کے لیے کسی مغربی ملک کا ہی رخ کرتے ہیں کہ یہاں کی سہولتوں کو وہ اپنے لیے مناسب خیال نہیں کرتے۔ ایک طرف یہ عالم ہے تو دوسری طرف غریب آدمی سردرد کی گولی کے لیے بھی خوار ہو رہا ہے۔لالچ نے ہماری آنکھوں پر کچھ ایسی پٹی باندھی ہے کہ ہمیں پیسوں کے علاوہ کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔معصوم یاسمین بھی اِسی لالچ کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اُس نے تو ابھی دنیا کو ڈھنگ سے دیکھا بھی نہیں ہے۔ کوئی تو اُس کے والدین سے پوچھے کہ اُن کے دلوں پر کیا گزر رہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved