عملی زندگی کے تقاضوں کو سمجھنا ہر اُس انسان کے لیے لازم ہے جو ڈھنگ اور احترام سے جینا چاہتا ہے۔ عملی زندگی ہم سے ایسا بہت کچھ طلب کرتی رہتی ہے جو ہم بالعموم پسند نہیں کرتے۔ جو لوگ اپنے بل پر جینے کے خواہش مند ہوتے ہیں اُنہیں بہت سے معاملات میں دل پر جبر کرنا پڑتا ہے، خواہشوں کو مارنا پڑتا ہے۔ یہ عمل ناگزیر ہے کیونکہ سب کچھ ہماری مرضی کا نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا۔
ہماری زندگی یا یوں کہیے کہ ہمارا وجود بنیادی طور پر دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک ہے معاشی وجود اور دوسرا ہے معاشرتی وجود۔ ہم اپنے معاشی وجود کو کامیابی سے ہم کنار رکھنے کے لیے زندگی بھر تگ و دَو کرتے رہتے ہیں۔ معاش کے محاذ پر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اگر نہ کیا جائے تو ادھورے پن کا سامنا رہتا ہے۔ معاشی تگ و دَو انسان کو الجھنوں سے دوچار رکھتی ہے۔ خیر‘ اِس الجھن میں تھوڑی بہت راحت بھی ہے۔ اگر انسان نے پوری دیانت سے محنت کی ہو اور جاں فِشانی کا مظاہرہ کرنے کے معاملے میں پیچھے نہ رہا ہو تو دل کو عجیب سی طمانیت نصیب ہوتی ہے۔ یہ طمانیت اُس وقت نصیب نہیں ہوتی جب بیٹھے بٹھائے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ محنت کی کمائی کا اپنا مزہ ہے جو کسی اور طریقے سے کشید نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے جسے تسلیم کروانے پر بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔
معاشرتی وجود کو بھی ہماری توجہ درکار ہوتی ہے۔ معاشی تگ و دَو سے وقت مل جائے تو انسان معاشرتی معاملات کو بھی درست کرنے پر متوجہ ہوتا ہے۔ انسان کی اولین ترجیح معاشی وجود کو حاصل رہتی ہے اس لیے معاشرتی وجود تھوڑا سا پیچھے رہ جاتا ہے۔ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان معاشرتی معاملات کو بالکل نظر انداز کردے اور مطمئن ہو رہے کہ کوئی خرابی پیدا نہیں ہوگی۔ انسان کو زندگی بھر الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ یہ الجھنیں معاشی مسائل سے بھی پیدا ہوتی ہیں اور معاشرتی پیچیدگیوں سے بھی۔ لازم ہے کہ انسان دونوں میں فرق کرنا سیکھے اور اپنے حصے کا کام ضرور کرے یعنی جو کچھ بھی کرنا ناگزیر ہو ضرور کر گزرے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کہیں نہ کہیں سستی دکھا جاتے ہیں اور پھر اِس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔
کامیاب زندگی وہ ہے جو اپنے بل پر گزرے۔ عملی زندگی کا بنیادی تقاضا یہی ہے کہ انسان کو اپنی تمام ضرورتیں اپنی تگ و دَو سے پوری کرنی چاہئیں۔ اس تقاضے کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ایسی خرابیوں کی صورت میں برآمد ہوتا ہے جن سے نپٹنے میں زندگی کھپ جاتی ہے۔ جن لوگوں کو اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کی فکر لاحق رہتی ہے وہ اُن کی تربیت کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں۔ علم و فن کے میدان میں بھی اُنہیں بہت کچھ سکھانا پڑتا ہے اور معاشرتی معاملات درست رکھنے پر بھی محنت کرائی جاتی ہے۔ کسی بھی بچے کو والدین کی طرف سے ملنے والا بہترین تحفہ ہے تربیت۔ اِس سے مراد صرف یہ نہیں کہ بچہ بزرگوں کا احترام کرنا سیکھے، شائستگی سے بات کرے، دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے اور بے جا مشوروں سے کسی کا ناک میں دم نہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھی تربیت کے نتیجے میں بچہ ایک اچھے انسان کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اچھا انسان کیا ہوتا ہے؟ اِس حوالے سے تصریح و تشریح میں اختلافِ رائے ہوسکتا ہے مگر ایک بات تو طے ہے کہ اچھا انسان وہ ہے جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا سوچے، کسی کے لیے کوئی بڑی الجھن پیدا نہ کرے اور کسی کو بلا جواز طور پر تنگ نہ کرے۔ جو لوگ دوسروں کے جذبات اور ضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں وہ سب کو اچھے لگتے ہیں۔
والدین کی طرف سے تربیت میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ عزتِ نفس کو بھی نمایاں مقام ملنا چاہیے۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی انسان کو خاصی چھوٹی عمر سے بتایا جائے کہ وہی زندگی قابلِ احترام ٹھہرتی ہے جو اپنے بل پر بسر کی جائے۔ جن بچوں کو عزتِ نفس کے ساتھ جینا سکھایا جاتا ہے اُنہیں آپ دور ہی سے اور پہلی نظر میں شناخت کرلیتے ہیں۔ بہت سوں کو آپ ایسی حالت میں دیکھیں گے کہ تھوڑی بہت پریشانی وارد ہونے پر بھی زیادہ الجھن محسوس نہیں کرتے اور کسی نہ کسی طور اپنی گاڑی اپنے بل پر چلاتے رہتے ہیں۔ وہ بات بات پر ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ایسے لوگ اپنی آمدن کی حدود میں رہتے ہوئے جینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی ایک بنیادی خصوصیت ایسی ہے جو اب بہت حد تک گلے کا پھندا بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ مجموعی طور نرم دل واقع ہوئے ہیں۔ کسی کی مدد کرنے کا جذبہ عمومی سطح پر خاصا نمایاں ہے۔ یہ جذبہ معاشرے میں توازن پیدا کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ کسی بھی ضرورت مند کی پریشانی کا احساس کرتے ہوئے اُس کی مدد کرنا ایسا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ کم و بیش ہر معاشرے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں اور اُنہیں بے جا طور پر پریشان ہونے سے بچاتے ہیں۔ یہاں تک تو بات درست ہے اور قابلِ ستائش بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ کسی کی مدد کرنے کا جذبہ کہاں تک ہونا چاہیے۔ ہمدردی بہت اچھی چیز ہے لیکن اگر ہمدردی بخار بن کر حواس پر سوار ہو جائے تو...؟ آج کے ہمارے معاشرے میں عجیب و غریب تضادات دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا محض اِس لیے ہے کہ ہم توازن کھو بیٹھے ہیں۔ ہر معاملے میں عدم توازن اِس قدر نمایاں ہے کہ دیکھنے اور سمجھنے کے لیے زیادہ محنت بھی نہیں کرنا پڑتی۔ کوئی اگر خِسّت پر مائل ہے تو انتہا کو پہنچا ہوا ہے یعنی کسی کی طرف دیکھتا ہی نہیں‘ مدد ہی نہیں کرتا۔ اور اگر کسی نے طے کرلیا ہے کہ لوگوں کی مدد کرتے رہنا ہے تو پھر وہ اپنے وجود کو بھی نظر انداز کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ خِسّت یعنی بُخل بھی نقصان دہ ہے اور فضول خرچی بھی کسی کام کی نہیں۔ بالکل اِسی طور بات بات پر کسی کی مدد کرنے پر آمادہ ہو جانا بھی کسی کام کا نہیں۔ اگر کسی کو یقین ہو جائے کہ ذرا سا پکارنے پر لوگ اُس کی مدد کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے تو پھر وہ اپنے طور پر تگ و دَو کرنے سے مجتنب رہے گا اور امداد پر زندہ رہنا پسند کرے گا۔ ہم اپنے معاشرے پر تھوڑی سی توجہ مرکوز کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ جب کسی کو مدد کرنے پر آمادہ پاتے ہیں تو مدد لینے کی راہ پر گامزن رہتے ہیں اور تگ و دَو کی روش پر گامزن ہونا ترک کردیتے ہیں۔
ہمدردی ایسا وصف ہے جو انسان کو مزاج و کردار کی بلندی سے نوازتا ہے۔ کسی کی مدد کرکے جو خوشی ملتی ہے اُس کا نعم البدل کچھ نہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی کبھی کوئی شخص لوگوں کی مدد کرنے پر اِس قدر آمادہ رہتا ہے گویا ہمدردی کے بخار کو اپنے وجود پر طاری کرلیتا ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ لوگ اُس سے کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ جو بات بات پر مدد کرنے کے لیے تیار ہو اُس سے مدد پانے والوں کی کمی کیوں ہونی چاہیے؟ ہمدردی ایسا جذبہ ہے جسے بہت سوچ سمجھ کر بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ اگر بے ذہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر کسی کی مدد کرتے رہنے کو مزاج کا حصہ بنالیا جائے تو ضرورت مند رفتہ رفتہ ''مُفتے‘‘ بنتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی کو بامعنی اور بامقصد بنانے کے بجائے صرف امداد پر جینے کو زندگی قرار دے لیتے ہیں اور پھر اُن سے اپنے لیے معمولی درجے کی تگ و دَو بھی نہیں ہو پاتی۔ ہمدردی کا بخار جس پر چڑھتا ہے وہ تو برباد ہوتا ہی ہے، جو اُس سے ''مستفید‘‘ ہوتے رہنے کو زندگی سمجھ بیٹھتے ہیں وہ بھی بالآخر بربادی کے گڑھے میں گرتے ہیں۔
دینی اور دُنیوی دونوں تعلیمات کا ایک بنیادی تقاضا توازن اور اعتدال ہے۔ کسی سے مدد لینے اور مدد کرنے کے معاملے میں بھی اعتدال لازم ہے۔ اگر آپ کا دل نرم ہے تو آپ ضرورت مندوں کی مدد کرنے کو ترجیح دیں گے لیکن اگر آپ نے اس معاملے میں بے ذہنی سے کام لیا اور ہمدردی کی رَو میں بہتے چلے گئے تو لوگ آپ سے محض کھلواڑ کرتے رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved